شیخ محمد بن عبد الوھاب کھتا ھے کہ: خداوندعالم نے جن عبادتوں کا حکم کیا ھے ان میں سے کچہ یہ ہیں: اسلام، ایمان، احسان، دعا، خوف ورجا، توکل، رغبت، زھد،استقامت، استغاثہ، قربانی اور نذر ، کہ یہ تمام چیزیں خدا وندعالم سے مخصوص ھیں۔(۱)
شفاعت کے بارے میں حافظ وھبہ کھتے ھیں کہ وھابی حضرات روز قیامت پیغمبر اکرم (ص) کی شفاعت کے منکر نھیں ہیں اور جیسا کہ بھت سی روایات میں وارد ھوا ھے ، شفاعت کو دوسرے انبیاء، فرشتے، اولیاء اللہ اور(معصوم) بچوں کے لئے بھی مانتے ھیں، لیکن شفاعت کو اس طرح طلب کیا جائے:
”اَللّٰھمَّ شَفِّعْ نَبِیِّنَا مُحَمَّداً فِیْنَا یَوْمَ الْقِیَامَة، اَللّٰھمَّ شَفِّعْ فِیْنَا عِبَادِکَ الصَّاْلِحِیْنَ“
”خداوندا ! ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی (ص) کو روز قیامت ھمارے شفیع قرار دے، خداوندا ! اپنے صالح بندوں کا ھمارا شفیع قرار دے۔“(۲)
لیکن ” یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ، یَا وَلِیّ اللّٰہ اَسْاٴَلُکَ الشَّفَاعَةَ“ یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ مثلاً ”یَا رَسُوْلَ اللّٰہ اَدْرِکْنِی، یَا اَغِثْنِی“زبان پر جاری کرنا یہ خدا کے ساتھ شرک کرنا ھے۔(۳)
ابن قیم کھتا ھے کہ شرک کے اقسام میں سے ایک قسم مُردوں سے استغاثہ کرنا یا ان کی طرف توجہ کرنا بھی ھے، کیونکہ مردے کوئی کام کرنے پر قادر نھیں ھیں، وہ خود تو اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک ہیں نھیں، کس طرح استغاثہ کرنے والوں کی فریاد کو پھونچ سکتے ھیں، یا خدا کی بارگاہ میں شفاعت کرسکتے ھیں۔
شیخ صُنعُ اللہ حنفی کھتا ھے کہ آج کل مسلمانوں کے درمیان ایسے گروہ پیدا ھوگئے ھیں جو اس بات کا دعویٰ کرتے ھیں کہ اولیاء اللہ کی کرامتوں میں سے ایک کرامت یہ بھی ھے کہ وہ اپنی زندگی یا موت کے بعد بھی بعض تصرفات کرسکتے ھیں مثلاً جو لوگ مشکلات اور پریشانیوں کے وقت ان سے استغاثہ کریں اور وہ ان کی مشکلات کو دور کردیتے ھیں، قبور کی زیارتوں کے لئے جاتے ھیں، اور وھاں جاکر طلب حاجت کرتے ھیں، اور ثواب کی غرض سے وہاں پر قربانی اور نذر وغیرہ کرتے ھیں۔
شیخ صنع اللہ یھاں پر اس طرح اپنا عقیدہ بیان کرتے ھیں کہ ان باتوں میں افراط وتفریط بلکہ ھمیشگی عذاب ھے اور ان سے شرک کی بو آتی ھے۔ (۴)
ابن سعود ذی الحجہ ۱۳۶۲ھجری میں مکہ معظمہ میں کی جانے والی اپنی تقریر میں کھتا ھے کہ ”عظمت اور کبریائی خداوندعالم سے مخصوص ھے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نھیں، اور یہ باتیں ان لوگوں کی ردّ میں ھیں جو پیغمبر اکرم (ص) کو پکارتے ہیں اور ان سے حاجت طلب کرتے ھیں، جبکہ ان کو کچہ بھی اختیار اور قدرت نھیں ھے اور تمام چیزیں خداوندعالم سے مخصوص ھیں، اور اسی کی عبادت ھونی چاھئے اور امید اور خوف اور تمنا خدا وندعالم میں منحصر ھیں اور آنحضرت (ص) کی بعثت اسی طرح دیگرانبیاء (ع)کی نبوت، صرف لوگوں کو توحید کا سبق پڑھانے کے لئے تھی۔(۵)
شیخ صنع اللہ کھتے ہیں کہ ظاھری اور معمولی کاموں میں استغاثہ جائز ھے،مثلاً جنگ، یا دشمن اور درندہ کے سامنے کسی سے مدد طلب کی جاسکتی ھے، لیکن معنوی امور میں کسی سے استغاثہ کرنا مثلاً انسان پر یشانیوں کے عالم میں ، بیماری کے، یا غرق ھونے کے خوف سے یا طلب روزی میں کسی دوسرے سے استغاثہ نھیں کرسکتا بلکہ ان چیزوں میں صرف خدا سے استغاثہ کرنا چاھئے اور کسی غیر خدا کا استغاثہ جائز نھیں ھے۔ (۶)
زینی دحلان صاحب محمد بن عبد الوھاب کے قول کو نقل کرتے ھیں کہ اگر کوئی شخص پیغمبر اسلام (ص) یا دوسرے انبیاء (ع)سے استغاثہ کرے یا ان میں سے کسی ایک کو پکارے، یا ان سے شفاعت طلب کریں تو ایسا شخص مشرکوں کی طرح ھے، پیغمبر اکرم (ص) اور دیگر انبیاء کی قبریں بھی خدا کے ساتھ شرک ھے، اور زیارت کرنے والے مشرکوں کی طرح ھیں جو بتوں کے بارے میں کھتے تھے:
"مَانَعْبُدُھمْ اِلاّٰ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللّٰہ زُلْفٰی "(۷)
”ھم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ھیں کہ یہ ھمیں اللہ سے قریب کردیں گے۔“
محمد بن عبد الوھاب قبور کی بارے مزید کھتے ھیں کہ جو لوگ قبور کی زیارت کے لئے جاتے ھیں ان کا شرک زمان جاھلیت کے بت پرستوں کے شرک سے بھی زیادہ ھے۔ (۸)
حوالہ جات:
۱۔ ثلاث رسائل، ص ۸.
۲۔ شفاعت کے موضوع پر”شفاعت قرآن واحادیث کی روشنی میں“
۳۔ جزیرة العرب فی القرن العشرین، ص ۳۳۹،۳۴۰.
۴۔ فتح المجید، ص ۱۷۳.
۵۔ ”اُمُّ القریٰ“ اخبار، چاپ مکہ، بتاریخ ۱۱ذی الحجہ ۱۳۶۲ئہ، شیخ محمد بن عبد الوھاب کھتا ہے کہ اصحاب پیغمبر آنحضرت ﷺ کے زمانے میں آپ سے دعا طلب کرتے تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد بالکل کسی نے یہ کام نھیں کیا، مثلاً کسی نے بھی آپ کی قبر کے پاس دعا نھیں کی، یھاں تک کہ پیغمبر اکرم ﷺ کی قبر کے پاس خدا کو پکارنے کو بھی ممنوع قرار دیا، (کشف الشبھات ص ۵۹)
۶۔ فتح المجید ،ص ۱۷۵.
۷۔ سورہ زمر، آیت ۳.
۸۔ کشف الشبھات ،ص ۴۷،۴۸.
شفاعت اور استغاثہ
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیوں کی فکری بنیادیں
- بازدید: 2393
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
5
Online