بلاشبھہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اسلام کی اصطلاح اللہ اور اس کے رسول (ص) کے پیغام کی حقیقت کا احاطہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس بات کو بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ ھم نے اسلام کے ساتھ تحریک کے لفظ کا اضافہ کرنے کی جسارت کیوں کی ہے، اور تحریکِ اسلامی سے ھماری کیا مراد ہے؟ دراصل تحریکِ اسلامی کے لفظ سے مراد نہ دین میں کسی چیز کا اضافہ ہے اور نہ کمی، البتہ ھمیں اپنے حالات میں یہ دیکھنا ہے کہ جو پیغام، جو مشن، جو دعوت اور جو نمونہ نبی اکرم(ص) نے ھمارے سامنے قائم کیا ہے، فی زمانہ اس کی زیادہ سے زیادہ حقیقی اور صحیح تفھیم اور پھر اس کا اظھار کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ دورِ رسالت کے ۲۳سال دیکھیے، خواہ مکہ کا دور ھو یا مدینہ کا، ان میں تسلسل ہے ، یک رنگی ہے۔ حالات کی مناسبت سے کب کس چیز کو زیادہ اھمیت دینی ہے، کون سے طریقے اختیار کرنے ہیں اور کس طریقے سے گریز کرنا ہے، یہ سب اس عمل کا حصہ ہے۔ یہ پوری زندگی ایک مسلسل اور مربوط زندگی ہے، ایک دعوت اور جدوجھد ہے۔ اگر اسے ھم چند الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کریں تو اس میں پھلی چیز ربانیت ہے، یعنی اپنے خالق و مالک کوپھچاننا اور دنیا سے کٹ کر اس سے جڑنا۔ اس کی ھدایت اور اپنے خلیفہ اور نائب ھونے کی ذمہ داری جو اس نے بحیثیت انسان ھم پر عائد کی ہے، یہ استخلاف کی حیثیت ہے اور یہ ایک مسلمان کی زندگی کی بنیاد ہے۔ استخلاف کی ذمہ داری ھدایت کے بغیر ادا نھیں ھوسکتی اور ھدایت کا سرچشمہ دو چیزیں ہیں: ایک قرآن، اللہ کی کتاب اور دوسرے: اللہ کے رسول کا اسوہ حسنہ یہ وہ ھدایت ہے جو ھمیں استخلاف کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لائق بناتی ہے۔ لیکن استخلاف کا ھدف ہے کیا؟ یہ بڑا نازک معاملہ ہے کہ اس میں ھمارا اصل مقصود صرف اپنے مالک اور خالق کے احکام کی اطاعت، اس کے ساتھ جڑنا، اس سے محبت، اس کی طرف پلٹنا، اور اس کی رضا اور اس کی خوشنودی کا حصول ہے اور اس کا مظھر جنت ہے جس کا حصول ھماری تمنا اور ھماری آرزو ہے۔ ایک مفکر نے بڑے خوب صورت انداز میں اس بات کو چار نکات کی شکل میں ادا کیا ہے : پھلا مرحلہ دنیا سے پھلوتھی کرکے رب کی طرف مراجعت ہے، یعنی مِن الخلق اِلَی اللّٰہ، یعنی دنیا سے اورانسانوں سے رشتے کو کاٹ کر اللہ سے رشتہ قائم کرنا یا صرف اس سے جڑ جانا۔ دوسرا مرحلہ مع اللّٰہ کا ہے، یعنی صبغۃ اللّٰہ کے رنگ میں رنگ جانا۔ صرف اللہ کا ھوجانا تاآنکہ اللہ کی رضا کے طریقوں اور ھمارے طریقِ حیات میں کوئی فرق نہ رھے، یہ مع اللّٰہ ہے۔ لیکن یہ سفر کا اختتام نھیں۔ اس بلندی کو حاصل کرنے کے بعد سب سے اھم سفر کا آغاز ھوتا ہے، یعنی دوبارہ اللہ کے بن کر دنیا کی تعمیرنو کے ھنگامہ خیز اور پُرخطر راستے کو اختیار کرنا۔ علامہ اقبال نے کھا ہے کہ یھی فرق ہے نبی(ص) اور صوفی میں۔ صوفی کے معیار کی انتھا یہ ہے کہ وہ اللہ کا قرب پالے۔ گویا اس نور اور معرفت سے اتنا قرب حاصل کرنے کے بعد اس نے سب کچھ پالیا۔ لیکن نبی(ص) کا مقام یہ ہے کہ وہ قرب الٰھی کی معراج پر پھنچ کرپھر انسانوں کے درمیان آتا ہے۔ جو روشنی اسے حاصل ھوئی ہے، جو نور اسے حاصل ھوا اور جو ھدایت اسے حاصل ھوئی، اسے انسانوں تک پھنچاتا ہے، اور اس کے ذریعے سے انسانوں کی زندگیوں کو اور پوری کائنات اور پوری تاریخ کو منور کرتا ہے۔ اس بزرگ نے پھر اس تیسرے مرحلے کو من اللّٰہ الی الخلق کے الفاظ میں ادا کیا ہے کہ اللہ کے دروازے پر جانے کے بعد پھر دوبارہ اسے انسانوں کے پاس جانا ہے۔ اسی دنیا میں جانا ہے جو ظلم اور فسق کی دنیا ہے، کفر اور نافرمانی کی دنیا ہے۔ اس دنیا کو تبدیل کرنا ہے۔ اس پیغام کو انسانوں تک پھنچا کر دنیا کی تعمیرنو کرنا ہے۔ ھمارا بھی یھی ھدف ہے لیکن یہ بھی اختتامِ سفر نھیں۔ آخری مرحلہ پھر اللہ کی طرف لوٹنے کا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اب ساری انسانیت کو اپنے ساتھ لے کر اور رب کے بتائے ھوئے طریقے کی پیروی کرتے ھوئے سب کو اللہ کی طرف لے جانا ہے، یعنی مع الخلق الی اللّٰہ۔ اب انسانوں کو ساتھ لے کر اللہ کی طرف چلنا ہے تاکہ اللہ اور اس کے دین کی طرف جانے کا جو بڑا ھدف ہے، یہ زندگی کا ھدف بن جائے۔ بس یھی تحریک کا مفھوم ہے اسلام جو ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، اسے تھام کر اللہ سے جڑنا اور اللہ کا ھوجانا، یہ اس کا اوّلین تقاضا ہے۔ اللہ کے اس پیغام کو قبول کرنے کے ساتھ اپنے آپ کو اور دنیا کو تبدیل کرنے کی جدوجھد کرنی ہے۔ یھی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی ھدایت انسانوں تک پھنچانے کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ انبیا و رسل بھیجے، لیکن یہ مقام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے کہ جنھیں ھدایت کے ساتھ دین حق دیا گیا، تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردیں: ’’هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا‘‘ (الفتح ۴۸:۲۸) وہ (اللہ) وھی ہے جس نے اپنے رسول(ص) کو ھدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے اور (اس بات کی) گواھی کیلئے اللہ کافی ہے۔ تحریک کے تین دائرے تحریکِ اسلامی کے تین دائرے ہیں اور ھمیں ان تینوں دائروں کو سامنے رکھنا چاھئے: پہلے دائرے میں، میری ذات، میرا خاندان، میرے عزیز واقارب، میرے دوست احباب، میرے ساتھی اور میری جماعت ہے۔ بلاشبھہ اگر ھم اپنی اصلاح کی کوشش نھیں کرتے، اپنی ذاتی زندگی، اپنے وسائل کو اللہ کی راہ میں جھونک نھیں دیتے، تو پھر ھم اپنے دعوے میں سچے نھیں ہیں۔ اپنی اور اپنی تحریک کی اصلاح، مضبوطی، فکرمندی، استحکام ھی ھماری پھلی ذمہ داری ہے۔ دوسرا دائرہ وہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے، ملک اور اُمت مسلمہ کا وہ خطہ کہ جس کا ھم حصہ ہیں، وھاں پر اگر ھم محض تحریکِ اسلامی کے خول میں بند رھتے ہیں اور اپنے معاشرے، اپنے ملک، اپنی دنیا اور اپنی اُمت کی تبدیلی اور اصلاح کی فکر نھیں کرتے تو پھر شاید اپنی بھی حفاظت نہ کرسکیں۔ اس لیے کہ یہ دعوت امربالمعروف ونھی عن المنکر خود ھماری اپنی اصلاح، اپنی استقامت کے لیے ضروری ہے۔ ایک تیسرا دائرہ ہے: پوری انسانیت اور عالمی کش مکش کا۔ چاھے چند افراد ھوں یا انبوہِ کثیر۔اسی عقیدے، اطاعت، دعوت اور اقامتِ دین کی جدوجھد کا نام اسلام ہے ۔اور تحریکِ اسلامی کی اصطلاح اسی مفھوم کو آج کی زبان میں ادا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ الحمدللہ آج ھم چند افراد نھیں بلکہ اُمت مسلمہ کا ایک نھیت قابلِ قدر حصہ اس قافلے کا ھمراھی ہیں۔لیکن اگر ھم چند ھوں تب بھی ھمیں پوری دنیا کی فکر کرنا ہے۔ ھم اس سے غیرمتعلق نھیں رہ سکتے اور آج کی دنیا پر تو عالم گیریت کا سحر طاری ہے جس میں ھم تنھا نھیں رہ سکتے، ھمیں اس سحر کو توڑنا اور حقائق کی دنیا کو نکھارنا ہے۔
یہ تینوں دائرے ھمارے سامنے رھنے چاھیئں۔ ان تینوں کا صحیح صحیح ادراک،اپنے ھدف کا تعین اور اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے صحیح منصوبہ بندی، صحیح حکمت عملی، طریق کار کا تعین، اور پھر سعی و جھد___ یہ دراصل ھمارے کرنے کا کام ہے۔ نظریاتی کش مکش نظریاتی کش مکش نہ دنیا میں کبھی ختم ھوئی ہے نہ ھوگی۔ مفادات کا تصادم بھی ھوتا ہے اور مادی ذرائع کے حصول کے لیے تصادم بھی ایک حقیقت ہے۔ لیکن انسانیت کی پوری تاریخ میں نظریات کی کش مکش ایک بنیادی حقیقت ہے اور یہ کش مکش روزِاوّل سے ہے اور ابد تک رھے گی۔ سورۂ فاتحہ جس کی تلاوت ھم نماز کی ھر رکعت میں کرتے ہیں، ھمارے سامنے انسانیت کی دو قوتوں کو پیش کرتی ہے: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ (الفاتحہ ۵۔۶) ھمیں سیدھے راستے کی (اور اس پر چلنے کی) ھدایت کرتا رہ۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام و احسان کیا نہ ان کا (راستہ) جن پر تیرا قھر و غضب نازل ھوا۔ اور نہ ان کا جو گمراہ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ انعام یافتہ لوگوں اور گمراھوں کے درمیان یہ کش مکش ابدی ہے اور انسانی تاریخ میں جابجا ھمیں اس کا عکس نظر آتا ہے اور یہ ھمیشہ رھے گا۔ آج جس عالم گیر کش مکش سے انسانیت گزر رھی ہے میری نگاہ میں اس کے دو بڑے مثالیے (paradigms) ہیں۔ ایک وہ مثالیہ ہے جس کی بنیاد اللہ سے بغاوت یا اللہ کا انکار، یا کسی شکل میں اللہ کو ماننے کے باوجود اللہ کی ھدایت پر اپنے نفس، اپنی عقل اور اپنے مفادات کا غلبہ منوانے کی جسارت ہے۔ یہ لادینی ماڈل ہے اور سرمایہ داری، اشتراکیت یا فسطائیت کا روپ لیے دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بے شمار شکلیں ہیں اور یہ تھذیبی کش مکش میں ایک منزل اور ماڈل ہے۔ دوسرا ماڈل وہ ہے جس کی صحیح شکل اسلام پیش کرتا ہے، اور جسے تحریکِ اسلامی نے اس دور میں نھایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایمان اور انکار کی یہ کش مکش روزبروز زیادہ سے زیادہ نکھرتی چلی جارھی ہے۔ اس کش مکش کی بڑی قدروقیمت ہے۔ اس راہ میں ایثار، جدوجھد کے نتیجے میں جو مصائب حق کے غلبے اور وسعت کے لیے برداشت کیے جائیں، وہ دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس حقیقی کش مکش میں اسلامی تحریک اور اس کے کارکنوں اور خصوصیت سے ذمہ دار افراد کو یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاھیے کہ دنیوی اعتبار سے اپنے سے بھت زیادہ قوی قوتوں کا وہ کیسے مقابلہ کرسکتی ہے؟ ایک طرف تو ھمیں اللہ کی ذات پر بھروسا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ھی سب سے زیادہ قوی ہے۔ وھی ھمارا اصل سھارا ہے اور صرف اس کی خوشنودی کی خاطر ھم یہ کام کررھے ہیں۔ لیکن دوسری جانب حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ جو خطرات، مشکلات اور حالات ہیں، ان کا پورا پورا ادراک ھو، اور پھر ان حالات ھی میں سے ھم اپنا راستہ نکالیں۔ افغانستان میں اشتراکی روس کی شکست، تاریخ میں ایک بھت بڑی تبدیلی کا ذریعہ بنی ہے۔ ایران کے انقلاب ۱۹۷۹ء اور اسلامی تحریکات کے وجود اور ان کی جدوجھد کو ھمیں اس عالمی پس منظر میں دیکھنا ہے۔ ھمیں اس چیز کا جائزہ لینا ہے کہ افغانستان کے کامیاب جھاد کے ثمرات سے افغانستان کو، اسلامی تحریکات اور اُمت مسلمہ کو کیونکر محروم کیا گیا۔ اس المیے پر تدبر کی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے، اور پھر اس کی روشنی میں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آگے کے مراحل میں ھم یہ کام کس طرح کریں؟
تحریف دین کی کوششوں کا جائزہ تحریکِ اسلامی نے دین کا جو واضح تصور پیش کیا تھا اور جو عالمِ اسلام میں ایک نئی لھر اور بیداری کا سبب بنا، آج وہ تصور تنقید کا ھدف بنا ھوا ہے۔ اس تصور پر جھاں ایک طرف مغرب حملہ آور ہے تو دوسری جانب اس کے مقاصد اور اھداف کی عملی خدمت کرنے والوں میں خود مسلمانوں میں سے ایک طرف تجدّد پسند حضرات ہیں تو دوسری طرف نادان دوستوں کا بھی ایک کردار ہے جو حالات کو مزید بگاڑنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ تحریکِ اسلامی کے لیے پھلا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح اس تصور کی جامعیت، اس کے توازن اور اس کو اس کی اصل روح کے ساتھ پیش کرے، اس کا دفاع کرے، اس کی بالادستی اور برتری کو دنیا پر ثابت کرنے کی سعی و جھد کرے۔ علامہ اقبال، مولانا مودودی، حسن البنا شھید، سیدقطب شھید،امام خمینی یہ وہ افراد ہیں جنھوں نے اپنے اپنے انداز میں دین کے اس تصور کو نکھار کر اُمت مسلمہ اور دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آج اس تصور کو مختلف انداز میں بگاڑنے کی کوششیں ھورھی ہیں۔ کھیں اس کو پولیٹیکل اسلام (سیاسی اسلام) کھا جاتا ہے اور کھیں صوفی اسلام کو اسلام کا اصل ماڈل قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کھیں اس طریق کار کے اس توازن کو درھم برھم کیا جارھا ہے، جس میں اصلاح اخلاق و کردار، معاشرے کی تعمیر، انقلابِ قیادت، اخلاقی تعلیمات کی تلقین، تعلیم و تربیت اور تبدیلی کے لیے جدوجھد کا واضح نقشۂ کار پیش کیا گیا ہے۔ ھم اس دعوت اور پیغام کے امین ہیں۔ ھمیں خود بھی اس پر اعتماد ھونا چاھیے اور جو کام امام خمینی (رہ) نے اس تصور کو پیش کرنے، اس کی صحت اور اس کی برتری ثابت کرنے کے لیے کیا اور جس کی وجہ سے واقعہ یہ ہے کہ ۲۰ویں صدی کی دینی سوچ کا رُخ بدل گیا، آج تحریکِ اسلامی کو اس کام کو جاری رکھنا اور وسعت اور گھرائی دونوں کے اعتبار سے آگے بڑھانا ہے۔ اس کے لیے علمی و تحقیقی کام، ابلاغ اور ابلاغ کے مؤثر ترین ذرائع اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ھمیں لکیر کا فقیر نھیں ھونا چاھیے۔ ابلاغ کے مؤثر ذرائع کا بھترین استعمال، پھلا چیلنج ہے جو ھمیں قبول کرنا ہے۔ اس کے لیے تحریکِ اسلامی کو مردانِ کار کی تیاری، اداروں کی تقویت، وسائل کی فراھمی اور تقسیم کار کی ضرورت ہے، تاکہ ھرشخص سے ایک ھی کام نہ لیا جائے بلکہ جو ھماری ضرورتیں ہیں، جو اسلام کے تقاضے ہیں اور تحریکِ اسلامی کی کامیابی کے لیے جو کام ضروری ہیں، ان میں سے ھر ایک کے لیے ہھمارے پاس ایک نظام ھو، ادارے ھوں، افراد ھوں اور اس کام کو حُسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ تبدیلیِ نظام کی حکمت عملی دوسری چیز جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاھتا ھوں وہ یہ ہے کہ تحریکِ اسلامی نے تبدیلی کا جو طریقہ بتایا ہے، وہ بھت اھم ہے۔ اس میں ایمان، قلب و نظر کی تبدیلی، شخصیت، اخلاق و کردار کی تعمیر، خدمتِ خلق، معاشرے کو ظلم، محکومی و مجبوری اور فسق و فجور سے پاک کرنا، اور پھر انقلابِ قیادت ہے۔ انقلابِ قیادت کے معنی صرف سیاسی قیادت کی تیاری کے نھیں ہیں۔ بلاشبہہ سیاسی قیادت اس کا ایک بڑا اھم پھلو ہے۔ درحقیقت اس سے مراد قیادت کی ھمہ گیر تبدیلی ہے بشمول فکری قیادت، معاشی قیادت، سماجی قیادت، تعلیمی قیادت، غرض زندگی کے ھرشعبے میں تبدیلیِ قیادت ہے۔ نظامِ کار کی تبدیلی کے لیے جو خدا اور اس کے رسول(ص) کے متعین کردہ حدود کے اندر رھتے ھوئے حکومت اور ریاست کے وسائل کو حق اور عدل کے قیام، اور اسلامی نظامِ زندگی کے غلبے کے لیے استعمال کرنا بھی ازروے ایمان لازم ہے۔ یہ توازن، یہ طریق کار ازحد ضروری ہے۔ اس کے لیے کوئی شارٹ کٹ یا مختصر راستہ نھیں ہے۔ اس میں یہ بات نھایت اھم ہے کہ جبر اور قوت کے ذریعے سے نظریات اور اخلاقی تبدیلی واقع نھیں ھوسکتی۔ یہ تحریک اسلامی کی غیرمعمولی خدمت ہے۔ اس معاملے میں اگر ھم نے توازن کو چھوڑ دیا تو ھم اپنے مقصد کے ساتھ بے وفائی کا ارتکاب کریں گے۔ ذمہ دارانِ تحریک کے لیے اس تصور کو زندہ رکھنے اور اس کی برتری کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ احسن طریق کار کی صحت، اس کی کامیابی اور برتری اور اسی کے موثر ھونے پر یقین اور اس پر عمل ناگزیر ہے ۔ دعوت کے عمل سے غفلت اس کے ساتھ ساتھ تیسری اہھم بات یہ ہے کہ دعوت جو ھمارا سب سے اھم ذریعہ اور ھہتھیار ہے، اس کا ھم حق ادا نھیں کر رھے۔ ھم میں ایک قسم کے اطمینان اور قناعت کی کیفیت پیدا ھوگئی ہے حالانکہ دعوت کے معنی یہ ہیں کہ ھم اللہ کے بندوں تک اللہ کے پیغام کو پھنچانے کے لیے بے چین رھیں۔ اس ضمن میں سب سے پھلی ذمہ داری ھمارا خاندان ہے:’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۔۔۔ـ‘‘(التحریم:۶) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اھل و عیال کو اس آتشِ دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ھوں گے ۔۔۔‘‘۔ پھر ھمارا محلہ ہے اور معاشرہ ہے۔ کیا ھم دیانت داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے گھر کے افراد، اپنے عزیز و اقارب، اھلِ محلہ اور وہ لوگ جن کے ساتھ ھم دفاتر میں کام کر رھے ہیں، یا کھیں بھی جھاں ھمارا لوگوں کا ساتھ ہے، میل جول ہے، ھم ان تک دعوت پھنچانے کی کوشش کر رھے ہیں؟ اگر میں یہ کھوں تو شاید غلط نہ ھوگا کہ اس سلسلے میں ھم غفلت اور کوتاھی کا شکار ہیں اور اس کی اصلاح کے بغیر نہ تو ھم تحریک کے ساتھ وفاداری برت سکیں گے اور نہ اللہ کو منہ دکھا سکیں گے۔ سیاسی کام بے حد اھم ہے لیکن وہ بھی ھمارے لیے دعوت کا ذریعہ ہے۔ ھمیں لوگوں تک پھنچنا اور ان تک دعوت پھنچانا ہے۔ ھماری بنیادی دعوت اللہ کی طرف ہے اور اللہ کے دین کی طرف ہے، اور اللہ کے دین کو قائم کرنے والی تحریک کی طرف ہے۔ اس میں کوتاھی یا لاتعلقی کی کوئی وجہ یا کوئی جواز نھیں ھوسکتا۔ اس لیے میرے اور آپ کے وقت کا بڑا حصہ دوسروں تک دین کے پیغام کو پھنچانے، ان کے شکوک دُور کرنے، ان کے سوالوں کا جواب دینے، ان کو خیر کے لیے منظم کرنے اور ان کے دل کو مطمئن کرنے میں صَرف ھونا چاھیے۔ اگر دعوت کے راستے کو اختیار کریں گے تو معاشرے اور سیاست میں تبدیلی واقع ھوگی۔ اگر دعوت کمزور ھوگی تو پھر سیاسی نتائج بھی غیرتسلی بخش ھوں گے۔ اس کے لیے یہ بھت ضروری ہے کہ ھماری دعوت ملک کے تمام طبقات جن میں خواص بھی ہیں اور عوام بھی، ان سب تک پھنچنی چاھیے۔ میں یہ بات خاص طور پر واضح کردینا چاھتا ھوں کہ تحریکِ اسلامی کے کارکن ایک قسم کے ذاتی خول کے اسیر بنتے جارھے ہیں، حالانکہ ھمارا رویہ یہ ھونا چاھے کہ ھماری زندگی دوسروں کے لیے وقف ھو۔ ھم دوسروں کے لیے جئیں اور دوسروں کی خدمت کریں۔ ان کے دکھ درد میں شریک ھوں، ان کی مشکلات کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے غم کو اپنا غم اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھیں۔ یہ کیفیت جب تک پیدا نھیں ھوگی دعوت کے تقاضے پورے نھیں ھوسکتے۔ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ وہ خاتون جو محسنِ عالم پیغمبر اکرم (ص) کے راستے میں کانٹے بچھاتی تھی، آپ(ص) نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ جب آپ(ص) نے یہ دیکھا کہ آپ(ص) کے راستے میں کانٹے نھیں ہیں، تو کیا آپ(ص) خود اس کی مزاج پُرسی کے لیے نھیں گئے؟ کیا ھم اس واقعے کوبھول سکتے ہیں کہ مکّی دور میں دن بھر کی محنت اور مشقت کے بعد آپ دارارقم میں آرام کے لیے تشریف لاتے ہیں کہ اتنے میں اطلاع آتی ہے کہ ایک نیا قافلہ آیا ہے۔ باوجود اس کے کہ آپ(ص) تھکے ھوئے ہیں، آپ(ص) اُٹھتے ہیں کہ مجھے ان تک اللہ کے دین کا پیغام پھنچانا ہے۔ اصحاب کھتے ہیں کہ یارسول(ص) اللہ! آپ(ص) تھکے ھوئے ہیں، آپ(ص) کی طبیعت بھی ٹھیک نھیں ہے، آپ(ص) ذرا آرام فرما لیں اور کل ان کو دین کا پیغام پھنچا دیں۔ آپ کو علم ہے کہ اس موقع پر آپ(ص) نے کیا فرمایا تھا؟ آپ(ص) نے فرمایا تھا: کیا پتاوہ قافلہ صبح تک یھاں سے رخصت ھوجائے، اور کیا خبر کل تک میں رھوں، یا نہ رھوں۔ چنانچہ اسی حالت میں آپ(ص) نے قافلے والوں تک خدا کا پیغام پھنچایا۔یہ دعوت ہے جسے ھماری زندگیوں کا مرکز ھونا چاھیے اور ان شاء اللہ اسی دعوت، اور اسی شوقِ دعوتِ حق سے تبدیلی آئے گی اور ضرور آئے گی، لیکن اس کے لیے ھمیں اپنے حصے کا کام کرنا ھوگا۔ جدوجھد کی کامیابی کا یقین دعوت کے ساتھ ساتھ ھمیں یہ یقین بھی ھونا چاھیے کہ ھماری دعوت حق ہے اور بالآخر غالب آکر رھے گی۔ اس بارے میں کسی قسم کا شک و شبہہ نھیں ھونا چاھیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دعوت کے علَم بردار چند سرپھروں نے بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکر لی ہے اور تاریخ کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔ اس دنیا کی تاریخ سوپرپاورز کا قبرستان ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کوئی سوپر پاور عالمی طاقت بننے کے بعد ھمیشہ کے لیے غالب نھیں رھی۔ ھم نے خود اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ جب برطانیہ کے بارے میں کھا جاتا تھا کہ وہ برطانیہ عظمٰی یا گریٹ برٹن ہے۔ اس لیے کہ دنیا کے اتنے بڑے حصے پر اس کی حکومت ہے کہ اس کی حکومت میں سورج غروب نھیں ھوتا، اور سمندر کی لھروں پر اس کی حکمرانی ہے۔ پھر ھم نے دیکھا کہ وہ سوپرپاور کس طرح ایک معمولی سا یورپی ملک بن کر رہ گئی اور اس کو ایک دن یورپی یونین کی رکنیت اختیار کرنے کے لیے درخواست دینا پڑی۔ روس کا کیا دبدبہ تھا۔ خروشیف جب اقوام متحدہ کے اجلاس میں گیا تو اپنے جوتوں سمیت پاؤں اُٹھا کر میز پر رکھ کر اس نے کھا کہ میں یھاں اس لیے آیا ھوں کہ مجھے سرمایہ داری کو دفن کرنا ہے۔ آج اس سوویت یونین کا وجود تک باقی نھیں رھا۔ امریکا کے بارے میں بھی آپ سے کھتا ھوں کہ ان شاء اللہ عراق اور افغانستان اور دوسرے ممالک میں اسے جوھزیمت اٹھانا پڑرھی ہے، جو عالمی معاشی بحران آیا ہے اور جس نے اس کی چولیں ھلاکر رکھ دی ہیں، یہ اب امریکا کے زوال اور پسپائی کی نوید ہے۔ گویا کوئی سوپرپاور ھمیشہ کے لیے باقی نھیں رھی ہے۔ ھمیں یہ یقین ھونا چاھیے کہ حق غالب آکر رھے گا، لیکن یہ بھی ذھن میں رھنا چاھیے کہ حق آپ سے آپ غالب نھیں ھوگا۔ اس کے لیے جدوجھد کرنا ھوگی، اس کے لیے قربانیاں دینا ھوں گی۔ الحمدللہ آج دنیا کے گوشے گوشے میں کوئی ملک ایسا نھیں ہے جھاں اسلامی تحریک، اسلام کی صحیح فکر اور جامع تصور پیش نہ کر رھی ھو۔ جدید سوپرپاور کے ذریعے آج جو خطرات رونما ھو رھے ہیں، ان سے یہ بات بھی واضح ھوکر سامنے آئی ہے کہ سوپرپاور عالمی طاقت تو ھوسکتی ہے، لیکن وہ جو چاھے کرنھیں سکتی۔ اس کا سارا کروفر، اس کی ساری ٹکنالوجی، اس کی ساری دولت اور وسائل اور منصوبوں کو ایک معمولی سی چیز درھم برھم کرکے رکھ دیتی ہے۔ دنیا میں asymetry of power یعنی طاقت کا عدم توازن پایا جاتا ہے۔ آج نظر آرھا ہے کہ کمزور، طاقت ور کو چیلنج کرسکتا ہے اور طاقت ور بے بس ھوکر رہ جاتا ہے۔
ان حالات میں ھماری یہ ذمہ داری ہے کہ ایک طرف تحریک کی فکر اور وژن کو ھرقسم کی تحریف، آمیزش،دراندازی اور کمزوری سے پاک رکھیں، اور اگر تحریک کایہ وژن نظروں سے اوجھل ھوگیا تو پھر ھم کچھ نھیں کرسکیں گے۔ دوسری طرف تحریک نے تبدیلی کا جو راستہ دکھایا ہے، اس کا جو طریق کار متعین کیا ہے، اس پر صبرواستقامت کے ساتھ قائم رھنا ہے۔ بلاشبہہ مایوس کن نتائج بھی رونما ھوں گے لیکن مثبت نتائج کا نکلنا اللہ کے ھاتھ میں ہے۔ ھمارا کام تو پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کوشش کرنا ہے۔ جدوجھد کرنا ھمارا کام ہے اور اسے پایۂ تکمیل تک پھنچانا اللہ کا انعام ہے۔ روزِ جزا، ھم سے کوشش کے بارے میں پوچھا جائے گا، لہٰذا کوشش میں کوئی کمی نھیں ھونی چاھیے۔ اس کوشش میں جو طریق کار ہے، جو توازن ہے اور جس طریقے سے وہ خیروبرکت کا باعث ہے، جس کے ذریعے سے وہ رحمت کا نظام قائم ھوگا، جو اللہ کے رسول(ص) نے دیا اور قائم کرکے دکھایا ہے، اس کے لیے اگر جذبہ ماند پڑجاتا ہے یا اس میں کوئی کمی آجاتی ہے توپھر ناکامی ہے۔ جدید تقاضوں سے ھم آھنگ منصوبہ بندی ھماری دعوت، جدوجھد اور کوشش کا مرکز و محور رضاے الٰھی کا حصول ہے۔ اس دعوت کا ایک اھم تقاضا مردانِ کار کی تیاری، اداروں کو مستحکم کرنا ہے اورتقسیم کار کے ذریعے سے ھر محاذ پر پھنچنا ہے۔ الحمدللہ، آج لوگوں کی ایک بڑی تعداد تحریک کے ساتھ وابستہ ہے، لیکن زندگی کے مختلف شعبوں میں جو ھمارے اثرات تھے اور زندگی کے ھر میدان میں ھم جس طرح سے راستہ نکال رھے تھے، ایک بار پھر ایک نئی منصوبہ بندی کے ساتھ اس کام کو کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ھم سب کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اُمت کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی بے حد ضروری ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاھیے کہ جھہاں روزمرہ کا کام اھم ہے، ھر سال کا منصوبہ اھم ہے، وھیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ھم اپنی سوچ میں کچھ مزید وسعت پیدا کریں۔ اس دنیا میں، میں اور آپ نھیں ھوں گے لیکن یہ پیغام، یہ دعوت، یہ تحریک، یہ جدوجھد ان شاء اللہ آگے بڑھے گی اور اپنا کردار ادا کرکے رھے گی، لیکن اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ میں یہ کوئی نئی بات نھیں کھہ رھا ھوں۔ کیا حضرت یوسف کے واقعے میں یہ سبق نھیں ملتا کہ انھیں سات سال غلے کی فراوانی اور سات سال قحط اور خشک سالی کا سامنا تھا اور اس کے لیے انھوں نے منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ منصوبہ بندی انبیا کا طریقہ ہے اور ھم اس معاملے میں کچھ غفلت برت رھے ہیں۔ ھمیں چاھیے کہ مردانِ کار کی تیاری اور درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے درمیانی مدت اور طویل المدت منصوبہ بندی کو سامنے رکھ کر لائحہ عمل اور حکمت عملی تیاری کریں۔ اس منصوبہ بندی کا ایک اور اھم تقاضاجسے ھم بھول جاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ھم میں سے ھرایک کی ذمہ داری ھونی چاھیے اور ھماری یہ سوچ ھونی چاھیے کہ ھماری جگہ لینے والے ایک نھیں کئی ھوں اور صلاحیت و استعداد میں وہ ھم سے بھتر ھوں، مگر دکھائی یہ دیتا ہے کہ ھم جو کچھ کرسکتے ہیں کرگزریں، باقی دیکھا جائے گا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک فرد جب اُٹھتاہے تو اس کا خلا پُر کرنے والا کوئی دوسرا نھیں ھوتا۔ نبی اکرم(ص) کے ھم پر بے شمار احسانات ہیں لیکن دو چیزیں بھت اھم ہیں: ایک یہ کہ جو شھادتِ حق انھوں نے دی، اس شھادت کی ذمہ داری اُمت مسلمہ کے ذمّے ہے اور اس کام کا ایک تسلسل سے جاری رھنا ضروری ہے۔ دوسری اھم بات اپنے پیچھے ایسے مردانِ کار کو چھوڑ جانا جن میں سے ھر ایک روشن ستارے کی مانند تھا اور نور کا منبع تھا۔ کیا انفرادی اور اجتماعی سطح پر ھماری سوچ بھی یہ ہے؟ کیا ھمیں بھی یہ فکر ھوتی ہے کہ ھماری جگہ لینے والے ھم سے بھتر ھوں؟ کیا ھم اس فکر اور کوشش میں رھتے ہیں کہ جو لوگ ھمارے آس پاس ہیں، جن لوگوں تک ھم دعوت پھنچا رھے ہیں، ان میں سے کون کس صلاحیت کا مالک ہے، اور اس صلاحیت کو کیسے آگے بڑھایا جائے، اور اس فرد سے کیسے بھتر سے بھتر انداز میں کام لیا جائے؟ اگر ھم یہ ذھن نھیں رکھتے، اس کی فکر نھیں کرتے تو یہ بڑی غفلت اور خلافِ حکمت بات ہے۔ ھم میں سے ھر فرد تحریک کا ایک ذمہ دار فرد ہے، اور اسی مناسبت سے اس کا فرض ہے کہ اپنی جگہ لینے کے لیے اپنے سے بھتر فرد کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے تاکہ یہ دعوت، یہ پیغام، یہ تحریک کامیاب ھو اور ان شاء اللہ یہ کامیاب ھوگی، لیکن ھمیں اس کے لیے اپنا فرض اور اپنی ذمہ داری ادا کرنا ھوگی۔