ضابطہ ایک انتھائی محدود اور جامد تصور ہے۔یہ دو جمع دو چار کی طرح ھوتا ہے اور بیان کر دیتا ہے کہ فلاں چیز یوں ھو گی ،فلاں فعل جرم کھلائے گا ،فلاں کام کی یہ سزا ھو گی، وغیرہ وغیرہ۔ضابطہ معاملے کی جزئیات تک طے کر دیتا ہے۔وہ بتا دیتا ہے، اشارہ سرخ ھو تو گاڑی رک جائے گی اور سبز ھو توچل پڑے گی ۔آپ بینک جاتے ہیں وھاں کا اپنا ایک ضابطہ ھوتا ہے۔دفاتر کا اپنا ضابطہ ھوتا ہے۔موٹر وے پر سفر کریں وھاں ایک الگ ضابطہ ہے۔ایئر پورٹس کے ضابطے الگ ہیں۔ زمان و مکاں بدلتے رھیں گے ضابطے تبدیل ھوتے رھیں گے۔ضابطہ نہ کامل ھو سکتا ہے نہ ابدی۔ایک وقت آتا ہے، جب معلوم ھوتا ہے ،ضابطے کی کئی چیزیں عھد موجود میں غیر متعلق ھو گئی ہیں۔ تب ایک نیا ضابطہ یا معنوی ترمیم ضروری ھو جاتی ہے، بصورت دیگر وہ ضابطہ ناقص اور متروک قرار پاتا ہے۔لوگ کھتے ہیں کہ یہ پرانا ھو چکا ہے، یہ نئے دور کے تقاضوں کا ساتھ نھیں دے سکتا۔
اسی طرح ضابطہ بے لچک بھی ھوتا ہے۔وہ ایک چیز طے کر دیتا ہے ۔بھلے آپ کی پرواز فکر کوئی دوسرا نتیجہ نکال رھی ھو، ضابطے پر عمل ضروری ھوتا۔ضابطہ جب بن جائے تو اس میں اجتھاد کی گنجائش نھیں ھوتی، وہ صرف تقلید اور تقلید محض کا تقاضا کرتا ہے۔
اسلام کسی نظام کا نام بھی نھیں ہے۔نظام بھی ایک محدود تصور ہے۔زمان و مکاں کی تبدیلی اعلی سے اعلی نظام کو مجموعہ نقائص ثابت کر سکتی ہے۔ایک نظام آج آپ کو انتھائی باکمال محسوس ھو تا ہے، ھو سکتا ہے، انسان کی فکر کا ارتقا کچھ عرصہ بعد اس کو ٹھکرا دے اور ایک نئے نظام کی ضرورت محسوس ھونے لگے۔دنیا میں کتنے ھی نظام آ چکے اور کسے معلوم ابھی کتنے ھی اور نظام آئیں گے۔اسلام کو اس محدود تصور میں قید نھیں کیا جا سکتا۔
تو پھر اسلام کیا ہے؟
اسلام ھدایت، نصیحت اور خیر خواھی ہے۔اسلام نے کوئی ضابطہ دیا ہے نہ ھی کوئی نظام ۔اسلام نے کچھ بنیادی اصول طے کر دیے ہیں۔ان اصولوں کی روشنی میں آپ ھر دور میں اس دور کی ضروریات اور چیلنجز کے مطابق ضابطے بھی تشکیل دے سکتے ہیں اور نظام بھی استوار کر سکتے ہیں۔زمانے کے انداز بدلیں گے نئے چیلنجز سامنے آئیں گے تو یہ ضابطے اور یہ نظام بھی تبدیل کر دیے جائیں گے۔صرف یہ اھتمام کیا جائے گاکہ نئے ضابطے اور نئے نظام اسلامی اصولوں کے مطابق ھوں یا متصادم نہ ھوں۔
اسلام کا یھی تو وہ حسن ہے جو اسے تا قیامت ھر دور میں متحرک قوت نافذہ کے طور پر زندہ رکھتا ہے ۔عبادات کی استثناءکے ساتھ اس نے کوئی ضابطہ اور کوئی نظام وضع نھیں کیا۔اس نے شعور انسانی کو مقید نھیں کیا ،اسے آزاد چھوڑا ہے۔صرف آزاد نھیں چھوڑا، اس کی تحسین اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ آپ اجتھاد میں غلطی بھی کریں گے تو مواخذہ نھیں ھو گا بلکہ ایک اجر ملے گا۔اسلام نے صرف رھنما اصول دیے ہیں ۔ان اصولوں کی روشنی میں فکر انسانی اس کے مشاھدات اورتجربات کوئی سا بھی ضابطہ اور کوئی سا بھی نظام بنانے میں آزاد ہیں۔
اسلام کا ضابطہ حیات ھونا یا نہ ھونا، یہ محض ترکیب لفظی کا معاملہ نھیں۔اس مغالطے سے ایک کامل فکر تشکیل پاتی ہے جو بقائے باھمی اور خیر خواھی کی بجائے تصادم اور تناﺅ کو فروغ دیتی ہے۔جب آپ اسلام کو ضابطہ حیات اور نظام قرار دے کر اسکی آفاقیت کو محدود کر تے ہیں تو اس سے کچھ مسائل جنم لیتے ہیں۔چند مسائل کا تعلق مسلم سماج کی نفسیاتی تشکیل سے ہے اور کچھ مسلم سماج اور غیر مسلم معاشروں کے باھمی تعلق کی الجھنوں سے متعلق ہے۔
داخلی سطح پر یہ سوچ ایک نفسیاتی گرہ بن جاتی ہے اور منتشر الخیالی پر منتج ھوتی ہے۔ھر آدمی اپنی اپنی استعداد فکر کے مطابق سوالات کے منجدھار میں پھنس جاتا ہے۔مثلااسلام اگر ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو ھم کسی بھی اور ضابطے کو کیوں مانیں؟ آپ غور فرمائیں تو آ پ کو روایتی مذھبی فکر میں ایک طبقہ یہ سوال اٹھاتا دکھائی دے گا کہ اسلام تو خود ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔
جب اسلام کو ایک ضابطہ حیات بنا دیا جاتا ہے تو اس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فرد کو دوسرے تمام ضابطے باطل لگنا شروع ھو جاتے ہیں۔انسان نے صدیوں کے تجربات سے کچھ نتائج فکر اخذ کیے ہیں۔یہ انسانیت کا اجتماعی ورثہ ہیں۔یہ سوچ اس سارے ورثے کو حریف تصور کرتی ہے اور اس کی نفی کر دیتی ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سماج کے ارتقائی عمل سے کٹ جاتا ہے۔اس کے اندر نفرت اور بے گانگی کے جذبات جنم لینا شروع ھو جاتے ہیں ۔
لیکن اگر ایک فرد یہ جان لے کہ اسلام کسی ضابطے کا نام نھیں بلکہ ایک اعلی آفاقی ھدایت کا نام ہے جو کسی بھی خیر کی نفی نھیں کرتا۔وہ بنیادی طور پر کسی کا حریف نھیں سب کا خیر خواہ ہے۔وہ انسان کی دانش اجتماعی کی نفی نھیں کرتا صرف اس کی تھذیب کرتا ہے۔وہ کسی بھی تھذیب کو تباہ کرنے نھیں آیا بلکہ تزکیہ کرنے آیا ہے۔جھاں جھاں خرابیاں ہیں انھیں دور کر دیتا ہے۔حیات اجتماعی میں جھاں انسانی تجربات سود مند ھوں وہ ان کی قدر کرتا ہے تو پھر فرد کی نفسیاتی کیفیت کچھ اور ھو جاتی ہے۔
اسلام کو ضابطہ سمجھیں تو سوال اٹھیں گے کہ اسلام میں کھاں لکھا ہے کہ موٹر وے پر حد رفتار ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ ھو گی؟ کھاں لکھا ہے کہ سرخ اشارے پر گاڑی روکنا ھو گی ؟کھاں لکھا ہے کہ ایک پارلیمنٹ ھو گی ؟کھاں لکھا ہے کہ دوسرے ملک میں جانے سے پھلے ویزا لینا ھو گا ؟کھاں لکھا ہے کہ مسلم امت سرحدوں میں تقسیم ھو جائے؟ وغیرہ وغیرہ۔
اگر اسلام ایک ضابطہ حیات ہے تو اسے ھر چیز کے بارے میں بتانا چاھیے تھا۔اس نے ان چیزوں کا ذکر نھیں کیا اس لیے یہ سب کی سب غیر اسلامی ہیں۔یہ باطل نظام کی فروعات ہیں جنھیں ختم کرنا عین اسلام ہے۔
لیکن اگر ھم اسلام کو ھدایت سمجھیں گے تو رھنما اصول موجود ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کی جائے اگر وہ نصوص شریعت کے خلاف نہ ھو۔اولی الامر نظام ریاست چلانے کے لیے دنیا کے کسی بھی ضابطے اور کسی بھی نظام سے چیزیں لے سکتا ہے شرط صرف اتنی سی ہے کہ وہ دین سے متصادم نہ ھوں۔
جدید طرز زندگی میں ترقی یافتہ ممالک کے ضابطوں اور نظاموں میں سے خیر کی ھر چیز لی جا سکتی ہے کیونکہ انسان کی دانش اجتماعی کا مظھر ہے۔ اسے حریف سمجھیں گے تو خیر سے محروم ھو جائیں گے۔ھر چیز اسلامی یا غیر اسلامی نھیں ھوتی۔نہ ھی یہ تقسیم دین کا مقصود ہے۔ھم نے شدت جذبات میں ھر شے کو اس زاویے سے دیکھا تو اسلامی علوم اور غیر اسلامی علوم کی تفریق کر ڈالی یھاں تک کہ بات اسلامی شھد تک آن پھنچی ۔کچھ بعید نھیں چند سالوں میں بریلوی شھد الگ دستیاب ھو اور دیو بندی اور شیعہ شھد الگ۔
اسی سوچ نے غیر مسلم معاشروں کے بارے میں ایک خاص رویے کو جنم دیا۔ وہ کفریہ معاشرے ٹھہرے اور انھیں بتایا گیا کہ ھمارے پاس ایک مکمل ضابطہ حیات اور مکمل نظام موجود ہے۔مکمل ضابطہ اور مکمل نظام کی بات کو ایک حریفانہ تصور کے طور پر لیا گیا۔جیسے اسلام آئے گا تو دیگر تھذیبوں کو مٹا کر ایک اسلامی تھذیب لاے گا۔سب نظام ختم کر دے گا۔تمام ضابطے کالعدم ھو جائیں گے۔ایک طرف یہ دعوے اور دوسری جانب مسلم دنیا کی حالت زار…. دنیا سوچتی ھو گی یہ کون سا ضابطہ ھمیں دینا چاھتے ہیں۔تصادم کی اس کیفیت نے اسلام کی کیا خدمت کی؟
اسلام نہ کسی کی تھذیب کو ختم کرنے کے درپے ہے نہ کسی نظام کو۔نہ اس کا مقصود یہ ہے کہ عرب کلچر ساری دنیا میں رائج ھو جائے نہ وہ کسی خاص رھن سھن اور تھذیب کا علمبردار ہے جو باقیوں کو مٹا کر غلبہ چاھتا ہے۔وہ حریف نھیں ایک خیر خواہ ہے۔ساری دنیا کا خیر خواہ۔ تمام تھذیبوں کا خیر خواہ۔ وہ کسی کو مٹانے نھیں آیا۔ وہ تزکیہ کرنے آیا ہے۔
کیا اسلام ایک ضابطہ حیات ہے؟
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: اسلام اور نئے دور کے تقاضے
- بازدید: 31330
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
1
Online