ھم اس حصہ میں خداوندعالم کی مدد سے موٴسس وھابیت کے زبدہٴ افکار پر ایک تحقیقی اور تنقیدی نظر ڈالیں گے اور اس کے نظریات اور افکار کے بنیادی اصولوںکو بھی پرکھیں گے۔
جن مطالب کے بارے میں ”محمد ابن عبدالوھاب“ نے بحث کی ھے (۱) ان کی تعداد بھت زیادہ ھے اگر ھم چاھیں ان میں سے ھر ایک مسئلہ کے بارے میں مفصل بحث کریں تو بحث طولانی ھو جائے گی اور کئی مختلف رسالوں کو تاٴلیف کرنے کی ضرورت پڑے گی لھذا مجبوراً اس کے اساسی افکار، گزیدہ نظریات اور اعتقادی مسائل کے بارے میں تحقیق و بحث کریں گے اور تنھا اس مقدار کو جو اسکے اسلامی تعالیم عالیہ سے منحرف اور ھٹ جانے کی طرف اشارہ کرنے پر کافی ھو، اپنی بحث و تحقیق کا مورد قرار دیں گے اور اس کے افکار کے جزئیات میں داخل ھونے سے پرھیز کریں گے۔
موٴسسِ وھابیت کی تاٴلیفات میں جو چیز تمام چیزوں سے زیادہ دکھائی دیتی ھے وہ شرک و بت پرستی سے ممانعت“ کو قرار دیا جاسکتا ھے توحید اور اس پر دعوت دینا عبدالوھاب کےبیٹے ”محمد “ کے نظریات و آراء میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ھے، البتہ انھوں نے دعا کے اصلی ھدف و منشاء کو گم کردیا ھے اور بے راہ چلے گئے ھیں اور عملی میدان میں ”توحید کے منافات و اضداد“ اور ”شرک و بت پرستی کی اقسام“ میں غوطہ زن ھوکر ”اصل توحید، خدا پرستوں اور دینداروں“ کے ساتھ خصومت و دشمنی کے گڈھے میں جاگرے ھیں۔
وھابیت کا موٴسس، توحید کو ”اصل الاصول“، اساسِ اعمال، بندوں پر خدا کے واجب حق اور دعوت انبیاء کے اصلی ھدف کی حیثیت سے جانتا ھے۔ ھم بھی اس عقیدے میں اس کے حامی ھیں لیکن ھم اس کو بتائیں گے کہ جس توحید کا وہ قائل ھے وہ ایک ایسی توحید نھیں ھے جس کی طرف انبیاء الٰھی اور سچے ادیان نے لوگوں کو دعوت دی ھے بلکہ ایک ایسی توحید ھے کہ جو وھابیت کے موٴسس کے غلط استنباط اور فکری انحرافات کا نتیجہ ھے جو توحید الٰھی اور توحید اسلام کے سازگار نھیں ھے، کامل وضاحت کے لئے ھم تفصیل سے بحث کرنا چاھتے ھیں:
وھابیوں کے اعتقادی اصول محمد ابن عبدالوھاب کھتا ھے: ”صالحین اور نیک حضرات کے بارے میں غلو سے کام لینا بت پرستی کی ایک قسم ھے اور غلوکی صورتوں میں سے ایک قبروں کی پرستش یا قبروں کے کنارے خدا کی پرستش ھے اوراسی طرح غیر خدا کے لئے نذر کرنا اور غیر خدا کو شفیع قرار دینا بھی بت پرستی ھے“ (۲)
وہ کھتا ھے: ”اپنے اور خدا کے درمیان کسی چیز کو واسطہ قرار دینا شرک ھے، جو توحید کے ساتھ سازگار نھیں ھے، تقّرب جوئی، خدا کا خالص حق ھے جو کسی دوسرے کے لئے شائستہ نھیں ھے یھاں تک کہ مقّرب فرشتہ اور نبی مرسل ھی کیوں نہ ھوں، دوسرے افراد تو دور کی چیز ھیں۔“ (۳)
اس کا قول ھے: ”جو لوگ خدا اور مخلوق کے درمیان واسطہ کے قائل ھیںوہ مشرک ھیں اس لئے کہ واسطہ قرار دینا اصل توحید اور ” لاالہ الااللّٰہ“کے شعار کے ساتھ نھیں ملتا ھے اور یہ اصل توحید کو ختم کردیتا ھے“ (۴)
بھرحال عبدالوھاب کا فرزند، تنھا اپنے آپ کو ”توحیدکامحافظ اور پاسدار “ اور ”اھل توحید“ جانتا ھے اور گویا عالم موحدی میں اس کے سوا کوئی نھیں آیا ھے اور اس کے علاوہ کسی نے توحید کے معنی کونھیں سمجھاھے، تنھا وھی شخص ھے کہ جس نے توحید حقیقی کو سمجھا ھے اور کفرو شرک، زندقہ اور بت پرستی کے خطرات سے توحید کی حفاظت و پاسداری کے لئے کھڑا ھوا ھے،غافل اس سے کہ اس نے اصلاً قرآن اور سچے اسلام کی توحید خالص کی ھو تک نھیں سونگھی ھے ورنہ وہ اس طرح کی بیھودہ باتوں کے لئے زبان نہ کھولتا۔
محمدا بن عبدالوھّاب کھتا ھے: ”انبیاء سے استغاثہ اورندبہ کرنا ان کو پکارنا، کفر اور اسلام کے دائرہ سے خارج کردیتا ھے“ (۵)
اس کا کھنا ھے: ”صالحین، مقربان اور اولیاء خدا کے حضور عرض نیازاور حاجت مانگنا، شرک و کفر اور توحید کے خلاف ھے“ (۶)
وہ کھتا ھے: ”غیر خدا کے لئے قربانی اورذ بح کرنا شرک ھے،
خدا اور مخلوقین کے درمیان واسطہ کا قائل ھونا اور اس پر توکل کرنا کفر ھے“ (۷)
شیعوں کی نسبت موٴسسِ وھابیت کی تھمتیں محمد بن عبدالوھاب اپنی کتاب ”الرّد علی الرّافضة“ میں جو آئین تشیع کی رد میں لکھی گئی ھے، کچھ مطالب شیعوں کے عقائد کے بارے میں لکھتا ھے جو درحقیقت قابل تنقید تحقیق یا جواب نھیں ھیں بلکہ خود مصنف کے ظرفِ کاھلی اور بے دینی پر دلالت کرتا ھے ۔
وہ کتاب کے آغاز میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت و وصایت کے بارے میں بحث کرتے ھوئے کھتا ھے کہ جو شخص بھی آیہٴ بلّغ اور حدیث غدیر کا معتقد ھو اور خلافت علی علیہ السلام کو ”منصوص من اللّٰہ والرسول“ جانتا ھو، کافر ھے (۸)وہ اسی کتاب میں کھتا ھے: ”شیعہ تحریف قرآن کے قائل ھیں اور قرآن کو ناقص جانتے ھیں اور جو لوگ نقص و تحریف کے قائل ھیں وہ کافر ھیں“ (۹)
موٴسسِ وھابیت اسی مذکورہ کتاب میں اختصار کے ساتھ ایک بحث تقیہ کے بارے میں بھی کرتا ھے اور جوکچھ ناسزا، تھمت اورگالیاں اپنے پاس رکھتا تھا وہ سب اس نے شیعوں کی جان پر نثار کردیتا ھے اور تقیّہ کے مسئلہ پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے وہ شیعوں کو کافر کہتا ھے۔ (۱۰)
اور شیعوں کو اس عقیدہ کی وجہ سے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کرنے والے شخص اور ان کے دشمن کو کافر جانتے ھیں، فاسق و کافرکھتا ھے۔ (۱۱)
ائمہ طاھرین علیھم السلام کی عصمت سے متعلق شیعوں کے عقیدہ کے بارے میں کھتا ھے کہ: ”اماموں کے بارے میں عصمت کا دعویٰ اور اثبات کرنا، شیعوں کے جھوٹ اور افترء ات میں سے ھے جبکہ کتاب، سنت، اجماع، صحیح قیاس اور عقل سلیم میں سے کوئی بھی دلیل اس پر دلالت نھیں کرتی ھے اور خدا مار ڈالے ان کو کہ ایسا عقیدہ رکھتے ھیں“ (۱۲)
اسی کتاب ”الرّد علی الرافضة“ میں افضلیت علی علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کے عقیدہ کو مورد نشانہ بناتے ھوئے اپنے ھمعصر اور ھم روزگار کے ساتھ ملکر کھتا ھے:
”علی علیہ السلام کی افضلیت کا اعتقاد رکھنا کفر ھے“(۱۳)
مسئلہ ”رجعت“ سے متعلق شیعوں کے عقیدہ کے بارے میں جو کچھ گالیاں اور نازیبا الفاظ جانتا تھا، سب شیعوں کو ھدیہ کرتا ھے،آپ حضرات! ادب و تربیت کو ملاحظہ کریں کہ اس نے شیعوں کو نافھم گدھوں کے لقب سے یاد کیاھے،اور ایسی باتوں کے ذریعہ جن میں عفت قلم، ادب کلام، اسلامی تربیت اور رسول گرامی اسلام(ص) کی سنّت کی پیروی موجزن ھے!! شیعوں کو مخاطب قرار دے کر کھتا ھے:
”خداوند عالم نے تم جیسے شقی لوگوں کی عقل کو سلب کرلیا ھے اور تم کو ذلیل و خوار کیا ھے“ (۱۴)
ایک دوسری جگہ اس طرح کھتا ھے: ”شیعوں نے اذان کے فقروں میں اضافہ کیا ھے، جو بدعت ھے اور خلاف دین و سنّت ھے نہ اس پر اجماع کی کوئی دلیل ھے اور نہ ھی صحیح قیاس کی دلیل ھے اور نہ ھی کتاب و سنّت کی کوئی دلیل اس پر دلالت کرتی ھے۔“ (۱۵)
اسی کتاب میں متعہ کے متعلق بھی اشارہ کرتا ھے اور اس کو شیعوں کی طرف سے ”زنا“ جائز ھونے کے معنی میں خیال کرتا ھے اور اس کو ایک منسوخ حکم اور حرام عمل کی حیثیت سے معرفی کرتا ھے“۔ (۱۶) کتاب کے آخر میں شیعوں کو یھودیوں سے مشابہ قرار دیتا ھے اور کھنا چاھتا ھے کہ آئین تشیّع یھودیوں کے ھاتھوں بنایا گیا ایک دین ھے“۔ (۱۷)
قابل ذکر ھے کہ یہ ایک ایسا مطلب ھے جسے وھابی مصنّفین اپنی کتابوں اور فحش ناموں میں تشیع کے خلاف ایک حربہ کے بطور استعمال کرتے ھیں،ایک دوسرا اعتراض جسے یہ جناب شیخ الاسلام، شیعوں پر تھوپتے ھیں وہ جمعہ اور جماعت کا ترک کرنا ھے۔
اس کے بعد، اسی کتاب میں عیسائیوں سے شیعوں کی مشابھت نیز مجوسیوں سے شیعوں کی شباھت کے بارے میں بحث کرتا ھے اور کھتا ھے کہ شیعہ بھی مجوسیوں اور زردشتیوں کے مانند خدا کو خیر کا خالق اور شیطان (اھرمن) کو شر کا خالق جانتے ھیں۔ (۱۸)
آخر میں حضرت سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے مسئلہ کو اس طرح بیان کرتے ھوئے کھتا ھے: ”امام حسین علیہ السلام کے لئے عزاداری منانا دین سے خارج ھونے کے برابرھے، امام حسین (ع)کی عزاداری بدعت ھے اور اسے روکنا چاھئے اور اس سلسلہ میں اپنے معلم فکری ”ابن تیمیہ“ کے نظریہ سے استناد کرتا ھے اور سیدالشھداء کے لئے عزاداری کو منکرات، قبیح افعال، خلاف شرع اور بدعتوں میں شمار کرتا ھے“۔ (۱۹)
بس اس مقدار میں آئین تشیّع سے موٴسسِ وھابیت کی آشنائی ھے اور نیز ناسزا کھنے اور تکفیر و تفسیق کرنے میں اس کی مھارت، تربیت و ادب کی مقدار بھی یھیں تک محدود ھے۔
محمد بن عبدالوھاب کی یھی تمام باتیں ھیں جنھیں منجمد افکار اور بے شعور لوگوں نے جیسے شریعت سنگلجی نے اپنی کتاب ”توحید عبادت“ اور احمد کسروی اور دوسرے افراد نے اپنی اپنی کتابوں میں”طابق النعل بالنعل(ھو بھو) “ نقل کیا ھے اور دینی اصلاح اور احیاء دین کے نام پر ایک بے خبر اور نامتمیّز افراد کے لئے بیان کیا ھے۔
جی ھاں یہ عقل و دین کے دشمن افراد نے اپنی تعصّب آلود اور عامیانہ عقل کے ذریعہ تھمت اور جسارت کرنے میں کسی طرح کی کوئی شرم و حیاء نھیں کی ھے، ان عالم نما جاھل عوام کا مبلغ علم،مقدار شعور اور ان کی نھایت درجہ علمی صلاحیت فقط چند حدیثوں کو نقل اور حفظ کرنا ھے اور وہ بھی ان میں نھفتہ عمیق معانی و معارف پر غور و فکر کئے بغیر ھے خرافات اور بدعتوں سے مبارزہ، شرک و بت پرستی، سنّت صحیح اور صالحین سلف کے مذھب کی پیروی کے دعوئے کے نام پر ھر طرح کی تھمت اور نازیبا الفاظ سے غیر وھابی مسلمانوں خصوصاً شیعوں کو نوازتے ھیں اور اپنے اس عمل کے ذریعہ اعلان کرتے ھیں کہ ھم کس حد تک حضرت سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنّت کے پیروکار ھیں۔
وھابی ایسے عام لوگ ھیں جنھوں نے علماء کا لباس پھن لیا اور تناقض گوئی، ان کی دیرینہ میراثِ تعصّب، جمود اور ان کے درمیان رائج روشوں میں سے ایک ھے، خود دوسروں سے زیادہ خرافات اور وھم پرستی میں مبتلا ھیں، لیکن شرک و خرافات کو ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ھیں، جن لوگوں کی فکری پرواز، تجسّم خدا (خدا کو جسم والا ماننا) تشبیہ حق اور جبر پر اعتقاد ھو کیا وہ احیاء دین کرسکتے ھیں؟! حقیقت تویہ ھے کہ دین ان کے ھاتھوں میں اسیر ھے جیسا کہ خانہ کعبہ ان کے ھاتھوں میں اسیر ھے؟
یہ ھو س باز اور شھوت پرست مکار لوگ جو خود کو ”خادم الحرمین“ اور شیخ الاسلام، عالم اسلام، امام مسلمین اور اتقیاء میں سے اپنے آپ کو پھچنواتے ھیں، بدعت گذار، مشرک، جلاد اور آدم کش ھیں۔
جو ھمیشہ مسلمانوں کے اتحادپرکاری ضرب لگاتے آئے ھیں اور اسلام کو محو اور نابود کرتے رھتے ھیں ، اُجرت خوار اور مزدور مصنفین شب وروز مسلمانوں کے خلاف ردّ اور فحش نامے لکھ رھے ھیں اور پھر اُس وقت محمد بن عبدالوھاب اپنی کتابوں میں مسلمانوں میں تفرقہ، دشمنی اور اختلاف سے پرھیز کا دم بھرتا ھے۔
ایک معاصر وھابی مصنف کے مقالہ کا خلاصہ یھاں پر ھم بعنوان نمونہ اور وھابی مصنفین کے علم و درایت اور ادب و تربیت کی گھرائی سے مزید آشنائی کے لئے عربی مقالہ کے ترجمہ کا خلاصہ جو وھابی مزدور مصنفین میں سے ”ابراھیم سلیمان جھمان“ (۲۰)کا لکھا ھوا ھے اور جو شیعوں کی بدعتوں اور خرافات کی رد میں لکھا گیا ھے، بیان کرتے ھیں تا کہ ھمارے عزیز قارئین، وھابیوں کی تھمت زنی اور جھوٹ وتھمت لگانے کی روش سے مزید آشنا ھوجائیں۔
یہ خائن وھابی مصنف جو اپنے کو عالم سمجھتا ھے حالانکہ ایک مزدور اور نوکر کے علاوہ کچھ بھی نھیں ھے، اپنے مقالہ کے آغاز میں لکھتا ھے: ”میں یہ مقالہ اپنے واجب فریضہ پر عمل اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ھوئے لکھ رھا ھوں میں اسلام کے نام پر بول رھا ھوں اور اعلان کرتا ھوں کہ:
۔شیعہ حضرات خرافات کے قائل ھیں، جو اسلامی صریح نصوص کے خلاف ھے ۔
۔شیعہ اھل غلو ھیں ۔
۔شیعوں کا جرم، لاکھوں انسانوں کو گمراہ اور فریب دینا ھے۔
۔اسلام سے شیعوں کا ارتباط اور رشتہ، مکڑی کے تار سے بھی باریک تر ھے۔
۔شیعہ اعتقادی اصول پنجگانہ کے قائل ھیں اور مسئلہ ولایت و امامت کو
اصول عقاید کی ردیف میں شمار کرتے ھیں اور دوسروں کی مانند تنھا تین اعتقادی اصول (توحید، نبوت اور معاد) کے قائل نھیں ھیں۔
۔شیعہ اسلامی اصول کو نیست و نابود کرناچاھتے ھیں ۔
۔شیعہ تحریف قرآن کے قائل ھیں اور حدیث کو قرآن سے بالاتر اور برتر جانتے ھیں اور حدیث کے لئے قرآن سے بھی زیادہ اھمیت کے قائل ھیں۔
۔شیعہ عصمت ائمہ علیھم السلام کے قائل ھیں اور قاعدہٴ حُسن و قبح عقلی کے بھی قائل ھیں۔
۔شیعہ ائمہ طاھرین علیھم السلام سے استغاثہ، ان کی قبور کی زیارت کے جواز اور ایام وفاتِ ائمہ معصومین علیھم السلام کی عزاداری خصوصاً امام حسین علیہ السلام کی سوگواری کے جواز کے بھی قائل ھیں۔
۔شیعہ علی علیہ السلام کو خدا کا شریک جانتے ھیں اور حُبّ علی علیہ السلام کی تاٴثیر کے قائل ھیں۔
۔شیعہ متعہ کے قائل ھیں۔
۔شیعہ مسئلہ ”بداء“ کے قائل ھیں جبکہ علمائے اسلام کا اجماع ھے،جوبداء کا قائل ھو وہ کافر ھے۔
۔ شیعہ ”تقیہ“ سے کام لیتے ھیں۔
۔شیعوں کی اذان بھی ھم مسلمانوں سے فرق کرتی ھے، ان کا وضو، نماز اور روزہ بھی ھم سے مختلف ھے، شیعوں کا زکوة دینا اور حج کا بجالانا بھی ھم مسلمانوں سے جدا ھے۔
یہ وھابی موٴلف تھمت لگانے میں اپنے بزرگوں(وھابیت کے بانی محمد ابن عبد الوھاب اور ابن قیم جوزی وغیرہ) سے کم نھیں ھے۔
اس کے بعد کھتا ھے:
۔ سنیوں کا قتل جائز جاننا،ان کوتحت فشا ر قرار دینا، اذیت پھونچانا، ان کے خلاف شھادت دینا اور ان کی جان و مال اور ناموس کو مباح جاننا، شیعوں کے عقاید میں سے ھے۔
۔شیعہ خمس فقراء اور اس کے مستحقین کو نھیں دیتے ھیں بلکہ ایک ایسے شخص کو دیتے ھیں جس کو وہ نائب امام کہتے ھیں، تا کہ بدعتوں کی ترویج اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشوں میں ھر ممکن ذریعہ سے صرف ھو۔
۔ شیعہ ”رجعت“ کے قائل ھیں۔
۔شیعوں نے جمعہ و جماعت کو ساقط کر دیا ھے اور اس پر عمل نھیں کرتے ھیں، جھاد اور اس کی حدود پر عمل نھیں کرتے ھیں۔
۔شیعہ امام غائب کے قائل ھیں۔
۔شیعہ امتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک معلون امت کھتے ھیں، نیزصحابہ کو گالی دینا ان کی عبادات میں شامل ھے۔
آگے کھتا ھے :
۔ شیعہ اپنے اماموں کے لئے حق تشریع اور نسخ احکام شرعی کے قائل ھیں۔
۔شیعہ علی علیہ السلام کو انبیاء کے برابر جانتے ھیں۔
۔ غیر خدا کے لئے قربانی کرنا، غیر خدا کی قسم کھانا اور غیر خدا سے استغاثہ کرنا جو کہ تمام شرک و کفر ھے یہ تمام امور شیعوں کے عقاید کے ارکان ھیں۔
۔”وصایت“ کے مسئلہ پر عقیدہ رکھنا،ان کے خرافات میں سے ایک ھے۔
۔ حقیقت میںتشیع کا موٴسس در واقع ”عبداللہ بن سبا“ نامی ایک یھودی تھا۔
آخر میں لکھتا ھے:
۔ تشیع کو عیسائیوں، صھیونستوں اور لندن کی مخفی کمیٹی کے ارکان نے تشکیل دیا ھے، مذھب تشیع مذکورہ کمیٹی کے ارکان ”فراماسون“ عیسائیوں، یھودی صھیونستوں اور جاسوسی کمیٹیوں کی ھمکاری، حمایت اور سازشوں سے وجود میں آیا ھے۔
اُس وقت کھتا ھے:
۔ شیعہ چاھتے ھیں کہ اسلام کو نابود کر ڈالیں اور شیعہ امت اسلام کے قلب پہ ایک خنجر کی مانند ھیں۔
۔ شیعہ چاھتے ھیں کہ اسلام کو یھودیوں کے پیروں پر قربان کر دیں۔
مقالہ کے آخر میں (بلکہ بھتر ھے کھیں فحش نامہ کے آخر میں) کھتا ھے:
۔ اصلا ً ھمیں شیعوں کو انسان ھی نھیں سمجھنا چاھیئے۔
۔ شیعہ خدا و رسول کے ساتھ محارب اور مفسد فی الارض ھیں۔
اس کے بعد شیعوں کے خلاف احساسات کو تحریک کرنے کے لئے علماء اسلام سے خطاب کر کے کھتا ھے: باطل پر سکوت اختیار نہ کریں اور چین سے نہ بیٹھیں بلکہ شیعوں کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اٹھائیں۔ خدا را ! میں تم سے چاھتا ھوں اور درخواست کرتا ھوں کہ بزرگان شیعوں کے خلاف فتویٰ صادر کریں۔ خوف نہ کھائیں اور خاص شرائط کوبیان نہ کریں کہ یہ شیطانی وسوسہ ھے، شیعوں کے خلاف اقدام کریں اور ان مشرکوں کو صفحہٴ ھستی سے مٹا دیں۔ اسلام سے دفاع، شیعوں کی سازشوں اور مکاریوں کو ختم کرنے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے نجات دلانے کی خاطر کوئی ایک فتویٰ صادر کریں۔
قارئین کرام ! یہ تھا وھابی مصنّفین میں سے ایک مصنف کے مقالہ کا خلاصہ کہ اس مقالہ میں عفت ِ قلم، مخالف کے عقائد کا احترام اور انسانی شرافت کو بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ھے۔
صاحب ” فتح المجید “ کے نظریات شیخ عبدالرحمن ابن حسن آل الشیخ، صاحب کتاب ”فتح المجید“ جو محمد بن عبدالوھاب کی کتاب ”التوحید“ کی شرح ھے اور خود شارح (شیخ عبدالرحمن) موٴسس وھابیت کا پوتا ھے، اپنی کتاب ”فتح المجید“ میں کچھ مطالب بیان کرتا ھے، جو ھم اپنے قارئین کی خدمت میں فھرست وار بیان کریں گے۔
قابل ذکر ھے کہ وھابیوں کے نزدیک مذکورہ کتاب ایک خاص اھمیت کی حامل ھے اس لئے مسجد الحرام کے طلاب علوم دینی کے کورس میں شامل ھے اور ان کی درسی کتابوں کا جزء قرار پائی ھے۔
یہ کتاب سعودی عرب کے پائے تخت ”ریاض“ سے ۴۸۰ صفحے پر اور بیروت لبنان سے ۵۱۸ صفحے پر مشتمل طبع ھوئی ھے ، ھم ان مطالب کو طبع لبنان کے مطابق نقل کرتے ھیں، عبدالرحمن آل الشیخ شفاعت کے بارے میں اپنی اس کتاب ”فتح المجید“ میںیوں رقمطراز ھے:
”چونکہ ان بتوں (قبور و حرم) کی پرستش کرنے والے معتقد ھیں کہ ان قبروں کی تعظیم، ان سے مدد طلب اور دعا مانگنے اور ان صاحبان قبور کی شفاعت و برکت کے ذریعہ اپنی آرزووٴں کو پھنچ جائیں گے،لھذا صالحین کی قبور سے ھر طرح کا تبرک حاصل کرنا اوران کا احترام کرنا، لات و عزیٰ کی پرستش کے مانند ھے اور جو شخص اس طرح کے کام کرے اور ایک صاحب قبر کا معتقد ھو تو وہ بت پرستوں کی مانند ھے۔“ (۲۱)
ایک دوسری جگہ اپنے دعوے پر ابن تیمیہ کے شاگرد ”ابن قیّم“ کی باتوں سے استدلال کرتے ھوئے کھتا ھے:
”شرک کی اقسام میں سے ایک مورد، مُردوں سے استغاثہ، اپنی حوائج کی درخواست اور ان کی طرف ھر طرح کی توجہ کرنا بھی ھے۔“ (۲۲)
شیخ عبدالرحمن اس کے بعد، اپنے ایک بے سابقہ اور دلچسپ فتوے کے ذریعہ، اپنے ایک ھمفکر ”ابن قدامہ“ کی گفتار کو نقل کرنے کے ساتھ ساتھ یوں استدلال کرتا ھے :
”ایسی مسجدوں میںنماز پڑھنا جو حرم کے کنارے بنائی گئی ھوں جائز نھیں ھے خواہ اس مسجد اور حرم کے درمیان کوئی دیوار حائل ھو یا حائل نہ ھو۔ البتہ اس طرح کی مسجدوں میں جس نماز کا پڑھنا جائز ھے وہ تنھا نماز میّت ھے۔“ (۲۳)
محمد ابن عبدالوھاب اپنی کتاب ”التوحید“ کے ایک حصّہ کو حرم کے کنارے مساجد اور انبیاء و اولیاء کی قبور کے لئے بارگاہ اور گنبد بنانے سے متعلق مختص کرتے ھوئے تاکید اور اصرار کرتا ھے کہ اس طرح کی مسجدیں، حرم اور عمارتیں بنانا حرام اور ویران کرنا واجب ھے تو اس کا پوتا شیخ عبدالرحمن اپنے دادا کی گفتار کی شرح کرتے ھوئے ابن تیمیہ کے عقیدہ کو بعنوان دلیل پیش کرتا ھے اور کھتا ھے:
”قبروں پر حرم اور عمارتیں بنانا اور ایسے ھی ان کے کنارے مسجدیں بنانا تمام مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حرام ھے، لھذا جس طرح بھی ممکن ھو پھلی فرصت میں ان مسجدوں اور عمارتوں کو منھدم کرناواجب ھے جو انبیاء اور صالحین کی قبور کے کنارے بنائی گئی ھیں اور ان آثار کو ختم کرنا ضروری ھے۔“ (۲۴)
شیخ عبدالرحمن آل الشیخ، اولیاء و صالحین کی قبور سے شفاعت، استغاثہ اور مدد چاھنے کے سلسلہ میں دوسرے موارد کی طرح ابن تیمیہ کی گفتار سے مستند کرتے ھوئے ”رسالة السنّة“ میں یوں کھتا ھے:
”جاننا چاھیئے کہ جو لوگ اسلام اور اھل سنّت سے منتسب ھیں وہ ممکن ھے مختلف انگیزوں کے ذریعہ دین اسلام سے خارج ھو جائیں ، مثلاً اپنے دینی رھبروں میں سے کسی ایک ،یا علی بن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں غلّو سے کام لیں اور کھیں: ”اے آقا میری مدد کرو“ یا ”ھماری مدد کو پھنچو “وغیرہ وغیرہ یہ تمام چیزیں شرک اور گمراہ ھیں، ایسے لوگوں سے توبہ کرانی چاھیئے اور اگر قبول نہ کریں اور اپنے عمل و عقیدہ پر اٹل رھیں تو ان کو قتل کر دینا چاھیئے۔“ (۲۵)
وہ اضافہ کرتا ھے : ”جو شخص اپنے اور خدا کے درمیان وسائط اور شفاعت کرنے والوں کو قرار دے اور وساطت کے عنوان سے (نہ کہ مستقلاً) ان پر اعتماد کرے، ان کو پکارے اور ان سے مدد طلب کرے تو ایسا شخص اجماعاً اسلام سے خارج ھے۔“ (۲۶)کتاب ”فتح المجید“ میںباقی مطالب اس طرح سے ھیں ۔
۔ توحید کے معنی (توحید عبادی کے معنی )یہ ھیں کہ: انگوٹھی پھننا شرک ھے۔
۔ غیر خدا کے لئے قربانی کرنا شرک ھے۔
۔ غیر خدا سے استعاذہ اور پناہ حاصل کرنا شرک ھے۔
۔ غیر خدا سے شفاعت طلب کرنا شرک ھے۔
۔ قبور کی زیارت کرنا شرک ھے۔
۔(سحر و جادو گری، خُرافہ پرستی سے بحث کرنا اور) غیر خدا کی قسم کھانا شرک ھے۔
۔ عرش وکرسی ،قضا وقدر اور تصاویر وغیرہ کے بارے میں بحث کرنا شرک ھے۔
قارئین کرام! آپ نے اچھی طرح ملاحظہ فرمایا جو مسائل وھابیوں کی طرف سے زیر بحث ھیں وہ اتنے زیادہ اور بے شمار ھیں کہ کئی جلدوں میں ان پر بحث کی جاسکتی ھے حتی ان میں سے بعض مسائل تو ایسے ھیں کہ ان پر مستقل کتابیں لکھی جاسکتی ھیں۔
چنانچہ ھم یھاں پر اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ھیں تاکہ بحث طولانی نہ ھو ، اس وجہ سے ھم فقط اھم مسائل اور ان شبھات پر تحقیق و تنقید کریں گے کہ جو وھابیوں کی طرف سےبیان ھوئے ھیں تا کہ حق وباطل روشن ھو جائے، حق کے تلاش کرنے والے اور حقیقت پسند حضرات ھدایت پا جائیں اور باطل کو اس کے مکروہ چھرے کے ساتھ پھچان لیں اور اس طرح کی بے ھودہ گفتگو کرنے سے ،منحرف وخرافات پرستوں اور ملحدوں کے ھاتھوں سے قوت چھین لی جائے۔
وھابیوں کے افکار پر تحقیق و تنقید ھم وھابیوں کے نظریات کی تحقیق و بررسی کی خاطر اور محمد ابن عبدالوھاب کے سطحی، ظاھربینانہ اور شرک آلود نظریات پر تنقیدی نظر ڈالنے کے لئے پھلے اس کے عقائد کے کلیات و اصول جیسے ”شرک، توحید اور اس کی اقسام“ اور ”عالم ھستی میں وساطت کی نفی“ اور انبیاء و اولیاء سے توسل کی حرمت و نفی“ اور مسئلہ ”شفاعت“ جس پر وھابیوں نے بڑاایڑی چوٹی کا زور لگاکربھت تاکید کی ھے، مورد بحث قرار دیں گے اور پھر وھابیوں کے اصلی منابع سے مسائل کونقل کرکے ان کی جزئیات میں جائیں گے اور اس کے اھم مسائل کی تنقید اور ردّ کریں گے۔
اگر چہ ھمارے اعتقاد کے مطابق وھابیوں کے اعتقادی اصول و کلیات کے سلسلہ میں بحث کرنے سے ان کے انحرافی عقائد کا اثبات، ھیچ اور باطل ھونا ثابت ھو جائے گا اور قرآن و اسلام کی حیات بخش نورانی تعالیم سے ان کی بیگانگی اور دوری کا بھی پتہ چل جائے گا اور ان کے دعووٴں کا جھوٹا ھونا بھی ثابت ھو جائے گا۔لہٰذا ضرورت ھی نھیں ھے کہ ھم ان کے عقائد کی جزئیات میں داخل ھوں لیکن اس شجرہٴ ملعونہ(فرقہ وھابیت) کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کے لئے ھم ان کے عقائد کے بعض جزئیات کی طرف ضرور اشارہ کریں گے۔
شبہٴ شرک جیسا کہ ھم پھلے بھی کہہ چکے ھیں کہ وھابیوں کی طرف سے جو شبھات پیش کئے گئے ھیں ان میں سے ایک مھم ترین شبہ جو سادہ اندیش لوگوں کے ذھن میں بیٹھایا جاتا ھے وہ شبہٴ شرک ھے اور دلچسپ یہ ھے کہ فرقہٴ وھابیت کلمہٴ ”شرک“ کے معنی کے لئے اپنے نزدیک اس قدر وسعت و توسیع کے قائل ھوتے ھیں کہ ذرا سے بھانہ پر فوراً ”شیعوں“ کے اکثر توحیدی عقائد پر شرک کا فتویٰ لگا دیتے ھیں اور ان حقیقی مواحدوں کو بزدلانہ طور پر مشرک کہہ کر پکارنے لگتے ھیں۔
گویا ان کے ھاتھوں میں لغات و الفاظ کے معانی ھیں جس میں ھر طرح کا تصرف اور مفاھیم کو تطبیق کرنے میں مطلق آزادی رکھتے ھیں۔ جبکہ کلمہٴ ”شرک“ شرع متشرعہ کے عرف کے لحاظ سے ایک شخص اور خاص معنی پرحمل ھوتاھے جو شیعوں (اَعْلیَ اللّٰہ کَلِمَتَھُمْ) کے عقائد میں ذرہ برابر نھیں پایا جاتا۔
لہٰذا ھم مطلب روشن ھونے کے لئے بطور اجمال ”توحید کے معنی اور اس کے مراتب “ کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ جو عقلی دلیلوں کا مدلول اور قرآنی آیات سے ماخوذ ھے ،اس کے بعد ھم ”شرک“ کے معنی اور اس کی اقسام سے بحث کریں گے اور پھر شیعوں کے عقیدہ اور طرز تفکر کو اولیاء اللہ اور مقربین درگاہ خدا سے ”توسل اور شفاعت“ طلب کرنے کے بارے میں مورد تحقیق و بررسی قرار دیں گے تا کہ ”جو لوگ اپنے گھمنڈ اور تعصب کا شکار ھوں، اور عقل کے اندھے ھوں ان کے چھرے سیاہ ھو جائیں“۔ (۲۷)
توحید اور اس کی اقسام خدا پر اعتقاد رکھنے والوں اور دینداروں کی اصطلاح میں ”توحید“ کے معنی خدا اور مبدٴا ھستی کی وحدانیت اور یکتائی پر اعتقاد رکھنا ھے جس کے چار مرتبے یا اقسام ھیں یا دوسرے الفاظ میں کھیں:کہ” جس کی بنیاد چار چیزوں پر ھے“۔ (۲۸)
۱۔ توحید ذاتی: یعنی اس بات پر اعتقاد رکھنا کہ حق تعالیٰ کے وجود اقدس کی ذاتِ حقیقت، عین ھستی اور نامحدود ھے اور کسی علت کی محتاج نھیں ھے (اسی کا نام واجب الوجود ھے) مربوط مباحث میں ادّلہ کے مطابق جو مشروحاً بیان ھوئی ھیں، وہ یہ کہ واحد، بغیر کسی کفو اور شریک کے ھے لہٰذا اس جھت سے خدا کا کوئی شریک، شبیہ اور مانند نھیں ھے کیونکہ تمام موجودات کا وجود مجبوراً و عموماً عَرَضی، محدود اور علت کا محتاج ھے (اور اسی کا نام ممکن الوجود ھے)
۲۔ توحید صفاتی: یعنی یہ اعتقادکہ خدائے وحدہ لاشریک کی ذات اقدس اپنے صفات کمالیہ (حیات، علم، قدرت اور ادراک۔۔۔۔)کے ساتھ متحد ھے نہ کہ یہ صفات کمالی اس کی ذات سے مغایرت رکھتے ھیں اور نہ ھی خود صفات کے اندر کوئی تمیز موجود ھے بلکہ ذات واحد ایسی یکتا ھے جو عینِ کمالِ مطلق، نامحدود اور بے پایان قدرت و علم و حیات کی عین ھے، لہٰذا اس جھت سے قارئین علاقہ مند اس سلسلہ میں مزید آگاھی کے لئے حضرت آیت اللہ محمد تقی مصباح دام ظلہ العالی کی عظیم الشان کتاب ”مجموعہ معارف قرآن“ بخش خداشناسی ص ۱۲۱پر رجوع کرسکتے ھیں ۔
بھی وجود اقدس حق اپنا کوئی شبیہ اور نظیر نھیں رکھتا ،کیونکہ تمام موجودات کے صفات مجبوراً اس کی ذات سے مغایرت رکھتے ھیں اور ھر صفت دوسری صفت سے متمائز ھے، نتیجہ میں تمام ممکنہ صفات ،منبع کمال ”خدا“ کی طرف عطا کئے گئے ھیں،اور خدا کے علاوہ کوئی بھی موجود، مرتبہٴ ”ذات“ میں صفت کما ل کا حامل نھیں ھے۔
۳۔ توحید افعالی: یعنی یہ اعتقاد رکھناکہ ھر موجود کی ایجاد میںھر ممکن استقلال ، خدائے وحدہ لاشریک کی ذات میں منحصر ھے اور کوئی ایک موجود بھی سوائے خدا کے جیسا کہ ”وجود“ میں مستقل نھیں ھے ایسے ھی ”ایجاد“ میں بھی مستقل نھیں ھے۔ بلکہ اثر گذاری، کارسازی اور خاصیت بخشی، کسی بھی پدیدہ اور کسی بھی مخلوق سے ظاھر ھو، اس قدرت و قوت کے درجہ کی معلول ھے کہ جس کو خدا نے چاھا ھے،اور اس مخلوق کے وجودی ڈھانچہ میں قرار دیا ھے،اور جس وقت بھی چاھے، کسی کام کی قدرت کو سلب کرنے کی طاقت اسی کو حاصل ھے۔
لہٰذا ”فاعل“ خواہ وہ فاعل مضطر و غیر ارادی ھو جیسے پانی، آگ اور خورشید وغیرہ یا فاعل مختار جیسے ”انسان“، اور خواہ انسان بھی اپنے ”عمل“ میں عین ارادہ و اختیار کے ھواس کا ارادہ و اختیار اور اس کی مشیت بھی خدا کی مشیت، اور اذن پر موقوف ھے جو ایک منٹ کے لئے بھی اپنے ”وجود و ایجاد“ میں مستقل نھیں ھے۔
اور غیر خدا کی اسی فاعلیت کے بارے میں ”استقلال و عدم استقلال“ پر اعتقاد ھی ”شرک“ اور ”توحید“ کا صحیح معیار ھے۔ یعنی غیر خدا کی مستقل فاعلیت اور اثر بخشی پر اعتقاد رکھنے کا نام شرک ھے اور ”توحید افعالی “ یعنی خداواندعالم میں فاعلیت کے استقلال کے انحصار کا نام توحید ھے۔
دوسرے الفاظ میں: ”توحید افعالی“ یعنی مخلوقات کو ”فاعل بالاذن“ ( خدا کی طرف سے اذن ) جاننا اور ”فاعلیت بالاستقلال“ میں کسی بھی موجود کو خدا کا شریک نہ جاننے پر اعتقاد رکھنا۔ اوریہ اعتقاد رکھناکہ کوئی بھی اثر اور خاصیت کسی بھی مخلوق سے وجود میں نھیں آتی ، مگر الٰھی مشیت اورمرضی کے ذریعہ۔
لہٰذا ”توحید افعالی“ تمام موجودات سے فاعلیت کی نفی اور موثر نہ ھونے کے معنی میں نھیں ھے۔ گرچہ یہ خلاف واقع اور خلاف وجدان ھے اور ھم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ھیں کہ خدا کی مخلوقات میں سے ھر مخلوق نے اپنے خالق سے جوطاقت و قدرت پائی ھے اس کی حدود میں وہ اپنی ایک خاصیت و اثر کی مالک ھے اور ھر حال میں (خواہ فاعل مضطر ھو یا فاعل مختار) مخلوق افعال سے کوئی بھی فعل ھو مرحلہٴ اظھار تک پھنچتا ھے لیکن اس اثر و فعل کے وجود میں موٴثر خدا کی ذات ھوتی ھے۔
اور اس میں کوئی شک نھیں کہ مثلاً زمین سے اُگنے والی گھاس اور نباتات ھے خوشبو اور شادابی و رنگ کی مالک بھی وھی گھاس ھے اور اسی طرح انسان و حیوان کو سیر کرنے کی خاصیت اور مریضوں کو شفا بخشنے کی تاٴثیر بھی اسی گھاس میں پائی جاتی ھے۔
جیسا کہ کھانا، پینا، پھننا، بیٹھنا، اٹھنا، فکر کرنا، باتیں کرنا، لکھنا، اور رنگ اور مرمت کرنا یھاں تک کہ مختلف چیزوںکی شکلیں بنانا وغیرہ تمام کے تمام انسان کے وجودی آثار ھیں اور انسان سے صادر افعال ھیں۔
البتہ، اس طرح کے افعال، ارادی اور اختیاری افعال ھیں جو ایک با ارادہ اور مختار فاعل سے صادر ھوتے ھیں لیکن گھاس کے مختلف آثار اضطراری افعال کی اقسام سے ھیں کہ جو ایک فاقد اختیار اور مضطر فاعل سے ظاھر ھوتے ھیں۔
خلاصہ یہ کہ تمام موجودات جنبہٴ ”فاعلیت“ اور خاصیت گذاری رکھتے ھیں لہٰذا یہ نھیں کھا جاسکتا ھے کہ ”توحید افعالی“ یعنی غیر خدا سے ”فاعلیت“ کی نفی اور سلب اثر کا نام ھے،بلکہ ”توحید افعالی“ کے صحیح معنی یہ ھیں کہ خدا کے علاوہ تمام موجودات سے تاثیر گذاری کے” استقلال“ کی نفی کرنا، جو کسی بھی طرح سے ”تاٴثیر بالاذن“ کے اثبات کے ساتھ اور ان کے بارے میں ”فاعلیت بالتخیر“ کے ساتھ کوئی منافات نھیں رکھتا ھے۔
اور ھم جو یہ کہتے ھیں کہ شرک یعنی خدا کے کاموں میں کسی غیر خدا کو شریک کرنا، درست ھے لیکن توجہ رکھنا چاھیئے کہ خدا کے کاموں سے مراد آیا وھی ”استقلال درتاٴثیر“ ھے جو خدا سے مخصوص ھے اور کوئی بھی چیز اس جھت میں، خدا کی شریک نھیں ھے؟!
وگرنہ ھر ایک مخلوق کہ جس کو اس کے خالق کی طرف سے جس قدر قدرت عطا کی جاتی ھے وہ اسی مقدار میں کارگر اور موثر ھوتی ھے ، جب کبھی بھی وہ مخلوق اپنے خالق کی طرف سے کسی کام کو انجام اور ایجاد پر ماٴذون ھو گی یعنی جب بھی خدا اس کو اثر بخشی کی طاقت تکویناً عنایت کردے گا تو طبیعی چیز ھے کہ اسی وقت وہ اثر کی ایجاد و فعالیّت پر قادر ھو جائے گی،یھاں تک کہ (مخلوقات میں سے انسان) خلق کرنے، مارنے اور زندہ کرنے پر بھی قادر ھوگا، مریض کو شفا دے گا اور مادر زاد اندھے کو بینائی عطا کرے گا جیسا کہ قرآن حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ھے:
”اذقال اللّٰہ ُ یا عیسیٰ بن مریم اٴذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلیکَ و علیٰ والِدَتِکٴَ اِذْاٴیَّدْتُکٴَ بِرُوحِ القُدُسْ ۔۔۔ وَاِذْتَخْلُقُ مِنَ الطِّیْن کَھَیْئةِ الطّیْرِبِاذْنِیْ فَتَنْفُخُ فیِھا فَتکوُنُ طیراً بِاِذْنِیْ و تُبْرئ ُ الْاَکْمَہَ والٴابْرصَ بِاذْنِی و اِذْ تُخْرِجُ الْمَوتیٰ باِذْنی ۔(۲۹)
”اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے کھا: اے عیسیٰ بن مریم ! ھماری نعمتوں کو یاد کرو جو ھم نے تم پر اور تمھاری مادر گرامی پر نازل کی ھیں اور روح القدس کے ذریعہ تمھاری تائید کی ھے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب تم ھماری اجازت سے مٹی سے پرندہ کی شکل بناتے تھے اور اس میں پھونک دیتے تھے تو وہ ھمارے اذن سے پرندہ بن جاتا تھا اور تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو ھمارے اذن سے صحت یاب کر دیتے تھے اور ھماری اجازت سے (قبر سے نکال کر ) مردوں کو زندہ کرلیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔“
اس آیت میں مکمل وضاحت کے ساتھ، مٹی سے پرندوں کی شکل بنانے اور اس میں پھونک کر زندہ کرنے، مریضوں کو شفا بخشنے، مادرزاد اندھوں اور کوڑھیوں کو صحت یاب کرنے اور قبر میں سوئے ھوئے مردوں کو زندہ کرنے کی نسبت خدا کے اذن کے ساتھ جناب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی طرف دی گئی ھے،روشن ھے کہ ان کو خدا کے کاموں میں شریک ھونا نھیں کھتے ھیں بلکہ خدا کے اذن سے کام کرنا کھتے ھیں، اس لئے کہ جو کام خدائی اور خدا سے مخصوص ھے وہ ”تاٴثیر اور ایجاد میں استقلال“ ھے نہ کہ ”مطلق ایجاد“، جیسا کہ تمام موجودات، موجود ھونے کے ساتھ ساتھ ”وجود“ میں خدا کے شریک نھیں ھوتے ھیں بلکہ خدا کے ”اذن“ سے ”صاحب وجود “ ھوتے ھیں اور جو چیز خدا سے مخصوص ھے وہ وجود کا ”ذاتی“ ھونا ھے اور ”ھستی“ میں ”استقلال“ ھونا ،لیکن صرف موجود ھونا اور ھستی رکھنا خدا سے مخصوص نھیں ھے۔
پس جیسا کہ تمام موجودات ”وجود“ میں خدا کے شریک نھیں ھیں تو ”ایجاد“ میں بھی خدا کے شریک نھیں ھیں بلکہ ان کا وجود بھی ”بالاذن“ ھے اور ان کی ”ایجاد“ بھی ”بالاذن“ ھے۔
جیسا کہ ھم آیہٴ کریمہ میں دیکھ رھے ھیں کہ کلمہٴ ”بِاذْنِی“ کئی مرتبہ تکرار ھواھے آیت میں ”خلق طیر“اور مردوں کو زندہ کرنے ،مریضوں کو شفا اور مادرزاد اندھوں کو بینائی بخشنے“ جیسے امور کے اثبات کے ساتھ ساتھ استقلال واصالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عمل میں نفی کی ھے اور تنھا خدا کو فاعل مستقل اور موٴثر بالاصالة قرار دیا ھے،یہ مطلب ایک دوسری آیت میں بھی موجود ھے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے فرماتا ھے :
’’۔۔۔أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۔۔‘‘(۳۰)
”وہ رسول (عیسیٰ(ع)) بنی اسرائیل سے کھے گا کہ میں تمھارے لئے خدا کی طرف سے نشانی لیکر آیا ھوں کہ میں تمھارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناوٴں گا اور اس پر کچھ دم کروں گا تو وہ حکم خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں مادرزاد اندھے اور مبروص کا علاج کروں گا اور حکم خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا۔۔۔۔۔“
۴۔ توحید عبادی: یعنی یکتا پرستی اس اعتقاد کے ساتھ کہ سوائے خدا کے کوئی بھی دوسرا موجود عبادت و پرستش کی صلاحیت اور شائستگی نھیں رکھتا ھے۔“ (۳۱)
عبادت: یعنی کسی کے سامنے تواضع، چھوٹا اور خوار ھوکر پیش ھونا اس طرح کہ کسی موجود کو تمام نقائص سے مبرّا اور ھر جھت سے کامل ِمطلق کی حیثیت سے پھچانتا ھو اور خود کو اس کی بارگاہ میں نھایت درجہ ذلیل و خوار سمجھتا ھو۔
اور یہ اعتقاد، طبیعی ھے جو پھلے تین اعتقاد (توحید ذاتی ، توحید صفاتی ، توحید افعالی )کے بعدخودبخود انسان کے دل میں پیدا ھوتا ھے، کیونکہ جس وقت بھی انسان اس بات پر معتقد ھو جائےکہ وجود اصیل، کمال مطلق اور ھر بلا کو دفع اور ھر طرح کی نعمت عطا کرنے اور تدبیر و ایجاد میں استقلال مبدٴا ھستی کی ذاتِ واحد میں منحصر ھے تو وہ طبیعی طور پر اس بات پر بھی معتقد ھو جائے گا کہ پس انسان کو جس ذات سے تنھا ڈرنا چاھیئے، جس ذات کی رضایت حاصل کرنا چاھیئے، جس ذات کے سامنے تسلیم کامل، سجدہ ریزاور سرجھکانا چاھیئے، جس ذات کو سب کچھ سمجھنا چاھیئے اور جس ذات کے سامنے اپنے کو ھیچ سمجھنا چاھیئے وہ ذات، وحدہ لاشریک کی ذات ھے اور دوسروں کی رضایت حاصل اور ان کی تعظیم و تواضع کرنا بھی اسی ذات کے حکم اور اس کی اجازت سے ھونا چاھیئے کہ در حقیقت کلمہٴ ”لاالہ الااللّٰہ“ کے معنی یھی ھیں۔
دوسرے لفظوں میں کھا جاسکتا ھے تین قلبی مراتب یعنی : توحید ”ذاتی، صفاتی اور افعالی“ جو توحید ”نظری“ (یعنی ”شناخت، اندیشہ اور بینش“ کا پھلو رکھتی ھے) کی اقسام سے ھیں لیکن چوتھا مرحلہ یعنی: توحید عبادی، توحید عملی (یعنی عمل کی قسم ) سے ھے۔
یہ تھا ”توحید اور اس کی اقسام “ کا خلاصہ ، البتہ اس مطلب کے پیش نظر ”شرک“ کے معنی بھی جو ”توحید“ کے نقطہٴ مقابل ھیں، چاروں مرحلوں میں سے ھر ایک میں اجمالی طور پر حاصل ھوگئے ھیں۔“ (۳۲)یعنی مقام ”ذات“ ، مرتبہٴ ”صفات“ ، مرحلہٴ ”افعال“ اور مورد ”عبادت“ میں ایک حد تک شرک کے معنی معلوم ھوگئے ھیں۔
لیکن چونکہ اس مطلب پرمخالف کی طرف سے وسیع پیمانے پر اعتراض ھوئے ھیں، اس (۳۳)”وہ خدا کے عزیز اور محبوب بندے ھیں یہ لوگ اس کے سامنے بڑھ کر نھیں بول سکتے، اور اس کے فرمان کے مطابق عمل کرتے ھیں “
لہٰذا خدا کے ان مقرب بندوں کا ادب واحترام کرنا ان کی عبادت نہ ھوگی، اور ان کا یہ احترام ایک طرح سے خدا کا احترام ھوگا کیونکہ ان کا احترام خداکی وجہ سے ھے ۔
قارئین کرام !وھابیوں نے اس مقام پر بھی لغزش کی ھے اورخدا کے نیک اور صالح بندوں کے احترام اور ان کی یاد کو باقی رکھنے کو ”عبادت میںشرک“ جانا ھے، جبکہ یہ لوگ خود پیامبر اکرم(ص) کا احترام کرتے ھیں نیز ھمیشہ اپنے فکری رھبروں کی مدح وثنا کرتے رھتے ھیں ۔
اس لئے ضروری ھے کہ ھم بھی اس مطلب کو مکمل وضاحت کے ساتھ تحقیق و تنقید کریں، لہٰذا شک و شبھات کو دور کرنے کے لئے خداوند کریم سے مدد طلب کرتے ھیں ”اِنّہُ خیر ناصرٍ و خَیْرُ مُعِیْنٍ۔“ (۳۴)(وہ بھترین ناصر و معین ھے۔)
حوالہ جات:
۱۔ اس بحث کے اکثر مطالب او رمحمد ابن عبد الوھاب کے نظریات درج ذیل کتابوں میں موجود ھیں جو شیعوں کی رد میں لکھی گئی ھے :”التوحید الذی ھو الحق العبید “ ”کشف الشبھات“ اور ”الرد علی الرافضة“
۲۔ الشیخ الامام محمد ابن عبد الوھاب ، دیوان النھضة ،توسط ادویینس وخالد سعید ، دار العلمالملاتین ، بیروت ص۸۔
۳۔ الشیخ الامام محمد ابن عبد الوھاب ، دیوان النھضة ،توسط ادویینس وخالد سعید ، دار العلم الملاتین ، بیروت ص۶۱۔
۴۔ الشیخ الامام محمد ابن عبد الوھاب ص ۶۰۔
۵۔ الشیخ الامام محمد ابن عبد الوھاب ص۶۲۔
۶۔ الشیخ الامام محمد ابن عبد الوھاب ص ۶۴۔
۷۔ الشیخ الامام محمد ابن عبد الوھاب ص ۶۸۔
۸۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص ۶چاپ ریاض۔
۹۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص ۱۴، طبع ریاض۔
۱۰۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص ۲۰، طبع ریاض۔
۱۱۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص ۲۶، طبع ریاض۔
۱۲۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص ۲۷، طبع ریاض۔
۱۳۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص ۲۸، چاپ ریاض۔
۱۴۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص ۳۱، طبع ریاض۔
۱۵۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص ۳۲، طبع ریاض۔
۱۶۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص ۳۴، طبع ریاض۔
۱۷۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص۴۳ ، طبع ریاض۔
۱۸۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص۴۶ ، چاپ ریاض۔
۱۹۔ رسالة فی الردّ علی الرافضة ، موٴلف شیخ محمد ابن عبد الوھاب ص۴۷ ، طبع ریاض۔
۲۰۔ یہ بحث آقای مھدی حسین روحانی کی کتاب ”بحوث مع اھل السنة والسلفیہ“ کے شروع میں موجود ھے۔
۲۱۔ فتح المجید ، موٴلف شیخ عبد الرحمن آل شیخ ص۱۵۱، طبع بیروت۔
۲۲۔ فتح المجید ، موٴلف شیخ عبد الرحمن آل شیخ ص ۱۷۷ طبع بیروت۔
۲۳۔ فتح المجید ، موٴلف شیخ عبد الرحمن آل شیخ ص ۲۴۰، طبع بیروت۔
۲۴۔ فتح المجید ، موٴلف شیخ عبد الرحمن آل شیخ ص ۲۳۸ طبع بیروت۔
۲۵۔ فتح المجید ، موٴلف شیخ عبد الرحمن آل شیخ ص ۱۷۶ طبع بیروت۔
۲۶۔ فتح المجید ، موٴلف شیخ عبد الرحمن آل شیخ ص۱۷۷، طبع بیروت۔
۲۷۔ توسل ازدیدگاہ عقل،قرآن و حدیث ، تالیف سید محمد ضیا آبادی واحد تحقیقات اسلامی ص ۷۳۔
۲۸۔ فلسفی اورکلامی علماء نے توحید کے جو گذشتہ مراحل یا اقسام بیان کئے ھیں ، اسلامی علماء عرفان کے نظریات سے بالکل جدا ھیں لیکن اس بحث میں داخل ھونے کا موقع نھیں ھے۔
۲۹۔ سورہ مائدہ،آیت ۱۱۰۔
۳۰۔ سورہ آل عمران آیت ۴۹۔
۳۱۔ قارئین کرام کے مزید فائدے اور علم وبصیرت میں اضافہ کے لئے ”توحید درعبادت“ کے سلسلے میں استاد مرحوم شیھد مطھری (رہ) کے ایک اھم بیان کو یھاں پر نقل کرتے ھیں :
”توحید عملی یا توحید درعبادت یعنی ”یکتا پرستی “ یا دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے ”وحدہ لاشریک کی عبادت میں غرق ھونا“البتہ یہ بات واضح اورروشن ھے کہ اسلام میں عبادت کے مختلف درجات ھیں جن میں سب سے واضح درجہ یہ ھے کہ انسان خدا کی تنزیہ وتقدیس بجالائے کہ اگر یھی عمل کسی غیر خدا کے لئے انجام دیا جائے تو انسان دائرہ اسلام سے بالکل خارج ھوجائے گا۔
لیکن اسلامی نقطہٴ نظر سے عبادت صرف اسی مذکورہ قسم میں محدود نھیں ھے بلکہ ھر طرح کی ”جھت کو اخذکرنا، کمال مطلوب قرار دینا، کسی کو معنوی قبلہ قرار دینا بھی عبادت ھے “ مثلاً کوئی شخص اپنی ”نفسانی ھوا وھوس“ کو ”آئیڈیل“ (Ideal)(کمال مطلوب) اور اپنے لئے معنوی قبلہ قرار دے توگویا اس شخص نے اپنے نفس کی عبادت کی : ”افرائت من اتخذ الھہ ھواہ“ کیا تم نے اس شخص کو نھیں دیکھا جو اپنی نفسانی ھوا وھوس کو اپنا خدا اوراپنا معبود قرار دیتا ھے ؟
اسی طرح جو شخص کسی ایسے شخص کی اطاعت اور اس کے سامنے سرِتسلیم خم کرے جس کی اطاعت کے لئے خدا نے حکم نھیں دیا ھے ، گویا اس نے اس کی عبادت کی ھے :”واتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللّٰہ“ بے شک کچھ لوگوں نے اپنے دینی علماء اورزاھد حضرات کو خدائے حقیقی کے بجائے ،خدابنالیا ھے: ”ولایتخذ بعضنا بعضاً اربابا من دون اللّٰہ“ ھم انسانوں میں سے بعض لوگوں نے دوسرے بعض لوگوں کو اپنا خدا اورحاکم بنالیا ھے ۔
لہٰذا توحید عملی یا توحید در عبادت یعنی فقط خدا ھی کو اپنا مطاع(جس کی اطاعت کی جائے) اور قبلہ روح، نیز جہھت ِحرکت اور کمال مطلوب قرار دینا اور دوسرے کسی مطاع ، قبلہ اور ”آئیڈیل“ کو دل میں جگہ نہ دینا ، یعنی فقط خدا کے لئے جُھکنا، خدا کے لئے قیام کرنا، خدا کے لئے خدمت کرنا، خدا کے لئے جینا اور اسی کے لئے مرنا، جیسا کہ حضرت ابراھیم(ع) فرماتے ھیں : (سورہ ٴ انعام آیت ۷۹،۱۶۲،۱۶۳)
”میں نے تو باطل سے کتراکر اس کی طرف منھ کرلیا ھے جس نے بھتیرے آسمان وزمین پیدا کئے اورمیں مشرکین میں سے نھیں ھوں،بے شک میری نماز ، میری عبادت ، میری زندگی اور میری موت (سب کچھ )خدا کے لئے ھے اس کا کوئی شریک نھیں اورمجھے اسی چیزکا حکم دیا گیا ھے اورمیں خدا پر ایمان رکھتا ھوں“
اس کے بعد استاد مطھر ی(رہ) فرماتے ھیں :
یہ توحید ابراھیمی ان کی توحید عملی ھے ۔(بہ نقل از کتاب جھان بینی توحیدی ص ۵۹)
پس جیسا کہ مرحوم استاد مطھری (رہ) کے بیانات سے واضح ھوتا ھے کہ ”توحید درعبادت“ یعنی فقط اور فقط خدا کی عبادت اورصرف اسی کی اطاعت کرتے ھیں یعنی یکتا پرستی یعنی ربّ واحد اورخداء واحد کی عبادت اس طرح کہ اسی کو تمام مخلوقات کا خالق جانیں ۔
محبان علم ومعرفت کی مزید آگاھی کے لئے عرض کرتے ھیں کہ: علماء اسلام (خصوصا ً علم کلام یعنی اعتقادی مسائل کے محقق اوروہ حضرات کہ جنھوں نے اصول دین اور اعتقادات سے دفاع کی ذمہ داری قبول کی ھے اور اعتقادی مسائل کی تحقیق اور دفاع میں مشغول ھیں) ان علماء کرام نے توحید کے سلسلہ میں ایک کلاسک (Classique)تقسیم بندی کی ھے ، جیسا کہ ھم نے اسی کتاب میں بیان کیا ھے اور وہ توحید کہ جس کے چار مرحلے یا چار درجے ھیں :
۱۔توحید ذاتی ،۲۔ توحید صفاتی، ۳۔ توحید فعلی(افعالی)، ۴۔توحید عبادی (توحید عبادت)۔
لیکن ھم نے مرحو م استاد مطھری(رہ) کی کتاب ”آثار صفاتی“ (البتہ اسی سے ملتا جلتا مطلب شھید بھشتی (رہ) کی کتاب ”خدا ازدیدگاہ قرآن“ میں بھی موجود ھے) میں ایک نئی تقسیم بندی دیکھی ھے کہ جو واقعاً ایک نئی اور بھترین دکھائی دیتی ھے ، اور وہ تقسیم توحید نظری کے لحاظ سے ھے (کہ جو پھلی تین قسموں یا تین مرحلوں کو شامل ھے) اور توحید عملی کہ جو ایک قسم کا عمل اور سلوک ھے اور معمولاً ایسا لگتا ھے کہ توحید درعبادت صرف عملی پھلو رکھتا ھے اور اعتقادی پھلو اس میں نھیں ھے ، جبکہ یہ وھم نادرست ھے اور غیر دقیق اور خلاف واقع نتیجہ گیری ھے ، ”توحید در عبادت“ اگرچہ عمل کی ایک قسم ھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اعتقادی پھلو بھی ھے ، استاد شھید مطھری کے اس بیان کی طرف توجہ فرمائیں تاکہ آپ حضرات پر مطلب واضح ھوجائے ،چنانچہ موصوف فرماتے ھیں:
”توحید در عبادت“(عبادت میں توحید) ایک ایسا موضوع ھے جو ایک لحاظ سے خدا سے مربوط ھے اور ایک لحاظ سے انسان سے ، خدا سے مربوط ھونے کے معنی یہ ھیں کہ خدا کے علاوہ کوئی دوسراعبادت کی لیاقت نھیں رکھتا،چاھے ملک مقرب ھو یا نبی مرسل یا ولی خداکوئی بھی ھو، اس عالم ھستی میں صرف خدا کی ذات ھے جو پرستش اور عبادت کی شائستگی رکھتی ھے (یہ وھی ”توحید در عبادت“ کا اعتقادی پھلو ھے، جس کو استاد مطھری نے بیان کیا ھے) اور اس لحاظ سے خدا سے مربوط ھے ، لیکن دوسرا لحاظ جو انسان سے مربوط ھے وہ یہ ھے کہ انسان کا وظیفہ ھے کہ خدا وندعالم کی ذات مقدس کے علاوہ کسی کو معبود اور الہٰی قرار نہ دے،(یہ بھی ”توحید درعبادت“ کا عملی اور کرداری پھلوھے)۔
اس بناپر توحید نظری کے معنی ”کیسے جاننا“ اور” کیسے فکر کرنا“ھے اور یہ اعتقادی مسئلہ ھے لیکن توحید در عبادت (اعتقادی اورنظری پھلو کے پیش نظر کہ جو اس کی بنیاد ھے) ”بودن“(ھونا)یعنی ”موحد ھونا“ یعنی انسان کی زندگی کا طور طریقہ اوران کے اعمال وکردار ، اور یہ مرحلہ ایسا نھیں کہ صرف اعتقادی اور نظری پھلو نہ رکھتا ھو بلکہ یہ ایک ”دوپھلو والااعتقاد“ ھے ،نظری پھلو (یعنی صرف اور صرف خدا عبادت کا مستحق ھے) اور عملی پھلو یعنی صرف خدا کے فرمان اورحکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کریں، اور فقط وفقط اس کی عبادت کی جائے، توحید عبادی اس طرح ھے کہ جس میں ”نظر وعمل“ دونوں میں موجود ھیں کہ جن کا ایک دوسرے سے جدا ھونا مشکل ھے، قارئین کرام استاد مطھری (رہ) کی کتاب ”خدا درزندگی انسان“ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
۳۲۔ ایک بار پھر عرض کرتے ھیں کہ ”عبادت میں شرک“ سے مراد کسی کو خدا، ربّ اور خالق مانتے ھوئے اس کے سامنے خضوع وخشوع اور سرتسلیم خم کرنا ھے، جیسا کہ ھمارے عظیم الشان علماء کرام نے شرک کی اس تعریف کو قبو ل کیا ھے مثلاً حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنی کتاب ”کشف الاسرار“میں اورمرحوم آیت اللہ شیخ جواد بلاغی (رہ) نے اپنی عظیم (ناتمام) تفسیر ”الآء الرحمن“ میں شرک کے یھی معنی کئے ھیں ، لہٰذا اگر کوئی انسان کسی نیک اور کریم افراد کے سامنے خضوع اورخشوع سے پیش آئے درحالیکہ ان کو خدا، ربّ، خالق اور الٰہ تصور نہ کرے، یعنی ان کی خدائی کا اعتقاد نہ رکھے بلکہ ان کا احترام اس وجہ سے کرے.
۳۳۔ سورہ انبیاء آیت ۲۷ ۔
۳۴۔ کتاب توسل، سید محمد ضیاآبادی ص ۷۴۔
وھابیوں کے اعتقادی اصولوں پرتحقیق و تنقید
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیوں کے عقائد
- بازدید: 2322
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
12
Online