وہ اس بات کی تاکید کرتے ھیں : وھابیوں کے درمیان ان کے فتوؤں کا وجود اسرائیلی عناصر سے متاثر ھونے کی بناپر ھے ۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاھئے کہ یہ فتوئے سعودی محل و دربار سے صادر ھوئے ھیں، کیونکہ سعودی عرب کے تمام علماء و مفتی حکومت کے کارکن و خادم ھیں ، یہ فتوے اسرائیل کے منافع اور حزب اللہ لبنان ، حماس اور اخوان المسلمین وغیرہ کے خلاف ڈھلتے اور صادر ھوتے ھیں ۔
عصام العماد نے سعودی عرب میں معتدل و موزون وھابیوں کے وجود کو مبارک کی ایجاد میں بتایا اور کھا : شیخ سلیمان العودۃ ، معتدل وھابیوں کا سردار منجملہ ان لوگوں میں سے ھے کہ جس نے شیخ محمد عبد الوھاب پر شجاعت و بھادری کے ساتھ تنقید و رد کی اور اس کو خطا کار جانا ھے ۔
انھوں نے اس طرح کے امر کے وجود کو تاریخی بنیاد جانتے ھوئے کھا : جس وقت "ملک فیصل " اور جمال عبد الناصر " کے درمیان نزاع واقع ھوا تو " ملک فیصل " نے انتقام لینے کی غرض سے بعض علمائے اھل سنت کو مصر سے سعودیہ بلایا منجملہ ان میں "سید محمد قطب " و " شیخ محمد غزالی " وغیرہ تھے، تاکہ یہ لوگ " جمال عبد الناصر " کے خلاف کام کریں ، مگر جب یہ لوگ سعودی عرب پھونچے اور چونکہ ان لوگوں نے "سید جمال الدین اسد آبادی " اور " شیخ محمد عبدہ " کے تفکرات و افکار کو قبول کرلیا تھا، لھٰذا " شیخ محمد عبد الوھاب " کے تفکرات و نظریات پر سخت تنقید کیا ۔
عصام العماد نے کھا : جس وقت یہ لوگ سعودیہ عرب میں آئے تو ( شیخ ربیع بن مدخلی ) ( بن باز ) نے ایک ایسی تعبیر استعمال کرتے ھوئے کھا تھا کہ ان لوگوں کی آمد ایک بم کے مانند ھے، جو وھابی تفکرات میں دھماکے کا سبب بنے گی ، انھوں نے کھا : " سید محمد قطب " کو سعودیہ عرب میں رھنے پر مجبور کیا گیا، تو وہ درس و تدریس میں مشغول ھوگئے اور " سلیمان العودہ " جیسے لائق و شائستہ شاگردوں کی تربیت و پرورش کی ، ایسے حالات و شرائط میں جبکہ سعودیہ عرب میں امام علی علیہ السلام اور عمر بن خطاب پر تو تنقید و نکتہ چینی ھوتی تھی، مگر کسی کو شیخ محمد عبد الوھاب پر نکتہ چینی کا حق نھیں تھا ۔
عصام العماد بتاتے ھیں : مجھے یاد ھے ایک زمانہ میں سعودی عرب کی یونیورسٹیوں میں امام علی علیہ السلام اور یھاں تک کہ عمر بن خطاب پر بھی بڑی آسانی سے تنقید کی جاتی تھی، لیکن کسی کو شیخ محمد بن عبد الوھاب پر تنقید کا حق نھیں تھا ، مگر رفتہ رفتہ " سید محمد قطب " اور " شیخ محمد غزالی " جیسے شجاع و بھادر بزرگوں کے وجود نے ایسے حالات و شرائط کو ختم کردیا ( اور شیخ عبد الوھاب پر تنقید ھونے لگی ) انھوں نے بتایا : جب " سید محمد قطب " کی علمی شان و جلالت کے سامنے وھابی بزرگوں کو مقابلہ کی طاقت و سکت نہ رھی تو ان پر تھمت لگانی شروع کردی کہ ولی امر کے خلاف بلوا و ھنگامہ کھڑا کر رکھا ھے، تو انھوں نے جواب میں کھا تھا کہ اگر میرے لئے کوئی ولی امر ھے کہ ( جس کے خلاف میں بولتا ھوں ) تو وہ "جمال عبد الناصر " ھے ۔
وھابیوں کے فتوؤں کے صدور کا سر چشمہ
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیوں کے فقھی نظریات
- بازدید: 2159
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
12
Online