معروف امریکی تجزیہ کار کیتھ پریسٹن (Keith Preston) نے ڈیلی کیھان کو انٹرویو دیتے ھوئے انسانی حقوق کی تنظیموں اور انسانی حقوق کی نام نھاد حامی حکومتوں کی سعودی حکومت کی جانب سے یمن اور سعودی عرب میں شیعہ نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر پراسرار خاموشی کی شدید مذمت کرتے ھوئے کھا ہے کہ یہ اقدامات تمام مسلمانوں اور حریت پسند انسانوں کے جذبات مجروح ھونے اور ان کا دل دکھنے کا باعث بنے ہیں۔
دوسری طرف امریکی حکام نہ صرف آل سعود رژیم کے ان غیرانسانی اقدامات پر ردعمل کا اظھار نھیں کرتے بلکہ جدیدترین اور بعض اوقات ممنوعہ جنگی ھتھیار بیچ کر سعودی حکومت کو اس قتل عام میں مزید مدد فراھم کر رھے ہیں۔ ورجینیا یونیورسٹی سے مذھبی امور کے ماھر کیتھ پریسٹن 6 کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں "انتشار کی شکست" اور "نظام پر حملہ" وغیرہ شامل ہیں۔
سوال: ایک طرف آل سعود رژیم یمن میں خواتین اور بچوں کا قتل عام کر رھی ہے جبکہ انسانی حقوق کے ادارے خاص طور پر مغربی ادارے اس پر کسی قسم کے ردعمل کا اظھار نھیں کر رھے اور چپ اختیار کر رکھی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
کیتھ پریسٹن: آل سعود رژیم کے مجرمانہ اقدامات کا نشانہ بننے والے افراد مغرب کی توجہ سے بے بھرہ ہیں کیونکہ ان پر توجہ دینے سے امریکہ اور مغربی طاقتوں کے مفادات کو زک پھنچتی ہے۔ مغرب میں سرگرم انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی سیاسی تحفظات کا شکار ہیں۔ یہ تنظیمیں مغرب میں سرگرم باقی تنظیموں کی طرح شدت سے سیاسی رجحانات کی حامل ہیں۔ لھذا امریکہ اور مغربی حکومتوں کی پالیسی یہ ہے کہ زیادہ تر ان ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو زیادہ اجاگر کیا جائے جو ان کے دشمن تصور کئے جاتے ہیں۔ لھذا وہ اپنے سیاسی اتحادیوں کی جانب سے انجام پانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ یمن کا شمار بھی ایسے ھی ممالک میں ھوتا ہے جس کے خلاف انجام پانے والے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں امریکہ اور مغربی ممالک کیلئے کوئی خاص اھمیت نھیں رکھتے۔
سوال: آپ کی نظر میں آل سعود کی جانب سے العوامیہ اور دیگر شھروں میں اپنے ھی شیعہ عوام کے قتل عام کا اصل مقصد کیا ہے؟
کیتھ پریسٹن: درحقیقت العوامیہ میں شیعہ شھریوں کا قتل عام اور یمن میں نسل کشی متعدد پھلووں سے آپس میں ملتے جلتے اقدامات ہیں۔ ان تمام اقدامات کا مقصد سعودی عرب اور یمن میں ایران کے اثرورسوخ کو کم کرنا ہے۔ آل سعود رژیم اپنی سرزمین اور یمن میں ایران کے بڑھتے ھوئے اثرورسوخ سے شدید پریشان ہے اور اسے روکنے کیلئے ھر قسم کا اقدام انجام دینے کیلئے تیار ہے۔
سعودی عرب میں شیعہ شھریوں پر سعودی حکومت کے حملے دراصل ایران سے اس کی رقابت کا شاخصانہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے مشرق وسطی میں سرگرم اسلامی مزاحمتی محاذ اور خلیجی ریاستوں کے سنی – مغربی اتحاد کے ٹکراو کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یمن اور العوامیہ کے شیعہ شھری بھی اسی ٹکراو کی بھینٹ چڑھ رھے ہیں۔
سوال: بعض یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آل سعود رژیم کے وحشیانہ حملوں کی اصل وجہ خطے میں اس ملک کو ھونے والی متعدد ناکامیاں ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کھتے ہیں؟
کیتھ پریسٹن: سعودی عرب کی جانب سے شیعہ مسلمانوں کے خلاف شدت آمیز اقدامات میں اضافے کی کئی وجوھات ہیں۔ پھلی وجہ یہ ہے کہ آل سعود رژیم ان حملوں کے ذریعے اپنی ماضی کی ناکامیوں کا ازالہ کرنا چاھتی ہے۔ جب سے سعودی عرب میں محمد بن سلمان ولیعھد بنے ہیں، سعودی جارحیت میں اضافہ ھوا ہے۔ سب سے زیادہ اھم وجہ امریکی حکمرانوں خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور آشیرباد ہے جس نے سعودی حکام کو مجرمانہ اقدامات انجام دینے پر جری کر دیا ہے۔ امریکہ نے حال ھی میں سعودی عرب سے اربوں ڈالر اسلحہ بیچنے کا معاھدہ کیا ہے جس کے نتیجے میں سعودی عرب کی فوجی طاقت میں کئی گنا اضافہ ھو گیا ہے۔
سوال: مغربی ایشیائی خطے میں سلفی اور تکفیری عناصر بھت حد تک وھابیت سے متاثر ہیں، وھابی طرز فکر میں کون سی ایسی چیز موجود ہے جو ان افراد کو اس حد تک وحشی اور شدت پسند بنا دیتی ہے؟
کیتھ پریسٹن: مغربی مفکرین کے بقول وھابیت دراصل اسلام کی غلط اور انتھاپسندی پر مبنی تفسیر ہے۔ شیعہ اور سنی ذرائع ابلاغ میں بھی وھابیت کے بارے میں مثبت رائے نھیں پائی جاتی۔ البتہ گذشتہ پچاس برس کے دوران آل سعود رژیم کی بھرپور اور وسیع حمایت کے نتیجے میں وھابیت بھت تیزی سے پھیلی ہے۔
وھابیت کا بنیادی ترین کام استعماری طاقتوں اور حکومتوں نیز دنیا بھر خاص طور پر خطے میں سرگرم دھشت گرد گروھوں کو اھداف مھیا کرنا ہے۔ موجودہ دور میں وھابیت کے طاقتور ھو جانے کی ایک اور وجہ آل سعود رژیم کی مالی مدد ہے۔ خطے میں وھابیت کے خاتمے کا واحد راستہ سعودی عرب میں آل سعود خاندان کی سرنگونی اور اس کی جگہ ایک اور ایسی حکومت کا برسراقتدار آنا ہے جو وھابیت کی حامی نہ ھو۔
سوال: جیسا کہ آپ نے کھا، سعودی عرب خطے میں وھابیت کا اصل حامی ہے۔ کیا ابھی وہ وقت نھیں آیا کہ دنیا وھابیت اور سعودی عرب کے خلاف اٹھ کھڑی ھو اور ان کا مقابلہ کرے؟
کیتھ پریسٹن: جی ھاں بالکل ایسا ھی ہے۔ اس وقت وھابیت سے مقابلے کی اھمیت شدت سے محسوس کی جا رھی ہے۔ دوسری طرف یہ ایک بڑا کام ہے جس میں ان تمام ممالک سے مقابلہ ضروری ہے جو کسی نہ کسی طرح وھابیت کی مالی، سیاسی اور فوجی مدد کر رھے ہیں۔
دوسری طرف وھابیت کا اصلی ترین حامی سعودی عرب ہے جو خطے میں امریکہ کا اتحادی ہے لھذا امریکہ اور مغربی طاقتیں ھرگز وھابیت کے خلاف کوئی موثر قدم نھیں اٹھائیں گی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے مغربی خاص طور پر امریکی مفادات کی تکمیل خطے میں وھابیت کی موجودگی کا تقاضہ کرتی ہے۔ لھذا میرا عقیدہ یہ ہے کہ ایران اور روس جیسے ممالک ھی وھابیت کا حقیقی مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ وھابیت کو ایک خطرہ تصور کرتے ہیں۔