قبروں کو مسمار کرنے کے لئے وھابیوں کی ایک اھم دلیل وہ روایت ہے جس میں رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت علی عَلَیہ السَّلَام کو مدینہ کی قبروں کو مسمار کرنے کی ذمہ داری سونپا تھا ۔
«عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَنْطَلِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلا يَدَعُ بِهَا وَثَنًا إِلا كَسَرَهُ، وَلا قَبْرًا إِلا سَوَّاهُ، وَلا صُورَةً إِلا لَطَّخَهَا؟»
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کسی جنازہ کی تشییع میں شریک تھے کہ فرمایا : تم میں سے کون ہے جو مدینہ جا کے تمام بتوں کو توڑ سکتا ہے ، تمام قبروں کو ہموار ، اور تمام تصویروں کو مٹا سکتا ہے؟
مسند الإمام أحمد بن حنبل، اسم المؤلف: أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني، دار النشر: مؤسسة قرطبة – مصر؛ ج 1، ص 87، ح 657
اس روایت کی سند سے قطع نظر، اس کے الفاظ کو بھی اگر ملحوظ نظر رکھا جائے تو بھی وھابیوں کا دعوا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ روایت کے الفاظ ہیں : «ولا قبرا إلا سواه» یہ نہیں کہا : «ولا قبرا إلا خربته» یا «ولا قبرا إلا هدمته» لہذا روایت میں خراب کرنے یا مسمار کرنے کا حکم نہیں ،بلکہ حکم «تسویة القبر» ہے؛ یعنی قبروں کو ہموار کرنے کا حکم ہے کیونکہ جاہلیت کے دور میں قبروں کو اونٹ کے کوبڑ کی طرح بنایا کرتے تھے لہذا رسول اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْہ وَ آلِہ وَسَلَّمَ نے جاہلیت کے آثار کو مٹانے کے لئے یہ حکم دیا تھا۔ اس کے باجود وہابیوں کے مطابق اس روایت کی رو سے جو بھی قبروں کو اونچا بنائے منجملہ «ابوحنیفہ» کی قبر اور اس کے لئے گنبد و بارگاہ بنائے وہ کافر ہوگا ۔ وہابی لوگ اس روایت سے بہت استدلال کرتے جب کہ مزہ کی بات یہ ہے کہ ان کا معروف اور معتبر عالم «شعیب أرنؤوط» اس روایت کے ذیل میں لکھتا ہے: «إسناده ضعیف» اس کی سند ضعیف ہے۔
روایت کی سند کے بارے میں بحث :
«شعیب أرنؤوط» کے ساتھ ، نہایت معتبر وہابی عالم «ألبانی» جس کے اعتبار کی حیثیت یہ ہے کہ وہابیوں میں اسے بخاری ثانی کہا جاتا ہے، وہ بھی کتاب «ارواء الغلیل» جلد سوم صفحہ 206 میں یہی بحث پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ :«ورجاله ثقات رجال الشیخین غیر أبی المودع أو أبی محمد, فهو مجهول کما قال فی " التقریب " وغیره» حالانکہ اس کے رجال، شیخین کی نظر میں ثقہ ہیں لیکن أبی المودع یا أبی محمد تو بالکل مجہول ہیں جیسا کہ کتاب " التقریب " میں یا دوسری کتابوں میں مذکور ہے.
إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل، المؤلف: محمد ناصر الدین الألبانی، الناشر: المکتب الإسلامی – بیروت، الطبعة: الثانیة - 1405، ج 3، ص 210، ح 759
ظاہر سی بات ہے مجہول کی روایت، ضعیف ہوا کرتی ہے ۔
تیسرا نکتہ یہ کہ کتاب «صحیح مسلم» میں روایت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے آخری سفر میں مکہ و مدینہ کے درمیان اپنی والدہ بزرگوار کے مرقد پہ حاضر ہوئے، خود بھی گریہ فرمایا اور آپ کے گرد سب لوگوں نے بھی گریہ کیا : «زَارَ النبی قَبْرَ أُمِّهِ فَبَکی وَأَبْکی من حَوْلَهُ» سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تمام قبروں کو مسمار کرنے کا حکم دیدیا تھا تو آپ کی والدہ کی قبر کی پہچان کیسے ہوئی ؟!
انبیاء اور اولیاء کے قبور کی تعمیر، قرآن کی نظر میں :
پہلی آیہ: آیہ 36 سورہ مبارکہ نور:
«ثعلبی» نقل کرتا ہے : پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ایک شخص اٹھ کے پوچھتا ہے : یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم! یہ کون سا گھر مراد ہے ؟ پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا : انبیاء کا گھر مراد ہے ۔ پھر ابوبکر نے اٹھ کے پوچھا : یا رسول اللہ صلی الله علیه و آله وسلم! علی و زہرا کا گھر بھی انبیاء کے گھر کے برابر ہے ؟! حضرت نے فرمایا: ہاں بلکہ انبیاء کے گھر سے افضل ہے .
الکشف والبیان؛ المؤلف: أبو إسحاق أحمد بن محمد بن إبراهیم الثعلبی النیسابوری، دار النشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت - لبنان - 1422 هـ - 2002 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الإمام أبی محمد بن عاشور، ج 7، ص 107
اسی طرح «جلال الدین سیوطی» کی کتاب «تفسیر در المنثور» میں، نیز «ألوسی» کی کتاب « تفسیر روح المعانی» میں بھی یہ روایت نقل ہوئی ہے ۔
ملاحظہ کیجئے رفعت سے مراد کیا ؟! خداوند عالم سورہ بقرہ آیہ 127 میں ارشاد فرماتا ہے :
(وَ إِذْ یرْفَعُ إِبْراهِیمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَیتِ وَ إِسْماعِیلُ رَبَّنا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّک أَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیم) اس آیہ شریفہ میں (یرْفَعُ) کس معنی میں ہے؟! ظاہر سی بات ہے عمارت کو اٹھانے ، بلند کرنے اور اونچا کرنے کے معنی میں ہے؛ اسی سے حرم، گنبد، ضریح اور بارگاہ بنانے کا اشارہ بھی ملتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم نے خانہ خدا کی عمارت کو اونچا کیا.
«ابن جوزی» کہتا ہے:
«والثانی أن تبنی قاله مجاهد وقتادة» دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قبور پر عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے جیسا کہ مجاہد اور قتادہ قائل ہیں ۔
زاد المسیر فی علم التفسیر، اسم المؤلف: عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی، دار النشر: المکتب الإسلامی - بیروت - 1404، الطبعة: الثالثة، ج 6، ص 46، النور: (36)
اسی طرح کتاب «تفسیر بحر المحیط» میں «ابو حیان أندلسی» بھی یہی روایت نقل کرتے ہیں : «وإذنه تعالی وأمره بأن (تُرْفَعَ) أی یعظم قدرها قاله الحسن والضحاک» خداوند عالم نے اذن اور حکم دیا ہے کہ ان کی تکریم و تعظیم ہو اور اسے حسن بصری اور ضحاک نے کہا ہے «وقال ابن عباس ومجاهد: تبنی وتعلی» او ر ابن عباس و مجاہد کا کہنا ہے کہ : ان کے قبور پر عمارت تعمیر ہو اور وہ دوسرے گھروں سے اونچی ہو ۔
تفسیر البحر المحیط، اسم المؤلف: محمد بن یوسف الشهیر بأبی حیان الأندلسی، دار النشر: دار الکتب العلمیة - لبنان/ بیروت - 1422 هـ -2001 م، الطبعة: الأولی، تحقیق: الشیخ عادل أحمد عبد الموجود - الشیخ علی محمد معوض، ج 6، ص 421، باب النور: (36)
دوسری آیت: آیہ 23 سورہ مبارکہ کہف: (فَقالُوا ابْنُوا عَلَیهِمْ بُنْیاناً رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قالَ الَّذِینَ غَلَبُوا عَلی أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیهِمْ مَسْجِداً إِذْ یتَنازَعُونَ بَینَهُمْ أَمْرَهُم)
اگر قبروں پہ مسجد بنانا کفر اور بدعت کا مصداق ہوتا تو خداوند عالم اس سورہ میں اس جگہ ضرور مذمت کرتا جبکہ خداوند عالم نہ صرف مذمت نہیں کر رہا ہے بلکہ تائید کر رہا ہے!
«زمخشری» کتاب «الکشاف» میں کہتا ہے : «{ لَنَتَّخِذَنَّ } علی باب الکهف {مَّسْجِدًا} یصلی فیه المسلمون ویتبرکون بمکانهم» مراد یہ ہے کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے تا کہ مومنین یہاں نماز پڑھیں ، اور اصحاب کہف کے اس مقدس مقام سے برکتیں حاصل کریں ۔
الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الأقاویل فی وجوه التأویل، أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی، تحقیق عبد الرزاق المهدی، الناشر دار إحیاء التراث العربی، عدد الأجزاء 4، ج 2، ص 665
«طبری» کتاب «تفسیر طبری» جلد 15 میں لکھتے ہیں: «وقال المسلمون نحن أحق بهم هم منا نبنی علیهم مسجدا نصلی فیه ونعبد الله فیه» مومنوں نے کہا کہ ہم دوسروں سے زیادہ حق رکھتے ہیں ، ہم اصحاب کہف کی قبر پہ مسجد بنائیں گے، اور وہاں نماز پڑھیں گے اور خدا کی عبادت کریں گے ۔
«ابن جوزی» متوفای 597 کتاب «زاد المسیر» میں کہتے ہیں : «فقال المسلمون نبنی علیهم مسجدا لأنهم علی دیننا» مومنین نے کہا کہ ہم اصحاب کہف کی قبر پر مسجد بنائیں گے کیونکہ وہ لوگ ہمارے دین پر تھے ۔
قبور پر تعمیر سیرت صحابه :
اہل سنت کی برجستہ شخصیت اور بزرگ عالم دین «سمہودی» اپنی کتاب «وفاء الوفا» کی دوسری جلد صفحہ 109 میں رقم طراز ہیں : «وکان بیت عائشة رضی الله عنها أحد الأربعة المذکورة. لکن سیأتی من روایة ابن سعد أنه لم یکن علیه حائط زمن النبی صلّی الله علیه وسلّم، وأن أول من بنی علیه جدارا عمر بن الخطاب» رسول اسلام صلّی الله علیه و آلہ و سلّم کے زمانے میں عائشہ کے حجرہ اور مسجد میں دیوار نہیں تھی، اس پر سب سے پہلے عمر نے دیوار بنائی ۔
یعنی قبر رسول صلی الله علیه و آله وسلم اور عائشہ کے حجرہ کے درمیان عمر نے دیوار بنائی ۔ اب اگر قبر پر کسی طرح کی تعمیر حرام ہوتی تو قبر کو تو مسمار کر دینا چاہئے تھا ، اس پر دیوار بنانے کا کیا مطلب ؟ اور دیوار کو بھی کسی اور نے نہیں خلیفہ دوم نے بنوایا!کتاب «البدایة و النهایة» میں بیان ہوا ہے . «فأدخل فیه الحجرة النبویة حجرة عائشة فدخل القبر فی المسجد» پھر نبی کا حجرہ، عائشہ کا حجرہ، نبی کی قبر، مسجد میں داخل کر لی گئی ۔
البداية والنهاية ، اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي أبو الفداء ، دار النشر : مكتبة المعارف – بيروت؛ ج9، ص 75
دوسری روایت اسی کتاب «وفاء الوفاء» میں یہی «سمہودی» جناب «فاطمہ بنت اسد» کے بارہ میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : «فلما توفیت خرج رسول الله صلی الله علیه وسلم، فأمر بقبرها فحفر فی موضع المسجد الذی یقال له الیوم قبر فاطمة» جب فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا اس مکان میں جہاں مسجد تھی کھود کر ان کے لئے قبر تیار کی جائے ۔
قبروں کو مسمار کرنے کے لئے وھابیت کی اھم دلیل:
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: اسلامی تھذیب و ثقافت کا انھدام
- بازدید: 3048
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
2
Online