ذهبی نے تذکرة الحفاظ میں لکھا ہے:
أن الصديق جمع الناس بعد وفاة نبيهم فقال إنكم تحدثون عن رسول الله (ص) أحاديث تختلفون فيها والناس بعدكم أشد اختلافا فلا تحدثوا عن رسول الله شيئا فمن سألكم فقولوا بيننا وبينكم كتاب الله فاستحلوا حلاله وحرموا حرامه. ﴿١﴾
حضرت ابوبکر نے رسول صلي الله عليه وآله و سلم کی رحلت کے بعد لوگوں کو جمع کیا اور کھا:
تو لوگ حضرت پیغمبر صلي الله عليه وآله و سلم سےایسی روایات نقل کرتے ھو جن میں اختلاف ہے اور تمھارے بعد لوگ اور زیادہ اختلاف کریں گے۔ ]لھذا حضرت پیغمبر صلي الله عليه وآله و سلم سے کوئی حدیث نقل نہ کرو اور جو کوئی تم سے کوئی سوال کرے تو کہہ دو کہ تمھارے اور ھمارے درمیان اللہ کی کتاب ہے۔ اللہ کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کرو۔
اهل فکر سے سوال:
1ـ کیا حضرت ابوبکر کا حدیث نقل کرنے سے منع کرنا قرآن کی ان آیتوں کے خلاف نھیں ہے جن میں حکم دیا گیا ہے کہ رسول خدا (صلي الله عليه وآله و سلم) کے دستور پر عمل کیجئے؟
2ـ کیا حضرت ابوبکر کا یہ کام رسول خدا (صلي الله عليه وآله و سلم) سے مقابلہ بازی نھیں شمار ھوگا؟
3ـ کیا حضرت ابوبکر کی طرف سے احادیث پیغمبر (صلي الله عليه وآله و سلم) پر پابندی لگانا آپ (صلي الله عليه وآله و سلم) کے مقصد رسالت کے خلاف نھیں ہے؟
حوالہ
١۔ ١۔ تذکرة الحفاظ، ج 1 ص 2-3۔
حضرت ابوبکر کی طرف سے احادیث نبوی صلي الله عليه وآله و سلم پر پابندی
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیوں کے تفسیری و حدیثی نظریات
- بازدید: 3083
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
2
Online