شیخ محمد بن عبد الوھاب اور اس کے پیرو کاروں نے توحید اور کلمہ ”لا الہ الا اللّٰہ “ کے معنی اس طرح بیان کئے ھیں جس کی بناپر کوئی دوسرا شخص موحّد (خدا کو ایک ماننے والا) ھی موجود نھیں ھے، چنانچہ محمد بن عبد الوھاب اس طرح کھتا ہے:
”لا الہ الا اللّٰہ “ میں ایک نفی ہے اور ایک اثبات، اس کا پھلا حصہ (لا الہ) تمام معبود وں کی نفی کرتا ھے (۱) اور اس کا دوسرا حصہ (الا اللہ) خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کو ثابت کرتا ہے۔ (۲) اسی طرح محمد بن عبد الوھاب فرماتے ہیں کہ توحید وہ مسئلہ ہے جس پر خداوند عالم نے بھت زیادہ تاکید کی ہے،اور اس کا مقصد، عبادت کو صرف خداوندکریم سے مخصوص کرنا ہے اور سب سے بڑی چیز جس سے خداوندعالم نے نھی کی ھے وہ شرک ھے جس کا مقصد غیر خدا کو خدا کا شریک قرار دینا ھے۔ (۳)
اسی طرح خداوندعالم کی صفات کی شرح کرتے ھوئے کھتا ہے کہ خداوندعالم کسی بھی ایسے شخص کا محتاج نھیں ہے جو بندوں کی حاجتوں کو اس سے بتائے یا اس کی مدد کرے یا بندوں کی نسبت خدا کے لطف اور مہھربانی کو تحریک کرے۔ (۴)
اس بناپر وھابیوں نے غیر خدا اور قبور کی زیارتوں کو ممنوع قرار دیا مثلاً اگر کوئی کھے ”یا محمد“ (۵)اسی طرح غیر خدا کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دینا یا قبور کے پاس نمازیں پڑھنایا اس طرح کی دوسری چیزیں، ان سب کو شرک قرار دے دیا، اس سلسلہ میں سنی اور شیعہ کے درمیان کسی فرق کے قائل نھیں ھے۔
محمد بن عبد الوھاب کایہ نظریہ تھا کہ جو لوگ عبد القادر، کَرخی ، زید بن الخطاب اور زُھیر کی قبروں سے متوسل ھوتے ہیں وہ مشرک ہیں (۶) اور اسی طرح اھل سنت حضرات شیخ عبد القادر کو شفیع قرار دیتے ہیں ان پر بھی بھت سے اعتراضات کئے ہیں۔ (۷)
آلوسی کھتا ہے کہ جو لوگ رافضیوں کو علی، حسین ، موسیٰ کاظم، اور محمد جوادعلیھما السلام کے روضوں پر اور اھل سنت کو عبد القادر ،حسنِ بصری اور زبیر وغیرہ کی قبروں پر زیارت کرتے ھوئے اور قبور کے نزدیک نماز پڑھتے ھوئے اور ان سے حاجت طلب کرتے ھوئے دیکھے تو ان کو یہ بات معلوم ھوجائے گی کہ یہ لوگ سب سے زیادہ گمراہ ہیں اور کفر وشرک کے سب سے بلند درجے پر ہیں۔(۸)
اس بات کا مطب یہ ہے کہ چونکہ شیعہ اور سنی قبروں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور وھاں پر نمازیں پڑھتے ہیں اور صاحب قبر کو وسیلہ قرار دیتے ہیں لھذا کافر ہیں ، اور اسی عقیدہ کے تحت دوسرے تمام ممالک کو دار الکفر (کفار کے ممالک) اور اس ملک کے رھنے والوں کو اسلام کی دعوت کرتے تھے.
۱۲۱۸ھجری میں سعود بن عبد العزیز امیر نجد نے اھل مکہ کے لئے ایک امان نامہ لکھتا ہے جس کے آخر میں لوگوں کے خطاب کرتے ھوئے اس آیت کو لکھتا ہے:
’’قُلْ یَا اَھلَ الْکِتَابِ، تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلاّٰ نَعْبُدَ اِلاّٰ اللّٰہ وَلاٰ نُشْرِکَ بِہ شَیْئاً وَلاٰ یَتَّخِذ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہ فَاِنْ تَوَلُّوْا فَقُوْلُوْا اشَھدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ.‘‘ (۹)
”اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اے اھل کتاب آوٴ اور ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں، کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں، آپس میں ایک دوسرے کو خدا کا درجہ نہ دیں، اور اگر اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ موڑیں تو کہہ دیجئے کہ تم لوگ بھی گواہ رھنا کہ ھم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ہیں“
اسی طرح وھابی علماء میں سے شیخ حَمَد بن عتیق نے اھل مکہ کے کافر ھونے یا نہ ھونے کے بارے میں ایک رسالہ لکھا جس میں بعض استدلال کے بناپر ان کو کافر شمار کیا، (۱۰) البتہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب وھابیوں نے مکہ شھر کو فتح نھیں کیا تھا۔
ان قبیلوں یا ان لوگوں اور ان شھروں میں جو نجدی حاکموں کے سامنے تسلیم ھوجاتے تھے ، ان میں وھابیوں کے نظریات کو ”قبول توحید “ کے عنوان سے قبول کیا جاتا تھا۔ (۱۱)
کلّی طور پر وھابیوں نے اکثر مسلمانوں کے عقائد اور اسی طرح ان کے درمیان رائج معاملات کو دین اسلام کے مطابق نھیں جانا، گویا اسی طرح کے امور باعث بنے کہ بعض مشرقی ماھرین منجملہ ”نیبھر اھل ڈانمارک“نے گمان کیا کہ شیخ محمد بن عبد الوھاب پیغمبر تھا۔ (۱۲)
توحید کے بارے میں وھابیوں کے نظریات کے بارے میں شیخ عبد الرحمن آل شیخ کی گفتگو کو بیان کرنامناسب ہے ، چنانچہ موصوف کھتے ہیں کہ ”لا الہ الا اللّٰہ" کے معنی خدا کی یگانیت کے ہیں یعنی انسان کو چاھئے کہ فقط اور فقط خدا کی عبادت کرے اور عبادت کو خدا کے لئے منحصر مانے اور غیر خدا سے بیزاری اختیار کرے۔ (۱۳)
اس سلسلہ میں حافظ وھبہ بھی کھتے ہیں کہ ”لا الہ الا اللّٰہ" کے معنی : خدا کے علاوہ تمام معبودوں کو ترک کرنا ہے ، لھذا انسان کی توجہ صرف خدا پر ھونا چاھئے اور اگر کسی غیر خدا کی عبادت کی جائے تو گویا اس نے غیر خدا کو خدا کے ساتہ شریک قرار دیا، اگرچہ اس کام کا کرنے والا اس طرح کا کوئی ارادہ بھی نہ رکھتا ھو، تو ایسا شخص مشرک ہے چاھے وہ شخص اپنے شرک کو شرک مانے یا اس کو توسل کا نام دے۔
اس کے بعد حافظ وھبہ اپنی گفتگو کو اس طرح آگے بڑھاتا ہے کہ وھابیوں کو اس بات میں کوئی شک نھیں ھے کہ اگر کوئی کہھے ”یا رسول اللہ"، ”یا ابن عباس“ ، ”یا عبد القادر“وغیرہ اور ان کلمات کے کھنے سے اس کا قصد فائدہ پھونچانایانقصان کو دور کرنا ھو یا اس کے مدّ نظر ایسے امور ھوں جن کو صرف خدا ھی انجام دے سکتا ہے، تو ایسا شخص مشرک ہے اور اس کا خون بھانا واجب ہے اور ان کا مال مباح ہے۔ (۱۴)
قارئین کرام ! ھماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ محمد بن عبد الوھاب ایسی توحید کی طرف دعوت دیتا تھا جو اس کی بتائی ھوئی توحید کو قبول کرلیتا تھا اس کی جان اور مال محفوظ ھوجاتی تھی اور اگر کوئی اس کی بتائی ھوئی توحید کو قبول نھیں کرتا تھا ان کی جان ومال مباح ھوجاتی تھی، وھابیوں کی مختلف جنگیں، چاھے وہ حجاز کی ھوں یا حجاز کے باھر مثلاً یمن، سوریہ اور عراق کی جنگیں،اسی بنیاد پر ھوتی تھیں اور جنگ میں جس شھر پر غلبہ ھوجاتا تھا وہ پورا شہھر ان کے لئے حلال ھوجاتا تھا ،ان کو اگر اپنے املاک اور تصرف شدہ چیزوں میں قرار دینا ممکن ھوتا تو ان کو اپنی ملکیت میں لے لیتے تھے ورنہ ان شھروں میں موجود مال ودولت کو غنائم جنگی کے طور پر لے لیتے تھے۔ (۱۵)
اور جو لوگ اس کی اطاعت کرنے کو قبول کرلیتے تھے ان کے لئے ضروری تھا کہ دین خدا ورسول کو (جس طرح محمد بن عبد الوھاب کھتا تھا)قبول کرنے میں اس کی بیعت کریں، اور اگر کچھ لوگ اس کے مقابلے کے کھڑے ھوتے تھے تو ان کو قتل کردیا جاتا تھا، اور ان کا تمام مال تقسیم کرلیا جاتا تھا، اسی پروگرام کے تحت مشرقی احساء کے علاقے میں ایک دیھات بنام ”فَصول“ کے تین سو لوگوں قتل کردیا اور ان کے مال کو غنیمت میں لے لیا، اسی طرح احساء کے قریب ”غُرَیْمِیْل“ میں اسی طرح کے کارنامے انجام دئے۔ (۱۶)
اس سلسلہ میں شوکانی صاحب کھتے ہیں کہ محمد بن عبد الوھاب کے پیروکار ھراس شخص کو کافر جانتے تھے جو حکومت نجد میں نہ ھو یا اس حکومت کے حکام کی اطاعت نہ کرتا ھو، اس کے بعد شوکانی صاحب کھتے ہیں کہ سید محمد بن حسین المُراجل (جو کہ یمن کے امیر حجاج ہیں) نے مجھ سے کھا کہ وھابیوں کے ایک گروہ مجھے اور یمن کے حجاج کو کافر کھتے ہیں اور یہ بھی کھتے ہیں کہ تمھارا کوئی عذر قابل قبول نھیں ہے مگر یہ کہ امیر نجد کی خدمت میں حاضر ھوں تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ تم کس طرح کے مسلمان ھو۔ (۱۷)
وھابیوں کی نظر میں وہ دوسرے امور جن کی وجہ سے مسلمان مشرک یا کافر ھوجاتا ہے
وھابی لوگ توحید کے معنی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا مسلمان باقی نھیں بچتا، اور بھت سی چیزوں کو توحید کے خلاف تصور کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ایک مسلمان دین سے خارج اور مشرک یا کافر ھوجاتا ہے،یھاں پر ان میں سے چند چیزوں کو بیان کیا جاتا ہے:
۱۔ اگر کوئی شخص اپنے سے بلا دور ھونے یا اپنے فائدہ کے لئے تعویذ باندھے یا بخار اترنے کے لئے اپنے گلے میں دھاگا باندھے ، تو اس طرح کے کام شرک کے سبب بنتے ہیں اور اس طرح کے کام توحید کے بر خلاف ہیں۔ (۱۸)
۲۔ محمد بن عبد الوھاب نے حضرت عمر سے ایک حدیث نقل کی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی غیر خدا کی قسم کھائے تو اس نے شرک کیا ، اور ایک دوسری حدیث کے مطابق خدا کی جھوٹی قسم غیر خدا کی سچّی قسم سے بھتر ہے، لیکن صاحب فتح المجید اس بات کی تاویل کرتے ھوئے کھتے ہیں کہ خدا کی جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے ، جبکہ غیر خدا کی سچی قسم شرک ہے جس کی اھمیت گناہ کبیرہ سے زیادہ ہے۔ (۱۹)
۳۔ اگر کسی شخص کو کوئی خیر یا شر پھونچا ہے، وہ اگر اسے دنیا سے جانے اور اس کو گالی وغیرہ دے تو گویا اس نے خدا کو گالی دی ہے کیونکہ خدا ھی تمام چیزوں کا حقیقی فاعل ہے۔(۲۰)
۴۔ ابو ھریرہ کی ایک حدیث کے مطابق یہ کھنا جائز نھیں ہے کہ اے خدا اگر تو چاھے تو مجھے معاف کردے یا تو چاھے تو مجھ پر رحم کردے، کیونکہ خدا وندعالم اس بندے کی حاجت کو پورا کرنے میں کوئی کراھت نھیں رکھتا۔ (۲۱)
۵۔ کسی کے لئے یہ جائز نھیں ھے کہ وہ اپنے غلام اور کنیز کو ”عبد“ اور ”امہ" کھے اور یہ کھے ”عبدی“ یا ” اَمَتی“کیونکہ خداوندعالم تمام لوگوں کا پروردگار ہے اور سب اسی کے بندے ہیں اور اگر کوئی اپنے کو صاحب عبد یا صاحب امہ جانے ، اگرچہ اس کا ارادہ خدا کے ساتھ شرکت نہ بھی ھو ، لیکن یھی ظاھری اور اسمی شراکت ایک قسم کا شرک ہے، بلکہ اسے چاھئے کہ عبد اور امہ کے بدلے” فتیٰ“ اور” فتاة“یا غلام کھے۔ (۲۲)
۶۔ جس وقت انسان کو کوئی مشکل پیش آجائے تو اسے یہ نھیں کھنا چاھئے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا ھوتا تو ایسا نہ ھوتا، کیونکہ ”لفظ اگر“ کے کھنے میں ایک قسم کا افسوس ہے اور ”لفظ اگر “ میں شیطان کے لئے ایک راستہ کُھل جاتا ہے اور یہ افسوس اور حسرت کرنا اس صبر کے مخالف ہے جس کو خدا چاھتا ہے، جبکہ صبر کرنا واجب ہے اور قضا وقدر پر ایمان رکھنا بھی واجب ہے۔ (۲۳)
حوالہ جات:
۱۔ رسالہ ھدیۂ طبیعہ ص ۸۲، ورسالہ عقیدة الفرقة الناجیہ ص ۱۹.
۲۔ اس کی یہ بات ظاھراً ابن تیمیہ کی بات سے اخذ کی گئی ہے چونکہ ابن تیمیہ نے بھی اسی بات کو کتاب العبودیہ ص ۱۵۵ میں کھا ھے.
۳۔ ثلاث رسائل ص ۶، شیخ عبد الرحمن آل شیخ نے کھا ھے کہ اگر کوئی خدا کی محبت میں کسی دوسرے کو خدا کا شریک قرار دے، (یعنی کسی دوسرے سے بھی محبت کرے) تو گویا اس نے دوسرے کو خدا کی عبادت میں شریک قرار دیا ہے اور اس کو خدا کی طرح مانا ہے، اور یہ وہ شرک ھے جس کو خدا معاف نھیں کرے گا، اگر کوئی شخص صرف خدا کو چاھتا ھے اور کسی دوسرے کو خدا کے لئے چاھتا ھے تو ایسا شخص موحد ھے ، لیکن اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو خدا کے ساتھ دوست رکھتا ھے تو ایسا شخص مشرک ھے، (فتح المجید ص ۱۱۴)
۴۔ آلوسی ص ۴۵.
۵۔ اس سلسلہ میں مرحوم علامہ حاج سید محسن امین فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نھیں کہ مطلق طور پرغیر خدا سے طلب حاجت کرنا یا ان کو پکارنا ، ان کی عبادت نھیں ہے اور اس میں کوئی ممانعت بھی نھیں ھے، اس بناپر اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو پکارتا ھے تاکہ اس کے پاس جائے یا اس کی مدد کرے یا کوئی چیز اس کو دے یا اس کی کوئی ضرورت پوری کرے ، اس طرح کے کام غیر خدا کی عبادت حساب نھیں ھوتے، اور کسی طرح کا کوئی گناہ بھی نھیں ھے، اور آیہ شریفہ ’’فَلاٰ تَدْعُوا مَعَ اللّٰہ اَحَداً .‘‘ (جو وھابیوں کی دلیل ھے)کامقصد مطلق دعا نھیں ھے بلکہ جس چیز سے نھی کی گئی ھے وہ یہ ھے جس سے کوئی چیز طلب کررھے ھو یا اس کو پکار رھے ھو اس کو خدا کی طرح قادر اور مختار نہ جانو، (کشف الارتیاب ص ۲۸۲)
۶۔ ھدیہ طبیعہ، ص ۸۵.
۷۔ کشف الشبھات ص ۴۰.
۸۔ تاریخ نجد ص ۸۰.
۹۔ سورہ آل عمران آیت ۶۴، امان نامہ کی عبارت تاریخ وھابیان میں بیان ھوگی.
۱۰۔ حافظ وھبہ ص ۳۴۶، شوکانی کی تحریر کے مطابق اھل مکہ بھی وھابیوں کو کافر کھتے تھے، (البدر الطالع ج۲ ص۷)
۱۱۔ تاریخ المملکة العربیة السعودیة جلد اول ص ۴۳.
۱۲۔ جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۳۹، نجدی مورخ شیخ عثمان بن بشر اکثر مقامات پر وھابیوں کو مسلمانوں سے تعبیر کرتا ھے گویا فقط وھی لوگ مسلمان ہیں اور دوسرے مسلمان کافر یا مشرک ہیں، (عنوان المجد نامی کتاب پر رجوع فرمائیں) اسی طرح کھتا ھے کہ ۱۲۶۷ء میں قطر کے لوگوں کی فیصل بن ترکی کے ھاتھوں پر بیعت کرنا اسلام اور ان کی جماعت میں داخل ھونے کی بیعت تھی، (ج۲ ص ۱۳۲)
۱۳۔ فتح المجید ص ۱۱۰.
۱۴۔ جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۳۹،”ابن وردی“ کھتا ھے کہ جس وقت مصر کے بادشاہ نے مغلوں کی کثرت سپاہ کو دیکھا تو اپنی زبان پر یہ جملہ کھا ”یا خالد بن ولید“ ، اس وقت ابن تیمیہ صاحب بھی تشریف رکھتے تھے انھوں نے اس کام سے روکا اورکھا کہ یہ نہ کھو، بلکہ ”یامالک یوم الدین“ کھو (جلد دوم ص ۴۱۱)
۱۵۔ جزیر ة العرب ص ۳۴۱.
۱۶۔ تاریخ المملکة العربیہ، جلد اول ص ۵۱.
۱۷۔ البد ر الطالع ج ۲ ص ۵،۶.
۱۸۔ کتاب التوحید ص ۱۲۱.
۱۹۔ کتاب التوحید ص ۴۲۵، غیر خدا کی قسم کے بارے میں ابن تیمیہ کے عقائد کے بارے میں وضاحت کردی گئی ہے.
۲۰۔ فتح المجید ص ۴۳۶.
۲۱۔ فتح المجید ص ۴۶۴، یہ حدیث مسند احمد، مسند ابوھریرہ جلد دوم ص ۲۴۳ میں اس طرح ھے: ”اِذَا دَعَا اَحَدُکُمْ فَلاٰیَقُلْ: اِغْفِرْ لِی اِنْ شِئْتَ وَلٰکِنْ لِیَعْزَمْ بِالْمَسْئَالَةِ فَاِنَّہ لاٰ مُکْرِہ لَہ"
۲۲۔ فتح المجید ص ۴۶۶.
۲۳۔ فتح المجید ص ۴۷۵.
توحید کے معنی اور کلمۂ ”لا الہ الا اللّٰہ“ کا مفھوم
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیوں کی فکری بنیادیں
- بازدید: 2654
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
4
Online