جس وقت کوئی انسان ِ غیر جانبدار محقق کے عنوان سے وھابیت کا مطالعہ کرتا ھے ، وھابیوں اور خوارج کے درمیان بھت سی شباھتیں دیکھتا ھے او ریہ نتیجہ نکالتا ھے کہ : فرقہ وھابی اسی تاریخی خوارج کا طرز تفکر کا سلسلہ ھے ، اس مطلب کو واضح وروشن کرنے لئے پھلے خوارج کے سلسلہ میں کچھ وضاحت کرنا ضروری ھے اس کے بعد خوارج اور وھابیت کے درمیان موجود شباھتوں کا ذکر کریں گے۔
خوارج کی پیدائش
خوارج یعنی بغاوت کرنے والے، یہ کلمہٴ ”خروج“ سے نکلا ھے جس کے معنی سرکشی اور بغاوت کے ھیں، خوارج کا ظھور جنگ صفین سے ھواھے ، جس کی داستان تفصیلی ھے ، اسلام دشمنوں نے مسلمانوں کو فریب اوردھوکہ دینے کے لئے معاویہ کے حکم سے قرآن نیزوں پربلند کیا تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ میں ڈال سکیں، اور اپنی یقینی شکست سے نجات پیدا کرسکیں،اور اتفاق سے ان کا یہ حربہ کارگر ھوگیا اور بعض مقدس مآب مسلمان ان کے جال میں پھنس گئے، اور نعرہ بلند کردیا کہ ھم اھل قرآن سے جنگ نھیں کریں گے ، اور یہ جنگ شریعت اسلام کے خلاف ھے ۔
حضرت علی علیہ السلام نے بھت کوشس کی کہ ان کو معاویہ کے مکر وفریب سے آگاہ کریں لیکن ان لوگوں نے نا سمجھنے کی قسم کھائی ھوئی تھی ، لھذا ان سادہ اور بے وقوف مسلمانوں نے حضرت کی باتوں کو قبول نہ کیا اور جنگ روک دی اورحضرت کو بھی جنگ روکنے پر مجبور کردیا، اور حضرت نے بھی مجبوراً پیچھے ھٹنے کا حکم دیدیا اور سر انجام ”حکمیت“(کسی حاکم اور قاضی قرار دینا) کا مسئلہ پیش آیا، یہ ایک نیا حیلہ تھا ، ابوموسیٰ اشعری نے عمر وعاص سے شکسکت کھائی ، وھی سادہ لوح مسلمان کہ جھنوں نے حضرت علی علیہ السلام کو حکمیت پر مجبور کیا تھا، آکر کھنے لگے: ھم نھیں سمجھ پائے تھے اورھم نے حکمیت کو قبول کرلیا ھم بھی کافر ھوگئے اور تم بھی کافر ھوگئے،(معاذاللہ)کیونکہ دین خدا میں کسی کی حکمیت نھیں ھے یہ کام خلاف شرع اور کفر ھے ، حاکم اور داور فقط خدا ھے کوئی انسان حکم نھیں ھوسکتا،(معاذاللہ) لھذا آپ بھی کافر ھوگئے اور ھم نے تو،توبہ کرلی ھے آپ بھی توبہ کیجئے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: توبہ ھر حال میں بہتر ھے ”استغفرُ من کلّ ذنب“ ھم ھمیشہ استعفار کرتے رھتے ھیں ، اس وقت لوگوں نے کھا: یہ کافی نھیں ھے بلکہ آپ اعتراف کریں کہ حکمیت گناہ تھی اور اس سے توبہ کریں،تب حضرت نے جواب دیا: میں نے حکمیت کے مسئلہ کو پیدا نھیں کیا ، تم لوگوں نے خود اس مسئلہ کو پیدا کیا ھے ،اور اس کے نتائج بھی دیکھ لئے ھیں اور دوسری بات یہ کہ جو چیز اسلام نے جائز قرار دی ھے میں کیونکر اس کو گناہ قرار دوں اورجس گناہ کا میں مرتکب نھیں ھوا کیونکر اس کا اعتراف کروں۔
یھیں سے ایک گروہ ایک مذھبی فرقہ اور سیاسی گروہ کے عنوان سے حضرت علی علیہ السلام سے جدا ھوگیا اور اپنی خاص طرز تفکر سے اپنی کارکردگی شروع کردی ، شروع میں یہ فرقہ باغی اور سرکش فرقہ تھا اس وجہ سے اس کو ”خوارج“ کے نام سے یا د کیا جاتا تھا، لیکن آھستہ آھستہ اس فرقہ نے اپنے لئے اعتقادی اصول بنائے، یہ گروہ جو شروع میں ایک سیاسی گروہ تھا، آھستہ آھستہ ایک مذھبی فرقے میں تبدیل ھوتا چلا گیا، اس کے بعد خوارج نے اپنے مذھب کی طرفداری میں وسیع پیمانے پر تبلیغ شروع کردی، اور آھستہ آھستہ اس فکر میں لگ گئے کہ دنیائے اسلام کے تمام مفاسد اور برائیوں کو ختم کیا جائے اور اس نتیجہ پر پھونچے کہ علی،(ع) عثمان او رمعاویہ سب کے سب خطاکار اورگناھگار تھے، ھمیں چاھئے کہ جو برائیاں اسلام میں پیدا ھوگئی ھیں ان کو مٹادیا جائے، امر بالمعروف اور نھی عن المنکرکریں ، لھذا فرقہ خوارج امر بالمعروف ونھی عن المنکر کے وظیفہ کو لے کر آگے بڑھا۔(۱)،خوارج نہ دینی بصیرت رکھتے تھے اورنہ ھی عملی بصیرت ، جاھل اور بے بصیرت لوگ تھے، بلکہ عملاً بصیرت کے منکر تھے کیونکہ اس تکلیف کو تعبدی جانتے تھے کہ اس کام کو آنکھیں بند کرکے انجام دینا چاھئے۔
خوارج کے اعتقادی اصول
خوارج کے اصول اور ان کے عقائد کی بنیاد کو چند چیزوں میں خلاصہ کیا جاتا ھے ، ان کے عقیدے درج ذیل ھیں:
۱۔عثمان ومعاویہ اور حضرت علی علیہ السلام کافر ھیں ، اور اسی طرح اصحاب جمل اور اصحاب تحکیم (جن لوگوں نے حکمیت کو قبول کیا تھا) اور جن لوگوں نے حکمیت کے بارے میں رائے دی تھی او راس کے بعد توبہ نھیں کی تھی وہ سب کافر ھیں ۔
۲۔جو لوگ علی (ع)، عثمان، اور مذکورہ دوسرے لوگوں کو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر ھے۔
۳۔ایمان فقط دل کے عقیدہ کا نام نھیں ھے ، بلکہ واجبات کو انجام دینا اور محرمات سے اجتناب کرنا بھی ایمان کا جز ھے،یعنی ایمان دوچیزوں سے مرکب ھے : ایمان اور عمل۔
۴۔ ظالم والی اور امام ِستمگرپرخروج کرنا بغیر کسی شرط کے واجب ھے ، ھر حال میں امر بالمعروف ونھی عن المنکر واجب ھے اور کسی خاص شرط پر موقوف نھیں ھے ، خدا کا یہ حکم تمام مقامات اور بغیر استثناء کے انجام دینا چاھئے۔
اس فتین فرقہ کے عقائد میں اتنی شدت آئی کہ تمام مسلمانوں کو کافر کھنے لگے، اور سب کے قتل کو جائز ماننے لگے اورھمیشہ آتش جھنم میں رھنے کے قائل ھوگئے۔
خلافت کے مسئلہ میں خوارج کا عقیدہ
یہ ”خوارج“ھی کی فکر تھی کہ جو آج کل کے متجددین کے نزدیک روشن و واضح مانی جاتی ھے خلافت کے بارے میں ان کی تھیوری تھی اور ڈیموکریٹ(جمھوریت پسند) نظریہ رکھتے تھے ان کا نعر ہ تھا کہ خلافت آزاد طریقہ سے انتخاب ھونی چاھئے اور خلافت کے لئے سب سے لائق وہ شخص ھے کہ جو باایمان اور تقویٰ میں سب سے زیادہ ھو، چاھے وہ قریشی ھو یا غیر قریشی، عرب ھو یا عجم، کسی مشھور قبیلہ سے ھو یا غیر معروف قبیلہ سے ۔
اور اگر اس نے انتخاب ھونے اور بیعت لینے کے بعد اسلامی امت کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو اس وقت وہ خلافت سے معزول ھوجائے گا ، اور اگر اس نے معزول ھونے سے انکار کیا تو اس سے اس قدر جنگ کی جائے تاکہ وہ قتل ھوجائے ۔
ان لوگوں کا نظریہ شیعہ حضرات کے بالکل مخالف ھے ، شیعہ کھتے ھیں : خلافت ایک الٰھی امر ھے خلیفہ کا انتخاب خدا کے ھاتھوں میں ھے اوران کا یہ نظریہ اھل سنت کے بھی خلاف ھے کہ جن کا نظریہ یہ ھے کہ خلیفہ قریش سے ھونا چاھئے اوراھل سنت اس جملہ ”اِنَّمَا الآئِمَّةُ مِنْ قُرَیْشِ“ سے تمسک کرتے ھیں ۔
ظاھراً خوارج کا نظریہ شروع میں یہ تھا جیسا کہ ان کا نعرہ مشھور ھے ”لَا حُکْمَ اِلّا لِلّٰہ“ اور اسی طرح نھج البلاغہ کے خطبہ( نمبر ۴۰) سے بھی یھی نتیجہ نکلتا ھے کہ شروع میں ان کا نظریہ یھی تھا کہ جامعہ اسلامی کو امامت کی ضرورت نھیں ھے اورمسلمان خود قرآن پر عمل کریں، لیکن بعد میں اپنے اس عقیدے سے پلٹ گئے اور عبد اللہ بن وھب راسِبی“ کو بعنوان خلیفہ مان کربیعت کی ۔
خلفاء کے بارے میں خوارج کا نظریہ
خوارج ابوبکر وعمر کی خلافت کو صحیح مانتے ھیں کیونکہ ان کا انتخاب صحیح طریقہ پر ھوا تھا اور دونوں نے خلافت کے صحیح راستہ کو تبدیل نھیں کیا اورکسی غیر شرعی کام کو انجام نہ دیا ، اورحضرت علی علیہ السلام اورعثمان کی خلافت بھی ان کے نزدیک صحیح ھے لیکن ان کے بارے میں کھتے ھیں کہ :
عثمان، حکومت کے چھٹے سال سے خلافت کے راستہ سے ھٹ گیا اورمسلمانوں کے منافع کو پسِ پشت ڈال دیا، لھذا خلافت سے معزول ھوگیا، اور چونکہ خلافت پر باقی رھا لھذا کافر ھوگیا اور اس کا قتل واجب تھا، اور علی (ع)نے بھی چونکہ حکمیت کو قبول کیا اورپھر توبہ نھیں کی لھذا وہ بھی کافر ھوگئے(معاذاللہ) اور ان کا قتل واجب ھوگیا، اس بناپر عثمان کی خلافت کو ساتویں سال سے اورعلی (ع)کی خلافت کو مسئلہ حکمیت کے بعد سے قبول نھیں کرتے،اور ان سے تبرا کرتے ھیں اسی طرح دوسرے خلفاء سے بھی بیزاری کرتے تھے اور ھمیشہ ان سے جنگ وجدال کیا کرتے تھے ۔
خوارج کی نابودی اور اس طرز تفکر کا باقی رھنا
خوارج کا وجود پھلی صدی ھجری کے چوتھی دھائی میں ایک بھت خطرناک غلطی کے ذریعہ وجود میں آیا، اور دوسری صدی کے نصف تک پائیدار نہ رہ سکا، اوراپنی گستاخیوں اور جنون آمیز بے باکیوں کی وجہ سے اس زمانے کے خلفاء ان کے پیچھے پڑ گئے، اوران کو اور ان کے مذھب کو نابود کرڈالا، ان کی نابودی کی کئی وجہ تھی منجملہ:
بے جان اور خشک منطق، خشک رفتار، شدت پسندی، طرز زندگی کا بالکل الگ ڈھنگ، ”تقیہ“ سے (یھاں تک کہ اس کے صحیح معنی سے بھی) دوری۔
خوارج گروہ ایسا نہ تھا کہ باقی رھتا،لھذا یھاں تک آنے کے بعد ختم ھوگیا لیکن اس گروہ نے ختم ھونے کے بعد بھی اپنے اثرات چھوڑے ، خارجیگری کے نظریات اور عقائد دوسرے اسلامی فرقوں میں داخل ھوگئے، اوراس وقت بھت سے ”نھروانی“ موجود ھیں ، اور حضرت علی (ع) کے زمانے کی طرح یھی اسلام کے خطرناک داخلی دشمن ھیں ، جس طرح معاویہ اور عمر عاص کے ماننے والے ھمیشہ تھے اور اس وقت بھی موجو د ھیں، نھروانیوں کے ذریعہ موقع موقع سے فائدہ اٹھاتے رھتے ھیں ۔(۲)
اب جب کہ ھم نے خوارج کے سلسلہ میں وضاحت کردی ، وھابیوں اور خوارج کے درمیان موجودہ شباھتوں کو بیان کرتے ھیں تاکہ واضح ھوجائے کہ صرف یھی نھیں کہ خارجیگری طرز تفکر عالم اسلام سے ختم نھیں ھوا بلکہ مقدس مآبی کا لباس پھن کر درندگی کے ساتھ زندہ ھے ، جس کی وجہ سے عالم اسلام میں بھت سے درد ناک واقعات پیدا ھورھے ھیں ۔
مرحوم علامہ امین (رہ)موٴلف کتاب عظیم ”اعیان الشیعہ“ جو وھابیت کی رد میں لکھی گئی اور ”کشف الارتیاب“ کے نام سے چھپ چکی ھے او رفارسی میں ترجمہ ھوچکا ھے ،وھابیوں کی خوارج سے شباھتوں کے سلسلے میں موصوف نے تفصیل سے بیان کیا ھے ، ھم یھاں پر اس کا خلاصہ تھوڑے سے دخل وتصرف کے ساتھ بیان کررھے ھیں :
پھلی شباھت:
خوارج کا نعرہ یہ تھا ”لَاحُکْمَ اِلَّالِلّٰہ“ یعنی خدا کے علاوہ کسی کی حکومت نھیں ھونا چاھئے، اگر چہ یہ بات حقیقت ھے لیکن اس جملہ سے ان کی مراد باطل ھے (یعنی اس سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاھتے ھیں ) جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں :”واقعاً یہ جملہ صحیح ھے اوریہ جملہ قرآن میں بھی آیا ھے :
”اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا ِللّٰہِ“ لیکن اس جملے سے خوارج کا مقصد یہ تھا کہ کوئی بھی امیر اور حاکم نھیں ھوسکتا، اوردینی مسائل میں ”حکمیت“ کو قبول نھیں کیا جاسکتا، اور اس نظریہ کے تحت جنگ صفین کی حکمیت کو گناہ اور کفر مان بیٹھے، جب کہ قرآن مجید میں اختلاف کی صورت میں حکمیت اور مُنصِف کی طرف دعوت دی ھے :
"وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنَھمَا فََابْعَثُوا حَکَماً مِنْ اَھلِہِ وَحَکَماً مِنْ اَھلِھَا"(۳)
”اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف کا خطرہ لاحق ھو ،تو انصاف کرنے والا مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے لیں (اوران دونوں کے درمیان صلح وآشتی کرادیں)
دوسری آیت میں ارشاد ھوتا ھے :
"یَحْکُمُ بِہِ ذُوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ"(۴)
” تم میں سے دو لوگ انصاف اورحکم کریں“
اسی طرح وھابیوں کا نعرہ ھے کہ: دعا ، شفاعت، توسل اورمدد طلب کرنا صرف خدا سے مخصوص ھے، اگرچہ یہ بات بھی حق ھے لیکن وھابیوں کا اس سے ھدف اورمقصد غلط ھے ۔
جی ھاں ، دعا، شفاعت، خوف اوراستغاثہ خدا کے لئے ھے ، حقیقت میں خدا ھی ھے کہ جس کو پکارنا چاھئے ،چاھے مشکل کا وقت ھو یا سکون وچین کاوقت،اسی سے توسل کرنا چاھئے، اور واقعاً مدد کرنا اسی کا کام ھے ، اورشفاعت بھی اسی کے قبضہٴ قدرت میں ھے لیکن وھابیوں کا ھدف اورمقصد یہ ھے کہ ھم کو یہ حق نھیں کہ جس کو خدا نے عظمت اور بزرگی دی ھے اس کوپکارنے سے اس کی عظمت وبزرگی کو آشکار کریں، اوراس سے توسل کریں تاکہ خدا کے نزدیک ھماری شفاعت کریں اورھمارے لئے دعا کرے۔
وھابی حضرات کھتے ھیں کہ شفاعت اورمدد طلب کرنا اس شخص سے جس کو خدا نے لوگوں کا شفیع اور ناصر قرار دیا ھے او ر اس شخص سے توسل کرنا جس کو خدا نے تقرب کا وسیلہ قرار دیا ھے ، بدعت اورگناہ ھے !!
جیسا کہ ھم نے اس چیز کی طرف پھلے بھی اشارہ کیا ھے اورآئندہ صفحات پر بھی ھم اس بارے میں بحث کریں گے۔
وھابیوں کی بے ھودہ باتوں میں سے ایک یہ بھی ھے کہ ھمیں یا محمد! یا فلاں! کھنے کاکوئی حق نھیں ھے ، وہ کھتے ھیں کہ تجھے خدا نے قدرت دی ھے یا محمد(ص) نے ؟ اور چونکہ خدا نے قدرت دی ھے لھذا محمد(ص) کو پکارنا غلط ھے ، صرف اور صرف خدا کو پکارنا چاھئے۔
ان کا یہ کھنا بھی مغالطہ کے علاوہ کچھ نھیں ھے او ریہ حضرات اپنے اس مغالطہ سے لوگوں کو گمراہ کرنا اورلوگوں کو دھوکہ دینا چاھتے ھیں ، کیونکہ کسی بھی مسلمان کوشک نھیں کہ قدرت کا مالک حقیقی خدا ھے اور قدرت اسی سے مخصوص ھے ، بلکہ مسلمان تو یہ چاھتے ھیں کہ اپنے اس پیامبر سے جس کو خدا نے عظمت اور بزرگی دی ھے اور اس کی نظر میں محترم و مکر م ھے اس کے ذریعہ سے توسل کریں اورخدا نے جس نبی کے لئے حق شفاعت قرار دیا ھے اس کے ذریعہ سے شفاعت اور وساطت چاھتے ھیں ، وھابیوں کا یہ اعتراض حقیقت میں خدا کی طرف پلٹتا ھے کہ کیوں خدا نے محمد(ص) کو حق شفاعت دیا ھے ۔
لھذاچونکہ خداوندعالم نے آنحضرت(ص) کے لئے ایک عظیم اور بھت بڑا مقام قرار دیا ھے ھم بھی ان سے شفاعت طلب کرسکتے ھیں ، ورنہ وھابییوں کا یہ اعتراض تو دعا کے بارے میں بھی ھوتا ھے کہ اگر کوئی شخص کسی سے دعا کرنے کے لئے کھے تو اس سلسلہ میں بھی کھا جاسکتا ھے کہ دعا کو خدا قبول کرے گا یا وہ انسان؟ اور یہ بات سب پر آشکار ھے کہ دعا کا قبول کرنے والا خدا ھی ھے ، تو اس وقت سوال ھوسکتا ھے کہ دوسروں سے دعا کرانے کے کیامعنی ؟!
پس نتیجہ یہ نکلا کہ ھم اپنے دینی بھائیوں سے اپنے لئے دعا کرنے کے لئے کہہ سکتے ھیں۔
وھابیوں کا اسی طرح کا نظریہ مسجد نبوی میں موجود ضریح اورمنبر کے بارے میں بھی ھے ، کھتے ھیں : اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ لوھے اور لکڑی کابذات خود کوئی احترام نھیں ھے ، اس طرح گوسفند کی کھال بھی بذات خود کوئی احترام نھیں رکھتی، لیکن اگر یھی کھال قرآن مجید کی جلد ھوجائے یا وہ کاغذ جس پر قرآن لکھا گیا ھے اور اسی طرح دوسری چیزیں احترام کے قابل ھوجاتی ھیں ، ضریح اورمنبر اور روضہٴ رسول بھی اسی طرح ھیں اور پیغمبر کی وجہ سے محترم ھیں۔
دوسری شباھت
وھابیوں کی خوارج سے دوسری شباھت یہ ھے کہ خوارج ظاھراً بھت مقدس تھے نماز اور تلاوت قرآن کریم کو بھت زیادہ اھمیت دیتے تھے، یھاں تک کہ سجدوں کی کثرت کی وجہ سے پیشانی میں گھٹا پڑجاتا تھا اور حقیقت کے طالب تھے ، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ھیں :
”لَاتُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِی ، فَلَیْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَاخْطَاہُ، کَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَاَصَابَہُ“
یعنی میرے بعد خوارج کے ساتھ جنگ نہ کرنا، کیونکہ جولوگ طالب حق وحقیقت ھیں لیکن غلطی کر بیٹھے اور جولوگ باطل کے طالب ھیں اور وہ باطل تک پھونچ بھی گئے (معاویہ اور اس کے پیروکار) دونوں برابر نھیں ھیں ۔
جی ھاں!خوارج ظاھراً متدین اورمتقی اور پرھیزگار لوگ تھے، کھتے ھیں کہ خوارج میں سے ایک شخص نے جنگل سے گذرتے وقت ایک خنزیر کو مارڈالا ، دوسرے شخص نے فوراً اعتراض کیا اورکھا: تیرا یہ کام” فساد فی الارض“ھے ، اس طرح ایک خارجی نے راستہ میں ایک پڑا ھوا خرما اٹھاکر منھ میں رکھ لیا ،دوسرا شخص آگے بڑھا اور اس کے منھ سے نکال دیا ، اورکھا کہ یہ تمھارے لئے کھانا حرام ھے ۔
وھابی حضرات بھی اسی طرح کرتے ھیں ، کہ ظاھراً دین کی بھت پابندی کرتے ھیں نماز کو اول وقت پڑھتے ھیں اورخدا کی عبادت میں ھر ممکن کوشس کرتے ھیں حق وحقیقت کے طالب ھیں لیکن غلط راستہ اپنائے ھوئے ھیں ، یہ لوگ بھی تقویٰ اور پرھیزگاری کا زیادہ خیال رکھتے ھیں ، یھاں تک کہ ٹیلیگرام کو بھی قبول نھیں کرتے اورکھتے ھیں : چونکہ اس کا حکم شرعی معلوم نھیں ھے ، لھذا اس کا استعمال صحیح نھیں ھے ، اس طرح کی مقدس مآبی اور شدت پسندی کو ھم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ھے : ھم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ پرانے مجیدی(عثمانی پیسہ) کو نئے مجیدی سے بدل رھا ھے اور کچھ مقدار زیادہ لے رھا ھے نجد کا ایک وھابی آیا او رکھا کہ مجھ سے پرانے مجیدی لے لے اور نئے مجیدی دے دے تو فوراً اس وھابی نے کھا نھیں نھیں، یہ تو سود ھے ۔!!
تیسری شباھت
وھابیوں کی خوارج سے تیسری شباھت یہ ھے کہ خوارج اپنے علاوہ تمام دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھتے تھے اسی طرح کھتے تھے کہ جو شخص بھی گناہِ کبیرہ کا مرتکب ھوا وہ ھمیشہ جھنم کی آگ میں جلتا رھے گا اس طرح خوارج مسلمانوں کے جان ومال کو حلال جانتے تھے اور مسلمانوں کے بچوں کو اسیر کرلیتے تھے، اوران کا یہ بھی نظریہ تھا کہ اگر اسلامی ممالک میں گناہِ کبیرہ سرعام ھونے لگے تو وہ اسلامی ملک باقی نھیں رھے گا بلکہ کافر ملک ھوجائے گا۔
انھوں نے عبداللہ بن خباب (صحابی رسول(ص)) جو روزہ دار بھی تھے اورقرآن بھی اپنے ساتھ لئے تھے ، ان کو قتل کردیا، اور حدتو یہ ھے کہ ان کی حاملہ عورت کے پیٹ کو بھی چیر ڈالا ، ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے حضرت علی علیہ السلام پر تبرا نھیں کیا ، اوران سے بیزاری کا اعلان نھیں کیاتھا، خوارج نے اس صحابی سے کھاکہ: ھم اسی قرآن کے حکم سے جو تیرے پاس ھے تجھے قتل کررھے ھیں!! اس صحابی کو ایک نھر کے قریب قتل کرڈالا اور اس کا خون اس نھر میں بھادیا۔
خوارج جب بھی مسلمان عورتوں کو اسیر کرتے تھے ، اپنے درمیان ھی ان کی خرید وفروخت کرلیتے تھے ، ایک مرتبہ ایک خوبصورت عورت کو اسیر کیا ،اور جب اس کی بولی لگنے لگی اور قیمت بڑھتی گئی اس وقت ایک خارجی اٹھا اور اس عورت کو قتل کردیا او رکھنے لگا: قریب تھا کہ یہ کافر عورت مسلمانوں کے درمیان فتنہ وفساد برپا کرادیتی اس وجہ سے میں نے اس کو قتل کردیا۔
جس وقت امام حسن علیہ السلام ”ساباطِ مدائن“ جارھے تھے خوارج نے ان سے کھا: تو بھی اپنے باپ کی طرح مشرک ھوگیا ! قارئین محترم یہ تھے خوارج کے کارنامے!!
وھابی بھی اسی طرح کرتے ھیں یہ لوگ بھی اپنے مخالفوں کو مشرک جانتے ھیں اور ان کے جان ومال کو حلال سمجھتے ھیں ، اور مسلمانوں کو اسیر کرتے ھیں ، یھاں تک کہ تمام مسلمانوں کو مشرک کھتے ھیں ، اوراسلامی ممالک کو کافر ملک کے نام سے یاد کرتے ھیں اور وھاں سے مھاجرت کو ضروری سمجھتے ھیں، اگر کسی نے نماز کو ترک کردیا اگرچہ وہ شخص نماز کا منکر نہ ھو اس کو واجب القتل جانتے ھیں۔
سلیمان ابن عبد الوھاب (محمد ابن عبد الوھاب کا بھائی جو اس کا سخت مخالف تھا) ایک کتاب اپنے بھائی محمد بن عبد الوھاب کی ردّ میں لکھی ھے موصوف اس کتاب میں لکھتے ھیں :
ابن قیم جوزی نے یہ کھا کہ خوارج کی یہ دو خصوصیات تھیں جن سے وہ دوسرے مسلمانوں اور ان کے رھبروں سے جدا ھوگئے:
پھلی خصوصیت: سنت سے دوری اختیار کرنا ، اور جو چیز سنت نہ تھی اس کو سنت کھنا۔
دوسری خصوصیت: مسلمانوں کو گناہِ کبیرہ کی وجہ سے کافر کھنا، اور اسی بناپر ان کے جان ومال کو حلال سمجھنا، اسلامی ممالک کو کافر ممالک کھنا۔
لھذا مسلمانوں پر واجب ھے کہ خوارج کے ان دوغلط اصولوں اور ان کے نتائج سے دور رھیں ، یعنی مسلمانوں سے دشمنی، ان پر لعنت وملامت کرنے اور ان کے جان ومال کو حلال ماننے جیسی بدعتوں سے پرھیز کریں ۔
یہ دونوں خصوصیات جو ابن قیّم نے خوارج کی بیان کی ھیں ،وہ خصوصیات مکمل طریقہ سے وھابیوں میں پائی جاتی ھیں ۔
چوتھی شباھت
خوارج اپنے انحرافی عقائد میں قرآن مجیدکی ان آیات کے ظاھر سے استناد کرتے تھے جن میں گناہ کبیرہ کے ارتکاب کو کفر سے تعبیر کیا گیا ھے ، وھابی بھی اسی طرح قرآن مجید کے ظاھری معنی کرتے ھیں جن کو کوئی بھی عقلمندانسان قبول نھیں کرسکتا، منجملہ : خدا کو صاحب جسم ھونے کا اعتقاد، یا عرش و قلم و لوح و کرسی وبرزخ و خدا کا دیدار اور خدا کے ھاتھ پیر اور دوسرے اعضاء رکھنا ، وغیرہ جیسے مطالب کی ظاھری تفسیر۔
پانچویں شباھت
خوارج ظاھری احکام پر عمل کرنے والے ، کوتاہ نظر اور کم عقل تھے اور جو راستہ میں پڑے کجھور کو کھانے سے پرھیز کرتے تھے اورجنگلی خنزیر کو مارنے والے کو مفسد فی الارض مانتے تھے ، وھی خوارج ھیں،جنھوں نے رسول اسلام(ص) کے روزہ دار اورحامل قرآن صحابی کو واجب القتل سمجھ کر قتل کردیا اور تما م مسلمانوں کو کافر مانتے تھے ، اور ھمیشہ گناہ کبیرہ کو کفر مانتے تھے ۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ھے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ چلاجارھا تھا ،راستے میں خوارج سے ملاقات ھوئی ، خوارج میں سے کسی ایک نے سوال کیا : تم لوگ کون ھو؟
مسلمانوں کے گروہ میں سے ایک عقلمند اور ھوشیار شخص آگے بڑھا اورکھنے لگامجھے جواب دینے دو ، اور اس نے کھا:
ھم لوگ اھل کتاب ھیں اورتم سے پناہ مانگتے ھیں ھمیں کلام خدا سنائیں اور پھر ھمیں کسی امن جگہ پھونچادیںیہ سن کر خوارج آپس میں کھنے لگے : ھمیں رسول اسلام(ص) کے پیمان کے مطابق ان کو کوئی اذیت نھیں دینی چاھئے ، لھذا ان کے لئے قرآن کی تلاوت کی جائے اورکسی کو معین کیا جائے تاکہ ان کو ایک پُرامن جگہ پھونچائے۔!
لیکن یھی خوارج ھیں کہ رسول خدا کے صحابی عبد اللہ خباب سے کھہتے ھیں کہ تمھاری نظر میں علی (ع) کیسے ھیں؟ اس نے حضرت علی علیہ السلام کی مدح وثنا کرنا شروع کردی، اس سے کھا کہ تم علی (ع)کے چاھنے والوں میں سے ھو، اوریہ کہہ کر انھیں قتل کردیا۔
وھابی حضرات بھی اسی طرح ظاھری احکام کے حامل اور کوتاہ نظر ھیں، ایک طرف تو رحمت بھیجنے اورذکر کرنے کو بدعت قرار دیتے ھیں اور دوسری طرف ٹیلیگرام کے حلال ھونے میں شک کرتے ھیں کیونکہ اس کے بارے میں کوئی شرعی دلیل نھیں ھے ، اور سگریٹ وغیرہ پینے کو بھی حرام جانتے ھیں اورسگریٹ پینے والے کو سزا دیتے ھیں ۔
دوسری طرف تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ھیں ،اور ان کو مشرک سمجھتے ھیں اوران کے جان ومال کو حلال جانتے ھیں،صرف اس وجہ سے کہ یہ لوگ شافعین سے شفاعت طلب کرتے ھیں ، اور یہ لوگ بارگاہ خداوندی میں نیک وصالح بندوں کے ذریعہ توسل کرتے ھیں، لہٰذا ان کے قتل کو ضروری اور واجب سمجھتے ھیں !! اسی وجہ سے ھماری نظر کے مطابق وھابیت فرقہ”انحصار“ ”ظاھرپرستی“(۵)اور ”تناقض گوئی“ کا فرقہ ھے ۔
وضاحت:
۱۔ فرقہٴ انحصاراس وجہ سے ھے کیونکہ صرف اور صرف اپنے کو مسلمان سمجھتے ھیں اور دوسرے تمام مسلمانوں کو کافر اور مشرک مانتے ھیں ۔
۲۔ فرقہٴ ظاھر پرستی اس وجہ سے ھے کیونکہ قرآن اور سنت کے ظاھر پر جمود کرتے ھیں اور ظاھری معنی سے ایک قدم آگے نھیں بڑھاتے ، اور اسلامی عمیق اور دقیق مسائل کی گھرائی میں جانے کی کوشش بھی نھیں کرتے، اور یہ کہ اسلام کو چند سادہ مسائل اور شرعی احکام میں خلاصہ کرتے ھیں، یعنی وھابیت کے یھاں عمیق اور دقیق مسائل کی کوئی گنجائش نھیں ،اور نہ تنھا یہ کہ عمیق مسائل ان کے یھاں نھیں پائے جاتے بلکہ عمیق مسائل کا انکار کرتے ھیں۔
۳۔ فرقہٴ تناقض گوئی اس وجہ سے ھے کہ جو نتیجہ حاصل کرتے ھیں خود ان کے مقبول شدہ مقدمات سے میل نھیں کھاتا، مثال کے طور پر محمد ابن عبد الوھاب ”کشف الشبھات“کے مقدمہ میں اس قدر مسلمانوں کے اتحاد پر چلاتا ھے اور مسلمانوں کو تفرقہ بازی اور دشمنی سے دور رھنے کی تاکید کرتا ھے لیکن اسی کتاب کے وسط میں جاکر تمام غیر وھابی مسلمانوں کو کافر ،مشرک، بت پرست اور توحید کے مخالف کھتا ھے ، ! کیا واقعاً یھی اتحاد کی دعوت ھے ؟ اور کیا وھابیت کی دعوت کو ایک اصلاحی دعوت کھی جاسکتی ھے ؟
یا ان کی اس تحریک کو ایک فتنہ گر اور فساد طلب اور ایک طرح کی بے دینی اور الحاد کی خشک وتند تحریک کھا جائے اور یہ سب کچھ دینداری اور دین کے نام پر انجام دیتے ھیں ۔
چھٹی شباھت
خوارج اُن آیتوں کو جو کفار ومشرکین کے بارے میں نازل ھوئی تھیں ، مسلمانوں اور مومنین کو بھی شامل جانتے تھے۔
وھابی حضرات بھی اسی طرح کا نظریہ رکھتے ھیں کہ مشرکوں سے مربوط آیات کو مومنین پربھی تطبیق کرتے ھیں ۔
کتاب ”خلاصة الکلام“ میں ھے کہ : صحیح بخاری عبد اللہ بن عمر کے ذریعہ پیغمبر اسلام(ص) سے خوارج کے بارے میں نقل کرتے ھیں :
آنحضرت(ص) نے فرمایاکہ: یہ لوگ ان آیات کو جو کفار کے بارے میں ھیں ان کو مومنین پر تطبیق کریں گے۔
اس طرح کی ایک اور حدیث جو دوسروں نے (بخاری کے علاوہ) نقل کی ھے:
”اَخْوَفُ مَااَخَافُ علَٰی اُمَّتِی رَجُلٌ مُتَاٴوِّلٌ لِلْقُرآنِ یَضَعَہُ فِیْ غَیْرَ مَوْضِعِہِ“
”میری امت کا سب سے خطرناک شخص وہ ھے کہ جو قرآن کی تاویل کرے اور اس کو ایسے شخص پر تطبیق دے جس کو وہ شامل نھیں ھے “
ابن عباس سے بھی روایت ھے کہ :
”لَاتَکُوْنُوْا کَالْخَوَارِجِ تَاٴوِّلُوْا آیَاتِ الْقُرْآنِ فِی اَہھلِ الْقِبْلَةِ“
یعنی خوارج کی طرح نہ ھوجاؤ، جو قرآن کی آیات کی تاویل کرتے ھیں اور مسلمانوں کو بھی شامل کرتے ھیں جبکہ وہ آیات اھل کتاب اورمشرکین کے بارے میں نازل ھوئی ھیں ، کیونکہ ان لوگوں نے قرآنی آیات کونھیں سمجھا ھے اس کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کا خون بھایا، ان کے مال ودولت کو غارت کیا۔
وھابی بھی اسی طرح کرتے ھیں ، جیسا کہ ھم آئندہ بیان کریں گے، حرم کو بھی آگ لگادیتے ھیں اور مسلمانوں کے مال ودولت کو تباہ وبرباد کردیتے ھیں بے گناہ مسلمانوں کا خون بھاتے ھیں اور مسلمان عورتوں پر بھی رحم نھیں کرتے اور خانہ خدا کے زائروں اور حاجیوں کی گولیوں کے ذریعہ مھمان نوازی کرتے ھیں اورحاجیوں کے ٹکڑے ٹکڑے ھوئی لاشوں کو بھی ان کے وارثین کو نھیں دیتے اور اس وقت تک بھی ایرانی حجاج کی لاشوں کو نھیں دیا ھے (لعنھم اللّٰہ وملائکتہ) کیونکہ اپنا راز فاش ھونے سے ڈرتے ھیں خدا ان کے عذاب میں اضافہ کرے اوران کو جھنم کے دردناک عذاب میں رکھے۔
ساتویں شباھت
جس طرح خوارج مسلمانوں کا قتل وغارت کیا کرتے تھے اورکفار ومشرکین ان کے شر سے محفوظ رھتے تھے، بالکل اسی طرح کا قانون وھابیوں کا بھی ھے، ھم نے کسی بھی ایک تاریخ میں نھیں پایا کہ وھابیوں نے کھبی کوئی جنگ کفار ومشرکین سے کی ھو، یا کسی ایک مشرک کو قتل کیا ھو ، یہ تو صرف مسلمانوں کے خون کے پیاسے ھیں جب کہ مسلمانوں کا کوئی قصور نھیں ھے ، اس سلسلہ میں کافی ھے کہ ان کی پُرافتخار تاریخ ! پر ایک نظر ڈالی جائے ، کربلا، طائف ،یمن اور حجاز کے مسلمانوں کے قتل عام پر ایک نظر کافی ھے جبکہ اسی زمانے میں کفار ومشرکین زمین پر عالمگیر ھورھا تھا، وھابیوں کو ان سے لڑنے کا خیال تک نہ آیا بلکہ انگریزوں اور دوسرے اسلام دشمنوں سے بناکر رکھی، اورمسلمانوں کا قتل عام کیا۔
کیوں دورکی بات کریں اپنے اسی زمانہ میں دیکھ لیجئے کہ اس ملعون اور ضد شرک والحاد آل سعود نے آج تک ایک بھی گولی غاصب اسرائیل پر نھیں چلائی ! کیا استعمار کے خلاف اسلامی تحریکوں کی کبھی کوئی ایک پیسہ سے مدد کی ؟! یا فرھنگی اور فکر ی لحاظ سے ایک چھوٹا سا پمفلیٹ چھاپا؟
لیکن دنیا بھر کے تما م مقالہ نگاروں اور رائٹروں کو خرید لیا تاکہ اسلامی انقلاب کے خلاف جو کچھ بھی لکھ سکتے ھوں، لکھیں، اور دنیابھر کی تمام میڈیا کو خرید لیا تاکہ ایران کے خلاف منھ پھاڑپھاڑ کر بولیں۔
آج یھی ملعون آل سعود ھے جس نے تھیچر ، ریگن اور فرانس وامریکائی غلاموں سے دوستی کرکے انقلاب اسلامی ایران اور لبنان کے شیعوں کے خلاف مل کر سازشیں کیں، اور اسلامی تحریکوں کو کچلنے میں مشغول ھوگئے، یہ وھی خوارج کا طرز تفکر ھے ، اور یہ لوگ انھیں خوارج کی نسل سے ھیں کہ اسلام کے نام پر اسلام کو نیست ونابود کرنا چاھتے ھیں ۔
اور تیل کی درآمد کے ذریعہ شرک سے جھاد اور حرمین شریفین کے تحفظ کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کا خون بھانا ۔
جی ھاں یہ تھیں وھابیت اور آل سعود کی مقدس مآب ،ظاھر پرست، متعصب اور اسلام دشمن خوارج سے چند شباھتیں۔
واقعاً رسول اسلام(ص) کی یہ حدیث کس قدر اثر انداز ھے ،جس کو مرحوم امین(رہ) نے ”سیرہٴ حلبی“ سے نقل کی ھے کہ آنحضرت نے فرمایا:
”خوارج قرآن پڑھتے ھونگے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نھیں اترے گا، ان کے دل ا سے نھیں سمجھتے یہ لوگ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ھیں او رکافروں کو آزاد چھوڑدیتے ھیں ،!
اے رسول خدا ، خدا کی طرف سے آپ پر درود وسلام ھو گویا آپ آج ھم مسلمانوں کے ساتھ وھابیوں کے سلوک کی تصویر کشی کررھے ھیں !
واقعاً کیا سعودی وھابیوں کے کارنامے اس کے علاوہ بھی کچھ اور ھیں ؟ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ھیں اور خانہ کعبہ کی بے حرمتی ، خانہ کعبہ کے نزدیک نھایت بے دردی اوربے حیائی کے ساتھ حاجیوں کا خون بھاتے ھیں، لیکن وھایٹ(بلیک)ھاوس کے روٴساء اور مشرکین جلادوں سے ھمنوالہ ھوتے ھیں،یھی نھیں بلکہ آپس میں گھری دوستی اور ھمکاری کرتے ھیں ، اوراپنے جلاد وخونخوار مالکوں پر اپنی غلامی کو ثابت کرنے لئے ھر ذلت کو قبول کرتے ھیں۔
اے خدا !تجھے تیری عزت وجلالت کی قسم، ان ظالموں اور بدبختوں پر جو تیرے گھر کے غاصب ھیں جلد از جلد اپنے غضب کو نازل فرما۔ (آمین)
حوالہ جات:
۱۔ وھابیان ص ۱۶۰۔
۲۔ یہ کوئی اتفاق نھیں ھے کہ سعودی وھابی بھی سب سے زیادہ امر بالمعروف ونھی عن المنکر پر زور دیتے ھیں اورامر بالمعروف ونھی عن المنکر کمیٹی بنائے پھرتے ھیں خصوصاً حج کے زمانے میں ، جس کا نتیجہ فتنہ وفساد اور لڑائی جھگڑوں کو ھم نے بارھا دیکھا ھے ، البتہ سعودی وھابی اپنے خارجی بھائیوں سے بھی چند قدم آگے ھیں ،کہ مسلمانوں سے بھی جنگ وجدال کرتے ھیں ان کا نعرہ شرک وکفر اور بت پرستی سے جنگ کرنا ھے !! اور عورتوں ، بوڑھوں اور بے دفاع معلولوں پر بھی رحم نھیں کرتے ۔
۳۔ سورہ نساء آیت ۳۵۔
۴۔ سورہ مائدہ آیت ۹۵۔
۵۔ ھم نے اس حصہ میں استاد مطھری(رہ) کی ”جاذبہ ووافعہ علی“ نامی کتاب سے تھوڑے دخل وتصرف کے ساتھ استفادہ کیا ھے ، قارئین کرام اس سلسلہ میں مزید آگاھی کے لئے مرحوم شھرستانی کی کتاب ”ملل ونحل“ اور استاد حسین نوری کی کتاب ”خوارج از دیدگاہ نھج البلاغہ“ نیز استاد مطھری(رہ) کی کتاب ”اسلام ومقتضیات زمان“ کی طرف رجوع فرمائیں۔
وھابیوں کی فرقہ خوارج سے شباھتیں
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیوں کی فکری بنیادیں
- بازدید: 3296
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
3
Online