دورجدید میں بعض اہم ترین سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان میں بہت سے تبدیلیاں نظریاتی اور بہت سے عملی سیاست میں میدان میں رونما ہوئی ہیں۔
جمہوریت
دور قدیم ہی سے بادشاہت اور آمریت کا نظام دنیا میں رائج رہا ہے۔ تاریخ انسانی میں اس سے استثنا صرف بنی اسرائیل کے ابتدائی دور اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ کو رہا ہے۔ اس کے علاوہ یونان کے عروج کے دور میں بھی جمہوریت کا تجربہ کیا گیا۔ جمہوریت اور آمریت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں حکومت عام لوگوں کے مشورے سے قائم ہوتی ہے اور انہی سے مشورے سے ختم ہوتی ہے۔ حکومت اپنے عوام کے سامنے اپنے ہر فعل کے لئے جواب دہ ہوتی ہے۔ آمریت اس کے برعکس کسی فرد، خاندان یا گروہ کی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہوتی ہے اور آمر اپنے افعال کے لئے قوم کو جواب دہ نہیں ہوتا۔
دور جدید میں اہل مغرب نے سیاسی میدان میں جمہوریت کی روایت قائم کر دی ہے۔ مسلم ممالک میں اس روایت کو بالعموم اختیار نہیں کیا گیا اور زیادہ تر مسلم ممالک میں بادشاہت یا فوجی آمریت کا نظام قائم ہے۔ حالیہ تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا میں سیاسی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور مسلم ممالک آہستہ آہستہ جمہوری نظام کی طرف جا رہے ہیں۔ بہت سے مسلم ممالک میں لولی لنگڑی جمہوریت قائم ہو چکی ہے۔ بعض مسلم ممالک جیسے ملائشیا میں جمہوری نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔
میڈیا کی بڑھتی ہوئی آزادی کے باعث آمرانہ قوتوں کی معاشرے پر گرفت مسلسل کمزور ہو رہی ہے۔ حکمرانوں کے احتساب کی روایت بھی آہستہ آہستہ طاقت پکڑ رہی ہے۔ اس سب کے باوجود اس معاملے میں مسلم ممالک ابھی مغربی ممالک سے سالوں پیچھے ہیں اور انہیں مغربی ممالک کے جمہوری نظام تک پہنچنے کے لئے کئی عشرے درکار ہیں۔
ہماری رائے میں دینی اور اخلاقی نقطہ نظر سے یہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔ اسلام نے معاشرے میں اجتماعیت کی جو بنیاد پیش کی ہے وہ صرف اور صرف شورائیت ہے یعنی معاشرے کا پورا نظام مشورے سے چلایا جائے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کی صفات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ۔ (الشوری 42:38)
اور وہ لوگ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات مشورے سے چلاتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
سید ابوالاعلی مودودی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
"أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت میں پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے:
اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہوں انہیں اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور وہ اس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کے ان کے معاملات فی الواقع کس طرح چلائے جا رہے ہیں، اور انہیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو جو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں، احتجاج کر سکیں، اور اگر اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور ان کے ہاتھ پاؤں کس کر اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔
دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضامندی سے مقرر کیا جائے۔ یہ رضامندی، ان کی آزادانہ رضامندی ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی، یا تحریص اور اطماع سے خریدی ہوئی، یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوئی ہوئی رضامندی درحقیقت رضامندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا، جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔
سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو، اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جا سکتے جو دباؤ ڈال کر، یا مال سے خرید کر، یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر، یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔
چہارم یہ کہ مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں، اور اس طرح کے اظہار رائے کی، انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر، یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں، وہاں درحقیقت خیانت اور غداری ہوگی نہ کہ أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کی پیروی۔
پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوری کے اجماع (اتفاق رائے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی یہ نہیں فرما رہا ہے کہ "ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے" بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ "ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں"۔ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔" (تفہیم القرآن ج 4 ص 510)
ایک صحیح جمہوری نظام میں یہ پانچوں شرائط پوری ہوتی ہیں جس کا تقاضا أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ کی یہ آیت کرتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت کی طرف یہ قدم نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے۔
آزادی رائے
موجودہ دور آزادی رائے اور آزادی اظہار کا دور ہے۔ اہل مغرب نے اس قدر کو اپنے معاشروں میں اس قدر ترقی یافتہ بنا لیا ہے کہ اس کے نتیجے میں وہاں بالعموم کھل کر ہر معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ہاں بالخصوص مذہبی معاملات میں بعض لوگ اس آزادی کا غلط استعمال کر لیتے ہیں اور دوسروں کے جذبات کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔
قدیم مسلم معاشرے میں آزادی اظہار اپنے عروج پر تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھلے عام ہر معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے۔ یہاں تک کہ خلیفہ پر بھی کھلی تنقید کی جاتی۔ بنو امیہ کے دور میں ایک مخصوص دائرے کے علاوہ تقریباً یہی صورتحال رہی۔ بنو عباس کے دور سے مسلمانوں کے ہاں انسان کے اس حق پر حدود و قیود عائد ہونا شروع ہوئیں۔ موجودہ دور میں مسلم معاشروں کی بڑی تعداد اس حق سے محروم ہے۔ اکثر مقامات پر تو حکومت کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں لیکن بعض ممالک جیسے پاکستان میں حکومت کی طرف سے تو کوئی خاص پابندیاں نہیں لیکن بہت سے ایسے پریشر گروپ موجود ہیں جو اہل علم کو آزادی اظہار کا حق دینے کو تیار نہیں اور اپنے مسلک یا نظریات کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کر دینے کے لئے کمربستہ رہتے ہیں۔
اگرچہ آزادی اظہار کے معاملے میں بھی مسلم ممالک مغربی ممالک سے بہت پیچھے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے ہاں بھی یہ حق دینے کا سلسلہ اور فکر کو آزاد کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ جمہوریت کی طرح اس معاملے میں انہیں عالمی معیار تک پہنچنے کے لئے کئی عشرے درکار ہوں گے۔
بعض لوگ اظہار رائے کی اس آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دوسروں کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں تاہم اس سے آزادی اظہار کے اس حق کی نفی نہیں ہوتی۔ قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ "لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ" یعنی "دین میں کوئی جبر نہیں"۔ ہر شخص کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ جس نقطہ نظر کو حق سمجھے، اسے اختیار کر لے کیونکہ قرآن مجید نے حق کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آزادی رائے کی یہ قدر بالکل مثبت تبدیلی ہے البتہ اس کا غلط استعمال برا ہے۔
سیکولرازم
عام طور پر سیکولرازم کا معنی لادینیت سمجھا جاتا ہے۔ سیکولرازم کے حامیوں کے نزدیک یہ لادینیت کے مترادف نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب اور ریاست کے معاملات کو الگ کر دیا جائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ معاشروں کی اکثریت متعدد مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔ اگر کسی ایک مذہب کو یہ حق دیا جائے کہ وہ پبلک لاء بن کر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو متاثر کرسکے تو یہ مذہبی آزادی کے منافی ہو گا۔ اس کے نتیجے میں مذہبی اقلیتیں اس بات پر مجبور ہو جائیں گی کہ وہ ریاست کی وفادار شہری بن کر نہ رہیں۔
مغربی ممالک سیکولرازم کو پوری طرح اختیار کر چکے ہیں۔ ان کے ہاں سیکولرازم کے متعدد ماڈل موجود ہیں۔ ان میں ایک ماڈل فرانس (اور مسلم دنیا میں ترکی) کا ہے جس میں پبلک مقامات پر مذہبی علامات کے اظہار تک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا ماڈل ہے جہاں ہر مذہب کے ماننے والے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے لیکن ریاست کے تمام تر معاملات میں مذہب کو استعمال نہیں کیا جاتا۔
مسلم ممالک کے ہاں اس معاملے میں متضاد رویے پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ کے نقطہ نظر کے مطابق مسلمانوں کو اجتماعی بنیادوں پر اپنا نظام صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر قائم کرنا چاہیے۔ اقلیتوں کو ان کے پرسنل لاء کی آزادی دی جائے لیکن پبلک لاء صرف اور صرف اسلام کا ہونا چاہیے۔ اسی نقطہ نظر کی بنیاد پر بہت سے مسلم ممالک میں اسلامی جماعتیں جدوجہد کر رہی ہیں۔ اسی نقطہ نظر کو سعودی عرب اور ایران کی حکومتوں نے مکمل طور پر اور پاکستان کے آئین میں جزوی طور پر اختیار کیا گیا ہے۔
دوسرا نقطہ نظر بالعموم مسلم حکمرانوں کا ہے۔ یہ لوگ عام طور پر سیکولر ذہن کے مالک ہیں اور سیکولر ازم کو پسند کرتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں موجود مسلم اقلیتیں سیکولر ازم کی حامی ہیں اور ان کے مذہبی علماء اسی کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔
اگر غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیتوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سیکولر ازم ایک مثبت تبدیلی ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک میں اسے منفی تبدیلی سمجھا جاتا ہے۔ دین اسلام ہر غیر مسلم قوم کو اس کے پرسنل لاء کی آزادی دیتا ہے۔ عبادات، فیملی لاء، وراثت اور بہت سے دیگر معاملات میں ہر غیر مسلم قوم کو اپنے عقیدے اور نظریے پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دینا مسلمانوں کی حکومت پر لازم ہے۔
رہا سوال پبلک لاء کا جس میں وہ قوانین آتے ہیں جن کا تعلق بلا کسی مذہب کے تمام اقوام سے ہے۔ اس کی واضح مثال مملکت کا سیاسی نظام، اس کی معاشی پالیسی، عوام کو سہولیات فراہم کرنا، جرائم کی سزا، امن و امان وغیرہ کے مسائل ہیں۔
جب بھی کوئی قوم اپنے ملک کے پبلک لاء سے متعلق کوئی قانون سازی کرتی ہے تو وہ اپنی طرز معاشرت، تاریخ اور اقدار کو اہمیت دیتی ہے۔ اگر کسی ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہو تو یہ بالکل ہی نامعقول بات ہو گی کہ مسلمان قانون سازی میں اپنے طرز معاشرت، تاریخ اور اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے مذہب کو بالکل ہی نظر انداز کر دیں۔ ایسا مغربی ممالک میں بھی نہیں ہوتا اور ان کے ہاں بھی اکثریت کے مذہب یا روایات کو پبلک لاء سے متعلق قانون سازی میں اہمیت (Weightage) دی جاتی ہے۔ جمہوری نظام کا تقاضا یہ ہے کہ اکثریت کو اقلیتوں کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے اپنی روایات اور مذہب کی بنیاد پر قانون سازی کا حق دیا جائے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکولر ازم کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے جو پہلو دین اسلام سے متصادم ہوتے ہیں، ان میں ضروری تغیر و تبدل کر کے انہیں دین اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ سیکولر ازم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دین کے بہت سے احکام مسلمانوں کو اجتماعی حیثیت سے دیے گئے ہیں۔ اگر ریاست کو مکمل طور پر لادین بنا دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگ اپنی انفرادی حیثیت میں تو اچھے مسلمان ہوں مگر اجتماعی طور پر وہ اللہ تعالی سے یہ کہہ رہے ہوں کہ ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے۔ اس طرز عمل کو منافقت کے علاوہ شاید ہی کوئی نام دیا جا سکے۔
اس معاملے میں سب سے اچھی مثال ملائشیا نے قائم کی ہے۔ ان کے ہاں اسلامی قوانین کو مسلمانوں پر نافذ کیا جاتا ہے۔ غیر مسلم اقلیتوں کے لئے ان کےاپنے قوانین نافذ کیے جاتے ہیں یا پھر سیکولر قوانین موجود ہیں۔
ریاست کا معاشرے میں مذہبی کردار
سیکولر ازم سے متعلق ایک اور تبدیلی جدید سیاسی نظریے میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔ یہ سوال بھی دور جدید میں پیدا ہو گیا ہے کہ کیا ریاست کو معاشرے میں مذہبی کردار ادا کرنا چاہیے؟ کیا ریاست کو اپنے شہریوں پر مذہب کو بزور طاقت نافذ کرنا چاہیے؟
جدید سیاسی نظریے میں اس سوال کا جواب نفی میں دیا گیا ہے۔ مغربی ممالک میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے مذہبی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرتی اگرچہ فرانس اور ترکی جیسے ممالک میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔
مسلم ممالک میں اس معاملے میں دو نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق ریاست کو مذہب جبراً اپنے شہریوں پر نافذ کرنا چاہیے۔ روایتی مذہبی طبقہ بالعموم اسی نقطہ نظر کا حامی ہے۔ دوسرا گروہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کا ہے جو اس معاملے مغربی نظریے کی حمایت کرتے ہیں۔ ایک تیسرا نقطہ نظر بھی اس معاملے میں موجود ہے جس کے مطابق ریاست کو مذہب جبراً نافذ کرنے کی بجائے دعوت و اصلاح کے ذریعے پھیلانا چاہیے اور اس ضمن میں سرکاری وسائل کو بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔
اگر دین اسلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہو گا کہ اس کا اہم ترین حصہ اخلاقیات پر مشتمل ہے۔ ان اخلاقیات کے بارے میں اسلام، دیگر مذاہب اور یہاں تک کہ لادین حلقوں میں بھی کوئی اختلاف موجود نہیں۔ دین اسلام میں ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے عوام کی اخلاقی اصلاح کے لئے کوشش کرے۔ اس کوشش کو "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کا نام دیا گیا ہے۔
معروف سے مراد وہ نیکیاں ہیں جن کا نیکی ہونا انسانوں کے نزدیک مسلمہ حیثیت کا حامل ہو جیسے دیانت داری، عجز و انکسار ، غرباء کی مدد وغیرہ۔ اسی طرح منکر سے مراد وہ برائیاں ہیں جو انسانوں کے نزدیک مسلمہ طور پر برائی سمجھی جاتی ہوں جیسے چوری، قتل، بد دیانتی، جھوٹ وغیرہ۔ ظاہر ہے ان نیکیوں کی ترویج اور برائیوں کے خاتمے سے کسی غیر مسلم یا سیکولر شخص کو بھی کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا ہے۔
دین اسلام کا دوسرا حصہ عقائد اور شریعت پر مشتمل ہے۔ اس حصے سے غیر مسلموں کو اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ شریعت کے معاملے میں مختلف مسلم فرقوں اور مسالک کے مابین اختلافات بھی موجود ہیں۔ اس معاملے میں یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے یا نہیں۔ ہماری رائے میں حکومت کو یہ معاملہ خود انجام دینے کی بجائے مختلف مذاہب کے ایسے اہل علم پر چھوڑ دینا چاہیے جو اپنے نقطہ نظر کو معقولیت سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ اگر حکومت ایک مسلک کو بزور نافذ کرنے کی کوشش کرے تو اس کے نتیجے میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے فرقوں کی جانب سے بغاوت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں معاشرے کو سوائے انتشار کے کچھ اور حاصل نہ ہو گا۔
ہمارے نزدیک موجودہ دور میں پیدا ہونے والی یہ تبدیلی منفی نوعیت کی ہے کیونکہ اگر ریاست معاشرے میں مثبت اقدار کے فروغ کے لئے کام نہ کرے گی تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں انتشار اور بگاڑ بڑھتا جائے گا۔ ہماری رائے میں حکومت کو اخلاقیات کے فروغ کی حد تک اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ رہے دیگر مذہبی معاملات تو ان کو مذہبی علماء کے سپرد کر دینا چاہیے۔ اس معاملے میں مذہبی علماء کی تربیت کی ضرورت بھی ہے تا کہ وہ ان اختلافات کو بڑھا کر تفرقہ بازی کی سطح تک نہ لے جائیں بلکہ مثبت انداز میں اختلافات کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے کی اہمیت سے واقف ہوں۔
عالمگیریت (Globalization)
موجودہ دور کی ایک اہم تبدیلی عالمگیریت کی تحریک ہے۔ دنیا بھر میں یہ تحریک جاری ہے اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا کی سیاست، معیشت اور معاشرت کو ایک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ معاشی میدان میں اس تحریک کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی صورت میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ معاشرت کے میدان میں بھی اس تحریک کو کسی قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے مگر کسی حد تک ایک ملٹی نیشنل کلچر وجود پذیر ہو رہا ہے۔ سیاسی میدان میں اس تحریک کو اب تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
گلوبلائزیشن کی اس تحریک کے بالمقابل علاقائیت (Regionalism) کی تحریک بھی دنیا میں چل رہی ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں یورپی یونین کا بہت بڑا اتحاد معرض وجود میں آ چکا ہے۔ دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی معاشی بنیادوں پر ممالک کو یکجا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عالمگیریت کے خلاف اینٹی گلوبلائزیشن کی تحریک بھی موجود ہے جس میں مختلف سطحوں پر عالمگیریت کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
ہماری رائے میں، معاشی گلوبلائزیشن کو ایک طرف رکھتے ہوئے، دیگر میدانوں میں پیدا ہونے والی یہ تبدیلی مثبت ہے۔ دینی نقطہ نظر سے اس تبدیلی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ معاشروں کے اوپن ہونے کے نتیجے میں دین اسلام اور مثبت اقدار کی دعوت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بہت سے نئے مواقع پیش آ رہے ہیں۔
مذہبی جنگیں
بیسویں صدی کے وسط میں مسلمانوں کے اندر غلبہ اسلام کی تحریکیں پیدا ہوئیں۔ ان تحریکوں کا مقصد یہ رہا ہے کہ کسی بھی طریقے سے مسلم ممالک کی موجودہ حکومتوں کو ختم کر کے یہاں اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ اس نقطہ نظر کے حاملین جلد ہی بہت سے حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ بعض نے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور ان میں سے بعض مسلح جدوجہد کے راستے پر چل پڑے۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں یہ مسلح جدوجہد عالمی سطح پر پھیل چکی ہے اور یہ مذہبی قوتیں بالخصوص عراق اور افغانستان میں امریکہ کے خلاف جنگ کر رہی ہیں۔ بہت سے دیگر مسلم ممالک میں صورتحال یہ ہے کہ وہ بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
جدید دور میں پیدا ہونے والی یہ تبدیلی منفی نوعیت کی ہے۔ موجودہ دور میں تکنیکی اعتبار سے جنگ نہ صرف شکست خوردہ قوم کے لئے تباہی کا باعث ہے بلکہ اکثر اوقات فتح حاصل کرنے والی اقوام کے لئے بھی جنگ تباہی کا پیغام ہی لے کر آتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اگرچہ اتحادی قوتوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن روس، برطانیہ اور فرانس میں ہونے والی تباہی، جرمنی، اٹلی اور جاپان کی تباہی سے کچھ کم نہ تھی۔ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ جنگوں کے نتیجے میں جہاں مسلم ممالک (جیسے افغانستان اور عراق) تباہی کا شکار ہوں گے وہاں ان کا مقابلہ کرنے والے غیر مسلم ممالک (جیسے امریکہ اور برطانیہ) بھی کچھ کم نقصان سے دوچار نہ ہوں گے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ مسلم اور غیر مسلم ممالک دونوں میں امن کی اہمیت اجاگر کی جائے اور انہیں تصادم سے روکا جائے کیونکہ یہ تصادم دونوں کے لئے ہی مہلک ثابت ہو گا۔
خلاصہ بحث
سیاسی میدان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں مثبت اور منفی دونوں رجحانات پائے جاتے ہیں۔ بعض تبدیلیاں منفی نوعیت کی ہیں جبکہ بعض مثبت نوعیت کی۔