موجودہ دورمیں انسان کی نفسیات اور طرز فکر میں قدیم دور کے انسان کے زمانے میں بہت سی غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان میں سے اہم یہ ہیں:
· عقل کے استعمال میں اضافہ
· توہم پرستی میں کمی
· قدیم فلسفے کا خاتمہ اور سائنسی طرز فکر
ان تبدیلیوں کی تفصیل یہ ہے۔
عقل کے استعمال میں اضافہ
قدیم دور کا انسان عقل کو کم ہی استعمال کیا کرتا تھا۔ عقل کا استعمال صرف غیر معمولی ذہین افراد کیا کرتے اور وہ بھی بہت سے معاملات میں عقل کو محدود سمجھتے ہوئے اس کے استعمال سے گریز کرتے۔ اس کی واضح مثال مذہب کا میدان ہے۔ مذہبی معاملات میں یہ فرض کر لیا گیا کہ خدا اس دنیا کو بہت سے نائبین کی مدد سے چلا رہا ہے جو بذات خود خدائی صفات کے حامل ہیں۔ ان نائبین کے بارے میں بہت سے قصے کہانیاں وضع کی گئیں اور انہیں دیوی دیوتاؤں کا مقام دے کر ان کی پرستش شروع کر دی گئی۔
یہودی، عیسائی اور مسلمان قوموں کے ہاں انبیاء کرام کی طویل تاریخ موجود ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے اپنے پیروکاروں کو عقل استعمال کرنے کی تلقین کی۔ قرآن مجید بار بار عقل کو استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے پیروکاروں کی ابتدائی تاریخ میں ہر معاملے میں عقل کا واضح استعمال نظر آتا ہے۔
جب ان پیروکاروں کی بعد کی نسلیں دوسری اقوام کے فلسفے اور تصورات سے متاثر ہوئیں تو ان کے ہاں عقل ایک دوسرے درجے کی چیز بن کر رہ گئی اور اس کا استعمال برا سمجھا جانے لگا۔ بالخصوص مسلمانوں کے ہاں تنقید ایک شجر ممنوعہ قرار پایا اور تقلید کو ایک بڑی قدر کے طور پر اختیار کر لیا گیا۔ یہ رویہ صرف مذہبی معاملات تک ہی محدود نہ رہا بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی یہی روش اختیار کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ مسلمان دوسری اقوام کے مقابلے میں پیچھے ہوتے چلے گئے۔
دوسری طرف اہل مغرب نے رینی ساں اور ریفارمیشن کی تحریکوں کے نتیجے میں عقلی طرز فکر کو اختیار کر لیا۔ انہوں نے زندگی کے تمام میدانوں میں تقلید کی بجائے تحقیق کا رویہ اپنایا۔ کسی بھی رائے کو محض کسی بہت بڑے بزرگ یا عالم کی رائے ہونے کے سبب ماننے کی بجائے اس کی چھان پھٹک اور دوسری آرا سے اس کے تقابل کا طریقہ اختیار کیا۔ نیوٹن نے ارسطو اور آئن اسٹائن نے نیوٹن سے اختلاف رائے کیا جس کے نتیجے میں ان کے ہاں ترقی ہوتی چلی گئی اور وہ علمی میدان میں آگے نکلتے چلے گئے۔
جدید دور میں اہل مغرب نے جہاں مسلمانوں کو اور بہت سے میدانوں میں متاثر کیا ہے وہاں ان کی یہ تبدیلی بھی مسلمانوں کے ہاں آ رہی ہے۔ اب مسلمانوں کے ہاں بھی سوچنا سمجھنا، غور و فکر کرنا، سابق آراء اور تصورات کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہے اور مذہب سمیت ہر معاملے میں ان کے ہاں عقل کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ اگر ہم صرف برصغیر کے مسلمانوں کی سو سالہ فکری تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہو گا کہ ان کے اہل علم و دانش میں عقل کو استعمال کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
عقل کے استعمال کے نتیجے ہی میں انسان شرک کے تصور سے آزاد ہوا۔ اس کے علاوہ قدیم انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو دیوی دیوتا، ان کا اوتار یا پھر غیر معمولی صفات کا حامل سمجھ کر ان کی ظاہری یا باطنی پرستش کرتا رہا۔ جدید انسان عقل کے استعمال سے آہستہ آہستہ ان پابندیوں سے آزاد ہو رہا ہے۔
بعض لوگ متصوفانہ تعلیمات کے زیر اثر عقل کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے مقابلے پر عشق و محبت کو کھڑا کر دیتے ہیں۔
بے خطر آتش نمرود میں کود پڑا عشق
عقل تھی محو تماشائے لب بام ابھی
اس شعر میں عقل کی تحقیر کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا آگ میں کودنے کا فیصلہ عشق کی بنیاد پر تھا اور عقل اس سے منع کر رہی تھی۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اپنے شوق سے آگ میں نہ کودے تھے بلکہ انہیں جبراً حق کی آواز بلند کرنے کے سبب آگ میں پھینکا گیا تھا۔
اللہ تعالی سے محبت اور اس کے حکم کے مطابق عمل کرنا اگرچہ بظاہر انسان کے لئے شارٹ ٹرم مسائل کا باعث بھی ہو تب بھی انسان کی اصل زندگی یعنی آخرت میں یہ آرام کا باعث ہو گا۔ یہ بات بجائے خود اتنی معقول ہے کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا آگ میں کودنے کا واقعہ سراسر عقلی و منطقی تھا کیونکہ وہ اللہ تعالی کے حکم کی پیروی کر رہے تھے اور اس کے دنیاوی و اخروی نتائج سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ دقت نظر سے اگر دیکھا جائے تو عقل و محبت میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ تضاد بالعموم شاعرانہ تک بندیوں کے نتیجے میں مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا ہے ورنہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
جس طرح عقل کے استعمال سے اہل مغرب نے انسانیت کے فائدے کے لئے بہت سی چیزیں ایجاد کیں، اسی طرح ہم بھی عقل کے استعمال ہی کے ذریعے ہی نہ صرف دنیا بلکہ دینی معاملات میں ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔ قرآن مجید کی پوری دعوت بلا سوچے سمجھے مان لینے کی بجائے علم و عقل کے استعمال کے ذریعے خدا اور اس کے رسول کو پہچان لینے کی دعوت ہے۔ یقین نہ آئے تو انہی آیات پر غور کر لیجیے۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُولِي الأَلْبَابِ. الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَاماً وَقُعُوداً وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (اٰل عمران 3:190-191)
بے شک آسمان و زمین کی تخلیق، اور رات و دن کے باری باری آنے میں ان اہل عقل کے لئے بہت سے نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں (اور کہتے ہیں)، اے ہمارے رب! تو نے یہ سب کچھ فضول اور بے مقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے (اس سے کہ تو فضول کام کرے)۔ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمّاً وَعُمْيَاناً۔ (الفرقان 25:73)
جب انہیں ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گرتے (بلکہ غور و فکر کر کے نصیحت قبول کرتے ہیں۔)
عقل کے استعمال کے ذریعے انسان نہ صرف اپنے رب کو پہچان کر ہدایت قبول کرتا ہے بلکہ وہ ان طالع آزما سیاسی و مذہبی راہنماؤں کی چال بازیوں سے بھی بچ جاتا ہے جو اسے بے خبر رکھ کر اپنا ذہنی غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔
ہمارے نزدیک دور جدید عقل کے استعمال میں اضافہ ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے اور اس معاملے میں ہم اپنے آباء و اجداد کے مقابلے میں نسبتاً بہتر مقام پر کھڑے ہیں۔
توہم پرستی میں کمی
قدیم دور میں عوام الناس تو کجا، خواص میں بھی توہم پرستی عام تھی۔ ایسے واقعات جن میں دور کا بھی کوئی تعلق نہ ہوا کرتا تھا، لوگ اپنے توہمات کے ذریعے ان میں تعلق قائم کر لیا کرتے تھے۔ ہم اگر اپنے قدیم دیہاتی معاشرے کا جائزہ لیں تو ان توہمات کی طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر بلی کے راستہ کاٹنے سے آفات اور سورج و چاند گرہن سے بیماریوں کو وابستہ کیا جاتا ہے۔ بیٹھ کر ٹانگیں ہلانے اور ٹوٹا ہوا آئینہ دیکھنے کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ اس کی سب سے درد ناک مثال یہ ہے کہ اگر شادی کے فوراً بعد کوئی سانحہ رونما ہو جائے تو اس کا قصور وار لڑکی کو ٹھہرا کر اسے منحوس قرار دیا جاتا ہے۔
دین اسلام چونکہ توہم پرستی کو پسند نہیں کرتا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس کی مذمت فرمائی اور عربوں کے توہم پرستانہ خیالات پر ضرب لگائی۔ آپ کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر اتفاقا سورج گرہن ہو گیا تو لوگوں نے یہ خیال کیا کہ شاید یہ آپ کے صاحبزادے کی وفات کے باعث ہوا ہے۔ حضور نے اس بات کی سختی سے تردید فرمائی۔
جب مسلمانوں کو دوسری اقوام سے معاملہ پیش آیا تو انہوں نے ان کی دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ ان کے توہمات کو بھی اختیار کر لیا۔ ہمارے دیہاتی اور شہری معاشروں میں اس کی مثالیں بکثرت دیکھی جا سکتی ہیں۔
دور جدید میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ان کے باعث توہم پرستی میں کافی کمی آ چکی ہے۔ اگرچہ اہل مغرب کے ہاں بھی بہت سے توہم پرست لوگ پائے جاتے ہیں لیکن ان کی عمومی سوچ توہم پرستی سے بڑی حد تک پاک ہو چکی ہے۔ یہی اثرات اب مسلم دنیا میں آ رہے ہیں اور مسلمانوں کی جدید تعلیم یافتہ نسل اپنے والدین کی نسبت کم توہم پرست ہوتی جا رہی ہے۔
ہمارے نزدیک یہ بھی ایک نہایت ہی مثبت تبدیلی ہے اور ہم پر لازم ہے کہ اس کے تسلسل کو باقی رکھا جائے۔
قدیم فلسفے کا خاتمہ اور سائنسی طرز فکر
یونان کے قدیم فلسفے نے مسلمانوں کو بہت متاثر کیا۔ اس فلسفے کا طریق کار یہ تھا کہ چند تصورات (Postulates) کو بنیادی طور پر فرض کر کے انہیں مقدس اور ناقابل تنقید قرار دیا جاتا۔ اس کے بعد انہی تصورات کی بنیاد پر فلسفے کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی جاتی۔ اس کی ایک مثال "ہیولی" کا تصور ہے جسے درس نظامی کے نصاب میں فلسفے کی ابتدائی کتب میں بیان کیا گیا ہے اور اس کی بنیاد پر فلسفے کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کی گئی ہے۔ فلسفے میں ما بعد الطبیعات (Metaphysics) کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہو گئی۔
دور جدید میں سائنسی طرز فکر نے ما بعد الطبیعاتی فلسفے کی اہمیت کم کر کے عملی زندگی کے مسائل کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ فلسفے کے بنیادی تصورات (Postulates) غلط اور بے بنیاد ثابت ہوئے۔ جب کسی عمارت کی بنیاد ہی کو ڈھا دیا جائے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی۔ دور جدید میں سائنس کا موضوع یہ نہیں رہا کہ خدا کی صفات کیا ہیں؟ اس کے لئے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ زندگی بسر کرنے کے لئے توانائی حاصل کیسے کی جائے تا کہ دنیا میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکے؟ سیاسی نظام کر فلاحی ریاست میں کیونکر بدلا جائے؟ عدل و انصاف پر مبنی معاشی نظام کیسے قائم کیا جائے؟
قدیم فلسفیانہ طریقے میں ذہن کے تخیل کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ چند باتوں کو فرض کر کے ان سے فروعات نکال کر فلسفہ بنا لیا جاتا۔ جدید سائنسی طرز فکر نے مشاہدے کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ اب چیزوں کو ذہن کی تخیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ محسوس مشاہدے کی بنیاد پر پرکھا اور مانا جاتا ہے۔ ایک صاحب علم نے اسے ایک مثال کے ذریعے یوں بیان کیا ہے:
سائنسی ذہن کا مطلب حقائق کو اہمیت دینے والا ذہن ہے۔ سائنس کے انقلاب نے موجودہ زمانے میں انسانی فکر میں جو تبدیلی کی ہے وہ یہ ہے کہ جو بات کہی جائے تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر کہی جائے نہ کہ مفروضات اور قیاسات کی بنیاد پر۔ موجودہ زمانہ میں جو انقلاب آیا ہے و حقائق فطرت کے مطالعے سے آیا ہے۔ بائیسکل سے لے کر ہوائی جہاز تک اور بجلی کے لیمپ سے لے کر بڑے بڑے صنعتی کارخانوں تک ہر چیز فطری حقائق کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ یہی انقلاب موجودہ زمانے کا غالب انقلاب ہے۔ اس نے زندگی کے تمام پہلوؤں پر اثر ڈالا ہے۔ اسی نے موجودہ زمانہ میں اسلوب کلام کو بھی بدل دیا ہے۔ انسان ہزاروں سال سے پراسرار عملیات کی بنیاد پر لوہے کو سونا بنانے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ کامیاب نہیں ہوا۔ اب حقائق فطرت کو دریافت کر کے وہ لوہے کو مشینوں میں تبدیل کر رہا ہے جو سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ ایسی حالت میں بالکل قدرتی بات ہے کہ آج کا انسان حقائق فطرت کی بنیاد پر ثابت ہونے والی بات کو سب سے زیادہ باوزن سمجھے۔ آج کے انسان نے جو ترقیاں کی ہیں وہ حقائق کی بنیاد پر کی ہیں اس لئے آج کا انسان انہی باتوں کو اہمیت دیتا ہے جو حقائق کے زور پر ثابت ہوتا ہو۔
قدیم اور جدید ذہن کے فرق کو ایک سادہ مثال سے سمجھیے۔ پچاس سال پہلے اطباء کے یہاں اس قسم کے الفاظ بے حد پرکشش سمجھے جاتے تھے ----- خاندانی نسخہ، پشتینی علاج، شاہی ترکیب سے بنی ہوئی دوا۔ کسی دوا یا منجن کے بارے میں یہ الفاظ بولنے کا مطلب یہ تھا کہ اس میں پراسرار خواص چھپے ہوئے ہیں۔ مگر آج ان الفاظ کے اندر کوئی قیمت نہیں۔ آج کا ڈاکٹر کسی دوا یا کسی ٹوتھ پیسٹ کی اہمیت کو بتانے کے لئے "قدیمی نسخہ" کی اصطلاح نہیں بولے گا۔ وہ کہے گا کہ یہ سائنسی طریقوں سے بنایا گیا ہے۔ سائنسی طریقہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کی افادیت کو معلوم تجربات و مشاہدات کے ذریعہ جانا جا چکا ہے۔ حتی کہ اگر کوئی چاہے تو ان تجربات کو دہرا کر دوبارہ ان کے نتائج کی صحت کی تصدیق کر سکتا ہے۔ جب کہ خاندانی علاج کا مطلب یہ تھا کہ اس کے طبی خواص ہر ایک کے لئے قابل دریافت نہیں ہیں۔ دوا اور مرض کے درمیان تعلق کو متعین تجربات کے ذریعے معلوم نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی اہمیت بس یہ ہے کہ وہ قدیم زمانہ سے چلا آ رہا ہے۔ آج کا انسان اسی منجن کو استعمال کرنا پسند کرتا ہے جو سائنسی، بالفاظ دیگر، فطری حقیقتوں کی پیروی کرتے ہوئے بنا ہو۔ اسی طرح وہ صرف ان افکار کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے جن کا برحق ہونا فطری حقائق کے ذریعہ معلوم ہوا ہو۔ (وحید الدین خان، احیائے اسلام ص 72)
دور حاضر کی یہ تبدیلی بھی بہت مثبت ہے۔ جدید سائنس اس بات کو مان چکی ہے کہ انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی خیالی تک بندیوں سے خدا کی پہچان کر سکے۔ اس نے یہ میدان مذہب کے لئے چھوڑ دیا ہے اور خود مشاہدے اور تجربے کے ذریعے ان حقائق کی تلاش میں سرگرداں ہے جن کا تعلق محسوس واقعات سے ہے۔ اس تبدیلی کے مثبت اثرات ہم واضح طور پر اپنی زندگیوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اب ہمارے ذہین ترین افراد کی دانش الٹے سیدھے فلسفوں کی گھتیاں سلجھانے کی بجائے زندگی کے عملی مسائل کے حل میں صرف ہو رہی ہیں جس سے پوری انسانیت کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
خلاصہ بحث
انسان کے طرز فکر میں رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کا جائزہ لے کر ہم بڑے اطمینان سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے طرز فکر میں بہت سی غیر معمولی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں جس سے جہاں تو چند نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں لیکن اس سے مثبت سمت میں بڑھنے کے نئے مواقع بھی میسر آئے ہیں۔