شیخ عبد الرحمن آل شیخ کھتا ھے کہ احادیث پیغمبر اکرم (ص) میں ھر اس شخص کے لئے لعنت کی گئی ھے جو قبروں پر چراغ چلائے یا قبروں پر کوئی چیز لکھے یا ان کے اوپر کوئی عمارت بنائے۔ (۱)
حافظ وھبہ صاحب کھتے ھیں کہ قبروں کے بارے میں چار چیزوں پر توجہ کرنا ضروری ھے:
۱۔قبروں پر عمارت وغیر ہ بنانا۔
۲۔وہ اعمال جو بعض لوگ قبروں پر انجام دیتے ہیں مثلاً دعا کرنا نماز پڑھنا وغیرہ۔
۳۔قبروں پر گنبد اور ان کے نزدیک مساجد بنانا۔
۴۔زیارتوں کے لئے سفر کرنا۔
قبروں کی زیارت، ان سے عبرت حاصل کرنا یا میت کے لئے دعا کرنا اور ان کے ذریعہ سے آخرت کی یاد کرنا، اگر سنت پیغمبر اکرم (ص) کے مطابق ھو تو مستحب ہے، لیکن قبور کے لئے سجدہ کرنا یا ان کے لئے ذبح کرنا یا ان سے استغاثہ کرنا شرک ھے، اسی طرح ان پر اور وھاں موجود عمارت پر رنگ وروغن کرنا یہ تمام چیزیں بدعت ہیں جن سے نھی کی گئی ھے، اسی وجہ سے وھابیوں نے مکہ اور مدینہ میں موجود قبروں کی عمارتوں کو مسمار کردیا ھے، جیسا کہ ایک صدی پھلے (حافظ وھبہ کی کتاب لکھنے سے ایک صدی قبل جو تقریباً ۱۴۰/سال پھلے کا واقعہ ھے) مکہ اور مدینہ کی قبروں پر موجود تمام گنبدوں کو مسمار کردیا گیا، اسی طرح کھتے ھیں کہ قبروں کی زیارت کے لئے سفر کرنا بھی بدعت ھے۔(۲)
اسی طرح قبروں کے پاس اعتکاف کرنا شرک کے اسباب میں سے ھے بلکہ خود یہ کا شرک ھے، (۳) سب سے پھلے رافضی لوگ شرک اور قبور کی عبادت کے باعث ھوئے ہیں، اور یھی وہ لوگ ہیں جنھوں نے سب سے پھلے قبروں کے اوپر مسجدیں بنانا شروع کی ھیں۔(۴)
وھابیوں کے نزدیک نہ یہ کہ صرف قبور کی زیارتوں کے لئے سفر کرنا حرام ھے بلکہ یہ لوگ تو صاحب قبر کے لئے فاتحہ پڑھنے کو بھی حرام جانتے ھیں، (جب انھوں نے حجاز کو فتح کرلیا ۔جس کی شرح بعد میں بیان ھوگی) توجس کسی شخص کو قبروں پر فاتحہ پڑھتے دیکھتے تھے اس کو تازیانے لگاتے تھے، ۱۳۴۴ھجری میں جس وقت حجاز پرتازہ تازہ غلبہ ھوا تھا تو اس وقت سید احمد شریف سنوسی کو (جوکہ مشھورومعروف اسلامی شخصیت تھیں) حجاز سے باھر کردیا کیونکہ ان کو مکہ معظمہ میں جناب خدیجہ کی قبر پر فاتحہ پڑھتے دیکھ لیا تھا۔ (۵)
اسی طرح وھابی حضرات ایک روایت کے مطابق قبروں کے چراغ اور شمع جلانے کو بھی جائز نھیں جانتے، اسی وجہ سے جس وقت سے انھوں نے مدینہ منورہ پر غلبہ پایا اس وقت سے روضہ نبوی (ص)پر چراغ جلانے کو منع کردیا۔ (۶)
شیخ محمد بن عبد الوھاب کھتا ھے کہ جو شخص کسی غیر خدا سے مدد طلب کرے یا کسی غیر خدا کے لئے قربانی کرے یا اس طرح کے دوسرے کام انجام دے تو ایسا شخص کافر ھے۔(۷)
اسی طرح قبروں پر چراغ جلانا وھاں پر نماز پڑھنا یا قربانی کرنا وغیرہ جیسے مسائل کو زمان جاھلیت کے مسائل میں شمار کیا ھے۔ (۸)
شیخ عبد الرحمن آل شیخ (شیخ محمد بن عبد الوھاب کا پوتا)کھتا ھے کہ مشرک لوگ جو نام بھی اپنےشرک کے اوپر رکھیں ،پھر بھی شرک ھے، مثلاً مُردوں کا پکارنا، یا ان کی محبت اور تعظیم کے لئے قربانی کرنا یا نذر کرنا ،یا وہ نذر جو قبروں کے مجاروں اور خادموں کے لئے کی جاتی ھے یہ کام بھی ھندوستان کے بت خانوں کی طرح ھے، اسی طرح قبروں کے لئے شمع کی نذر یا چراغ کے تیل کی نذر کرنا بھی باطل ھے مثلاً خلیل الرحمن ،دیگر انبیاء اوراولیاء اللہ کی قبروں کے لئے شمع اور چراغ کی نذر کرنے کے باطل ھونے میں کوئی شک وشبہ نھیں ، اور اس طرح کی شمع کو جلانا حرام ہے چاھے کوئی ان کی روشنائی سے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے، (۹)
رافضیوں نے ھی قبور کی عبادت اور شرک کی ابتداء کی ہے اور قبروں پر مسجد کے بانی بھی یھی ھیں، ان کے بارے میں وضاحت
افسوس کی بات تو یہ ھے کہ عقائد یا سلیقوں اور احادیث کے سمجھنے میں اختلاف کبھی کبھی ایک دوسرے فرقے سے دشمنی اور تعصب کا سبب بن جاتا ھے اور اس صورت میں اگرچہ مخالف کی دلیل کتنی ہی منطقی کیوں نہ ھو ، اس کو قبول نھیں کیا جاتا، اور جو کچھ بھی وہ کھے اس کو غلط تصور کیا جاتا ھے، جس وقت سے شیعہ مذھب بعض وجوھات کی بناپر بھت سے اسلامی فرقوں کی نظر میں مورد عتراض قرار پایا ھے، شیعوں کے معمولی سے کام کو بھی الٹا بناکر پیش کیا گیا ھے ، اور اس کے علاوہ مختلف تھمتیں لگانے میں بھی کوئی کمی نھیں کی گئی ۔
منجملہ زیارت کا مسئلہ جس پر ابن تیمیہ اور وھابیوں نے نامعلوم کتنے اعتراضات کر ڈالے ، جبکہ قبور کی زیارت مختلف اسلامی فرقے انجام دیتے آئے ہیں اور انجام دے رھے ہیں، اور مذاھب اربعہ کے بزرگوں کی بھت سی قبروں کا دوسری صدی کے بعد سے عام وخاص کی طرف سے احترام کیا جارھاہے اور ان کی زیارت ھوتی آئی ھے۔
یھاں تک کہ آج بھی مسجد النبی (ص) میں آنحضرت کے روضہ مطھر اور ضریح کے سامنے بھت سے لوگ پیغمبر اکرم (ص) اور ابوبکر وعمر کی زیارت پڑھتے ہیں اور ان زیارتوں کے وھی جملے ہیں جن کو شیعہ بھی آنحضرت (ص) اور ائمہ کی ضریحوں کے پاس پڑھتے ھیں، عجیب بات ھے کہ یھی کام اگر دوسرے اسلامی فرقے انجام دیں تو ان پر اعتراض نھیں ھوتا لیکن اگر یھی کام شیعہ انجام دیں تو کیونکہ شیعہ ھیں اس وجہ سے زیارت کو عبادت کہہ دیا جاتا ھے، اور اس زیارت کا کرنے والا مشرک کھلاتا ھے، نھیں معلوم کہ شیعہ زیارتوں میں کیا کھتے ہیں جو دوسرے نھیں کھتے، یا کیا نھیں کھتے جو دوسرے کھتے ہیں۔ (۱۰)
اب رھی بات یہ کہ شیعہ حضرات نے ھی قبروں کی عبادت اور شرک کی بنیاد ڈالی ھے، اور قبروں پر مساجد بنانا شروع کی ھیں، جیسا کہ یہ بات شیخ عبد الرحمن جو محمد بن عبد الوھاب کے پوتے ہیں ان سے نقل ھوئی ھے، موصوف فتح المجید کے حاشیے میں اس طرح کھتے ھیں کہ عبیدیوں (جو خود کو جھوٹ موٹ فاطمی کھتے ھیں) نے ھی سب سے پھلے قبروں کے پاس مسجدیں بنانا شروع کی ، جیسا کہ قاھرہ شھر میں امام حسین کے لئے ایک عظیم گنبد ، عمارت اور اس کے برابر میں ایک عظیم الشان مسجد بنائی۔
مذکورہ مطلب کے بارے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ قبور کی زیارت ، اسی طرح قبروں پر عمارت یا گنبد بنانا ، یہ کام شیعوں سے مخصوص نھیں ھے بلکہ شروع ھی سے اسلامی فرقے اپنی بزرگوں کی قبروں پر بھترین عمارتیں بنایا کرتے تھے اور ان کے لئے بھت سی چیزیں وقف بھی کیا کرتے تھے اور ان کی زیارت کے لئے بھی جایا کرتے تھے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری وساری ھے۔
بغداد میں ابوحنیفہ کی قبر پر ایک قدیمی لمبا اور سفید گنبد اب بھی موجود ھے، جس کی ابن جُبیر نے توصیف بھی کی ھے، (۱۱)اور آج بھی ابو حنیفہ کی قبر کی گنبدبھت خوبصورت ھے جس کی دور اور نزدیک سے ھزاروں لوگ زیارت کے لئے جاتے ھیں، اسی طرح احمد ابن حنبل کی قبر (۱۲)اوربغداد میں شیخ عبد القادر جیلانی کی قبر ، اسی طرح مصر کے قرافہ شھر میں امام شافعی کی قبر اسی طرح مذاھب اربعہ کے بزرگوں کی بھت سی قبریں مختلف اسلامی ملکوں میں زیارت گاھیں بنی ھوئی ھیں۔
نجد اور حجاز میں وھابیوں کے غلبہ سے پھلے بھی بھت سی گنبدیں اور عمارتیں موجود تھیں جن کی زیارت کے لئے لوگ جایا کرتے تھے اور ان کے اوپر بھت زیادہ عقیدہ رکھتے تھے۔ لھٰذا یہ دعویٰ کرنا کہ قبروں کی زیارت کی ابتداء کرنے والے شیعہ ھیں باطل اور بے بنیاد ھے۔
اسی طرح قبروں پر اور ان کے اطراف میں عمارتیں بنانا بھی شیعوں سے مخصوص نھیں ہے، بلکہ شروع ھی سے یہ کام مختلف اسلامی فرقوں سے چلا آرھا ھے، اور قبروں پر عمارتوں کا رواج تھا:
ابن خلکان کھتا ھے: ۴۵۹ھجری میں شرف الملک ابو سعد خوارزمی ،ملک شاہ سلجوقی کا مستوفی (حساب دار) نے ابو حنیفہ کی قبر پر ایک گنبد بنوایا ، اور اس کے برابر میں حنفیوں کے لئے ایک مدرسہ بھی بنوایا ، ظاھراً ابو سعد نے مذکورہ عمارت ”آلُپ ارسلان سلجوقی“ کی طرف سے یہ کام انجام دیا ھے۔ (۱۳)
اسی طرح ”ابن عبد البِرّ“ (متوفی ۴۶۳ھ)کی تحریر کے مطابق ، جناب ابو ایوب انصاری کی قبر قسطنطیہ (اسلامبول) کے دیوار کے باھر معلوم ھے اور لوگوں کی مورد تعظیم ھے اور جب بارش نھیں ھوتی تو ان سے متوسل ھوتے ہیں۔(۱۴)
ابن الجوزی ۳۸۹ھجری کے واقعات کو قلمبند کرتے ھوئے کھتا ھے کہ اھل سنت مُصعب بن الزبیر کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ھیں جس طرح شیعہ حضرات امام حسین(ع)کی قبر کی زیارت کے لئے جاتے ھیں۔ (۱۵)
ابن جُبیر، چھٹی صدی کا مشھور ومعروف سیاح اس طرح کھتا ھے کہ مالکی فرقہ کے امام، امام مالک کی قبر قبرستان بقیع میں ھے ، جس کی مختصر سی عمارت اور چھوٹی گنبد ھے اور اس کے سامنے جناب ابراھیم فرزند حضرت رسول خدا (ص) کی قبر ھے جس پر سفید رنگ کی گنبد ھے۔ (۱۶)
مذاھب اربعہ کے بزروگوں کی قبروں پر گنبدھونا اور ان پر عمارتیں بنانا اور ان کے لئے نذر کرنا اور وھاں پر اعتکاف کرنا اور ان سے توسل کرنا اور صاحب قبر کی تعظیم وتکریم کرنا اور وھاں دعا کے قبول ھونے کا اعتقاد رکھنا بھت سی تاریخی کتابوں میں موجود ھے اور اس وقت بھی قاھرہ، دمشق اور بغداد اور دوسرے اسلامی علاقوں میں ان کے بھت سے نمونے اور قبروں پر پروگرام ھوتے ھوئے آج بھی دیکھا جاسکتا ھے۔
لیکن یہ کھنا کہ شیعوں نے سب سے پھلے قبروں پرمسجدیں بنائی ھیں ، یعنی قبروں کو مسجد قرار دیا ھے تو اس سلسلہ میں چند چیزوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے:
۱۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق قبرستان میں نماز پڑھنا مکروہ ھے لھٰذا مقبروں کو مسجد کے حکم میں جاننا ان کے عقیدوں کے مطابق نھیں ھے، (جبکہ ھم نے ابن تیمیہ کھتے ہیں کہ امام مالک مقبروں میں نماز کو جائز جانتے تھے اور ابوحنیفہ اور دوسرے لوگ قبرستان میں نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے تھے)۔
۲۔ شیعہ حضرات جو مسجدیں قبروں کے پاس بناتے ھیں وہ مقبروں سے کچھ فاصلہ پر اور مقبروں سے جدا ھوتی ھیں، وہ مسجد راٴس الحسین جس پر بعض حضرات خصوصاً صاحب فتح المجید، شدت سے اعتراضات کرتے ھیں وہ مقبرہ سے بالکل جدا ھے اور صرف مقبرہ کے ایک در سے مسجد میں وارد ھوا جاسکتا ھے، یعنی نماز پڑھنے کی جگہ جدا ھے اور زیارت گاہ جدا ھے، خلاصہ یہ جو مسجدیں شیعوں نے مقبروں کے پاس بنائی ھیں ان کا فاصلہ مسجد النبوی اور قبر پیغمبر اکرم (ص) کے فاصلے سے زیادہ ھے۔
۳۔ قبروں کے پاس مسجدیں بنانا شیعوں سے مخصوص نھیں ھے بلکہ مختلف فرقے قدیم زمانے سے قبروں کے پاس مسجدیں بناتے آئے ھیں، منجملہ ابن جوزی کی تحریر کے مطابق (محرم ۳۸۶ھجری کے واقعات کے ضمن میں) اھل بصرہ نے یہ دعویٰ کیا کہ ایک تازہ مردہ (ان کے عقیدے کے مطابق زُبیر بن العَوّام ) کو قبر سے نکالا اور اس کے بعد اس کو کفن پھنایا اور زمین میں دفن کردیا، اور ابو المِسک نے اس کی قبر پر ایک عمارت بنائی اور اس کو مسجد قرار دیدیا۔ (۱۷)
اسی طرح بصرہ میں بھی طلحہ (جو کہ جنگ جمل میں قتل ھوا) کی قبر پر ایک گنبد بنائی اور اس کے پاس ایک مسجد بنائی نیز وھاں ایک عبادتگاہ بھی بنائی۔(۱۸)
لیکن یہ کھنا کہ سب سے پھلے شیعوں نے قبر کے پاس (راٴس الحسین) مسجد بنائی اس سلسلہ میں بھی دو چیزوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ھے:
۱۔ مَقریزی کی تحریر کے مطابق ، حضرت امام حسین کا سر عسقلان سے شام لانا۸ جمادی الآخر ۵۴۸ھجری بروز یکشنبہ ھے اور وھاں پر عمارت کا بننا ۵۴۹ھجری میں تھا۔(۱۹) اور یہ بات طے ھے کہ اس زمانے میں شیعہ ختم ھوتے جارھے تھے اور اس وقت کی باگ ڈور وزیروں کے ھاتھوں میں تھی اور اس زمانے کا صاحب قدرت وزیر ”طلایع بن رُزّیک “ معروف تھا کہ خلیفہ وقت اس کو گرفتار کرنے کے درپے تھا، اور ان دونوں کے درمیان اس قدر جنگ وجدال تھی کہ خلیفہ طلایع کو قتل کرنے کے مختلف پروگرام بناتا رھا یھاں تک ایک پروگرام کے تحت اس کو قتل کردیا۔(۲۰)
اور یہ طلایع وھی ھے جو حضرت امام حسین کا سر قاھر ہ لے کر آیا اور موجودہ جگہ لاکر دفن کیا۔ (۲۱)
۲۔ لیکن جومسجد ”راس الحسین سے متصل ھے وہ کسی بھی وقت سادات سے مربوط نھیں رھی بلکہ صلاح الدین ایوبی جو سادات کو نابود کنندہ تھا اسی کے زمانے میں سادات کا خاتمہ ھونے کے بعد بنائی گئی ھے، اور اس کے وزیر قاضی فاضل عبد الرحیم (متوفی ۵۹۶ھ) نے یہ مسجد بنائی اور مسجد کے برابر میں ایک وضو خانہ بنایا اور ایک سقاخانہ بھی بنوایا، اور بھت سی چیزوں کووقف کیا۔ (۲۲)
حوالہ جات:
۱۔ فتح المجید ص ۲۵۷.
۲۔ جزیرة العرب فی القرن العشرین، ص ۳۴۰، تقریباً ڈیڑہ صدی پھلے چونکہ وہ لوگ مکہ او رمدینہ پر قابض تھے اسی وقت انھوں نے بعض قبروں کی کی عمارتیں مسمار کردیں.
۳۔ فتح المجید ص ۲۲۷.
۴۔ کتاب التوحید ص ۲۴۶،فتح المجید کے ساتھ.
۵۔ کشف الارتیاب ص ۶۶.
۶۔ کشف الارتیاب ص ۴۲۴.
۷۔ ھدیۂ طبیہ، ص ۸۳.
۸۔ مسائل الجاھلیہ ص ۵۰.
۹۔ فتح المجید شرح کتاب توحید محمد بن عبد الوھاب، ص ۱۴۵، ۱۶۳، ۱۶۴.
۱۰۔ بخاری صاحب نے اپنے صحیح (ج۲ص ۱۲۲)میں یوں تحریر کیا کہ ولید بن عبد الملک کے زمانے میں جب روضہ رسول ﷺ کی دیواریں گرنے لگیں تو اس نے اس کو دوبارہ بنوایا.
۱۱۔ الفتاوی الکبریٰ ج۴ ص۴۴۹.
۱۲۔ کشف الارتیاب، ص ۳۵۸، بقیع میں موجود قبریں جو قدیم الایام سے موجود تھیں ، اور مسمار ھونے پھلے ائمہ کی قبروں کی وضعیت ”وھابیوں کی تاریخ“ کے تحت بیان ھوگی، انشاء اللہ۔
۱۳۔ مروج الذھب ، ج۲ ص ۲۸۵، ۲۸۷، ۳۳۲ئہ کی تالیف.
۱۴۔ رحلۂ ابن جبیر ص ۱۵۴، ۲۲۸،۲۲۹.
۱۵۔ وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۱۲، ام حبیبہ بنت ابوسفیان ، پیغمبر اکرم ﷺ کی بیوی تھی، اور صخر ابوسفیان کا نام ھے۔
۱۶۔ سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۴۹۸.
۱۷۔ سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۴۹۸.
۱۸۔ استیعاب ،ابن عبد البر ، جلد اول ص ۲۶.
۱۹۔ صاحب فتح المجید (محمد بن عبد الوھاب کی کتاب توحید کی شرح میں) اس طرح کھتا ھے: ”لَوْذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہ مُتَقَرِّباً اِلَیْہ یَحْرُمُ“ (اگر کسی غیر خدا کے لئے قربانی کیا جائے اور اس قربانی سے اس غیر خدا کا تقرب مقصود ھو تو وہ قربانی حرام ھوجائے گی)اور اس کتاب کے حاشیے میں کھتا ہے کہ یہ شرک بھی شرک اکبر ھے، جبکہ یہ بات معلوم ھے کہ وہ قربانی جس کو مسلمان قبور کے نزدیک کرتے ھیں ان کا قصد صرف خوشنودی خدا ھوتی ھے ، صاحب قبر کا تقرب مقصود نھیں ھوتا.
۲۰۔ کشف الارتیاب ص ۳۴۶ ، ۴۲۴.
۲۱۔ ائمہ کی قبروں کی زیارت شیعوں کے نزدیک کیا ھے، ابن تیمیہ کے عقائد کے عنوان کے تحت بیان ھوچکی ھے.
۲۲۔ رحلہ ابن جبیر ص ۱۸۰.