وھابیوں کے اذیت کنندہ اور خائنانہ اعتراضوں میں سے ایک یہ بھی ھے شیعہ مذھب کو یھودیوں سے منسوب ھے، اور تعجب کامقام تو یہ ھے کہ یھی وہ حربہ ھے کہ جسے ”گلدزیھر“جیسے یھودیوں کی خدمت کرنے والوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ھے اور ایک افسانہ عبدالله بن سبا کے نام سے بھی گڑھا ھے، اوراس میں اتنا زیادہ دروغ گوئی اورجھوٹ سے کام لیا گیا ھے کہ جسکی حد نھیں ، کبھی تو شیعہ مذھب کو مجوسیوں اور آتش پرستوں کی ایجاد کردہ بتایا ھے تو کبھی شیعہ مذھب کو یھودیوں کی ایجاد بتایاھے تو کسی جگہ پر ”فراماسیو نوں “( تھذیب و تمدن کا نعرہ لگانے والے) کاموجد بتایا گیا ھے ، جبکہ ان کے پاس اس بات کے لئے کوئی دلیل موجود نھیں ھے ، یہ ھے وھابیوں کا واقعی طریقہ کار کہ بغیر ثبوت کے بولتے اور کتابیں لکھتے ھیں اور ایسا ظاھر ھوتاھے کہ گویا انھوں نے شیعوں سے متعلق سارے مسائل اور حقائق کو عالَم غیب سے حاصل کیا ھے اسلئے کسی ثبوت کو پیش کرنے کی ضرورت نھیں سمجھتے۔
کسی بھی طرح کی کوئی تھمت لگانے میں دریغ نھیں کرتے ،اور نہ ھی کسی قسم کی کوئی سند اپنے ان شیطانی اور آزار دھندہ الزامات کے سلسلہ میں پیش کرتے ھیں، در اصل اس مذھب میں فکر اور اندیشہ کی حیثیت ،اوریہ ھے اسلامی وحدت کے شعار اور نعروں کی حقیقت ! اور یہ ھے آزادی و آزادطلبی کی صدا جو کعبہ سے بلند کی جاتی رھی ھے ،بلا وجہ اپنے مخالفین کی فکروں پر پردہ ڈالنا ، گالیاں دینا اور بے ھودہ الفاظ سے یادکرنا در حقیقت یہ ھے اصلاح کا نعرہ لگانے والوں ، توحید کے حامیوں ، دین کی نسبت فکرمند رھنے والوں اور اپنے سلف صالح کی فکروں کو زندہ رکھنے والوں کا طریقہ کار، آپ انصاف سے بتائےں کب پیغمبر(ص) کا طرز عمل ایسا تھا ؟ وہ رسول(ص) جو اپنے پیروکاروں کو غور وفکر ، تدبر اور دلیل سے کام لینے کا حکم دیتا ھے ” قُل ہَاتُوا بُرہَانَکُم اِن کُنتُم صَادِقِینَ۔“
یہ سیاہ قلب ، متعصب اور ملحد گروہ ، خدا کے دین کو اپنی ھوا و ھوس پر قربان کئے ھوئے ھے ، کسی قسم کی کوئی بھی تھمت لگانے سے دریغ نھیں کرتے ، اسی لئے کہتے ھیں کہ یہ مذھب فراماسونیوں کی ایجاد ھے ، جبکہ وہ بچہ بھی جو مذھب شیعہ کی الفباء کوجانتا ھو ، اس کو معلوم ھے کہ فقط شیعہ مذھب ھی وہ مذھب ھے جو پوری تاریخ میں ظالموں،خفیہ ایجنٹوں سامراجوں کی روٹیوں پر پلنے والوں ، ظالم حکومتوں اور رسول(ص) کی خلافت کو غصب کرنے والوں سے برسرپیکار رھاھے، اور تاریخ میں تجاوز کرنے والوں اور جلادوںسے جنگ کرتا رھاھے ، کیا فراماسیونوں کے ایسے ھی اعمال تھے؟کہ اپنے ھاتھوں ایک ایسا مذھب ایجاد کریں کہ جو خود انھیں سے ھمیشہ برسرپیکار رھے،شیعہ مذھب تو وہ مذھب حقہ ھے جس نے خود ھی فراماسونیوں اور ان کے نوکروں سے جھاد کیا ھے ،وھابی حضرات کی یہ بیھودہ اور باطل باتیں ھماری نظر میں اس قابل ھی نھیں کہ ان کے بارے میں بحث کریں لیکن صرف اسلئے کہ کسی کے ذھن میں کوئی شبہ باقی نہ رھے ، تھوڑی وضاحت کئے دیتے ھیں۔
شیعہ مذھب کا آغاز خود رسول اکرم(ص) کے زمانے سے ھوا
پھلی بار شیعہ مذھب کی ابتدا کی جب شیعہ ”علی (ع)کے شیعہ “ کے عنوان سے مشھور ھوئے ، خود رسول مقبول(ص) کے زمانہ میں ھوئی ۔
۲۳ سالہ اسلام کی دعوت اور پیشرفت کے پیش نظر ایسے حالات و اسباب وجود میں آئے کہ جسکی بناپر اصحاب(ص) کے درمیان اس شیعہ فرقہ کا وجود میں آنا ایک عادی اور لازمی بات تھی۔﴿١﴾
۱۔ قرآن مجید کے صریح اور واضح قول کے مطابق اوائل بعثت ھی میں خدا کی جانب سے رسول(ص) کویہ حکم ھوا کہ اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو اپنے دین کی طرف دعوت دو ، اسی وقت رسول(ص) نے صاف اور واضح لفظوں میں فرمایا:
”وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقرَبِیْنَ“(اپنے رشتہ داروں کو ڈراؤ﴾
” فرمایا: تم میں سے جو بھی میری دعوت اسلام پر لبیک کھنے میں پھل کرے وہ میرا وزیر ، جانشین اور خلیفہ ھوگا ، علی (ع) نے سب سے پھلے اس دعوت پر لبیک کھا اور دین اسلام کو قبول کیا ، رسول(ص) نے بھی آپ کے ایمان کی تصدیق فرمائی اور اپنے وعدے کو پورا کیا۔﴿۲﴾
جیساکہ یہ بات عادتاً محال و نا ممکن ھے کہ کسی نھضت اور قیام کرنے والے رھبر ، اپنے قیام کی ابتدامیں ھی کسی اپنے ھمایتی کو ، اپنے جانشین کے عنوان سے اعلان کرے ،جبکہ اس سے پوری طرح واقف نہ ھو، اور یہ ممکن نھیں کہ کسی کو اپنے جانشین کے عنوان سے پھچانے اور پھچنوائے ، لیکن اپنی پوری زندگی اس کی جانشین کا کوئی احترام نہ کرے اس کو دئے گئے وظائف جانشینی سے معزول رکھے اور اس کے اور دوسروں کے درمیان کوئی فرق نہ کرے ۔
حضرت علی علیہ السلام کاعلم اور آپ کی عصمت
رسول اسلام(ص) کی متواترہ احادیث میں ھے کہ جسے شیعہ اور سنی دونوں نے نقل کیا ھے ، یہ واضح لفظوں میں ملتا ھے کہ علی (ع) اپنے قول اور فعل میں خطا اور گناہ سے محفوظ ھیں۔﴿۳﴾
جوبھی علی (ع) کھیں یاکریں ، وھی دین ھے اور شریعت اسلامی کو آپ سے بھتر کوئی نھیں جانتاتھا۔﴿۴﴾
حضرت علی علیہ السلام کی فداکاریاں اور قربانیاں
حضرت علی علیہ السلام نے بھت اھم خدمات انجام دی ھیں اور حیرت میں ڈال دینے والی قربانیاں پیش کی ھیں مثال کے طور پر ھجرت کی شب﴿۵﴾ رسول مقبول(ص) کے بستر پر سونا، اور وہ جنگیں (بدر و احد ، خیبر اور خندق )جو آپ کے دست مبارک پر فتح ھوئی ھیں، ان جنگوں میں سے اگر کسی ایک میں بھی آپ کا وجود مبارک نہ ھوتا تو اسلام دشمنوں کے ھاتھوں پامال اور ھمیشہ کے لئے صفحہ ھستی سے ختم ھوجاتا ۔
غدیر خم کا واقعہ
یہ ، وہ واقعہ ھے کہ جس میں رسول الله(ص) نے علی (ع) کو اپنا جانشین بنایا اور اپنے اختیارات کو آپ کے سپرد کیا۔﴿٦﴾ ظاھر ھے کہ اسطرح کے فضائل کہ جسکے سامنے سبھی تسلیم تھے ۔﴿۷﴾
اور حضرت رسول اکرم(ص) کا علی علیہ السلام کی نسبت اظھار محبت کرناکچھ لوگوں پر بھت گران گذرتا تھا۔﴿۸﴾
جو مزید حسد اور بغض کا سبب بنتاتھا لیکن وہ اصحاب جو حقائق فضائل کے تشنہ تھے ، ان کے عشق میں اضافہ ھوتا تھا اور علی (ع)کی سیرت طیبہ کو اپنا نے کا جذبہ بڑہتا تھا ۔
ان تمام باتوں سے صرف نظر، خود رسول اسلام(ص) کے کلمات میں ” شیعہ علی “ اور ” شیعہ اھلبیت“ کثرت سے ملتا ھے ۔﴿۹﴾
ابن عباس فرماتے ھیں کہ یہ آیت :
” اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُولٰئِکَ ھم خَیرُالبَرِیَّةِ “
نازل ھوئی تو رسول اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:
” اس آیت سے مراد تم اور تمھارے شیعہ ھیں ،جوقیامت میں خوشحال ھوں گے اور خداوند عالم تم سے راضی ھے “ یہ دو حدیثیں ،جو ذکر ھوئیں اور اسکے علاوہ چند روایتیں ” الدّر المنثور“ نامی تفسیرکے جلد ۶ ص ۳۷۹ اور غایة المرام میں ص ۳۲۶ پر نقل ھوئی ھیں ۔
وہ اسباب کہ جنکی بناپر شیعوں کی اقلیّت ، سنّیّوں کی اکثریت سے جدا ھوئی اور اختلافات ظاھر ھوئے
اگر چہ ھماری بحث اس کتاب میں شیعوں کی شناخت اور شیعیت کی تاریخ سے متعلق نھیں لیکن وھابیوں کے اعتراضات کوردّ کرنے کے لئے ھم مجبور ھیں کہ کچھ شیعوں کی تاریخی حیثیت کا جائزہ لیں ۔
حضرت رسول اکرم(ص) اصحاب اور مسلمانوں کے درمیان ، حضرت علی علیہ السلام کی منزلت اور بزرگی اتنی پر واضح ومسلّم تھی کہ آپ کی محبّت کا دم بھرنے والے اور پیروی کرنے والے اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ رسول اسلام(ص)کی رحلت کے بعد آنحضرت(ص)کے جانشین اور خلیفہ حضرت علی علیہ السلام ھوںگے ، ظاھری حالات بھی ( سواء ے ان مسائل و اختلافات کے جو رسول(ص) کی بیماری کے دوران آخر عمر میں پیش آئے) ﴿١۰﴾]
پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے ا نتقال سے قبل ارشاد فرمایا : مجھے قلم اور دوات دو تاکہ تمھارے لئےحضرت علی علیہ السلام اور آپ کے اصحاب باوفا کے سامنے اس طرح ظاھر ھوئے کہ جو کرنا تھا کرچکے۔﴿١١﴾
لوگ کبھی گمراہ نہ ھو ، عمر نے( نوشتہ )لکھنے نہ دیا اور کھا (آپ پر) مرض اور بیماری کا غلبہ ھے (معاذالله) ہذیان بک رھے ھیں ، تاریخ طبری جلد ا ص ۳۳ا ، ، صحیح مسلم جلد ۵ ، البدایة و النھایة جلد ۵ ص ۲۲۷ اور شرح ابن ابی الحدید جلدا ص۳۳ا ، پر ملاحظہ فرمائیں ۔
بھتر ھے کہ ھمارے قارئین جان لیں ،ا گر چہ وھابی حضرات بے اطلاعی کا اظھار کرتے ھیں در اصل وہ حقیقت سے آگاہ ھوناھی نھیں چاھتے ، کہ یھی واقعہ خلیفہ اوّل ( ابو بکر ) کے مرض الموت کے وقت پیش آیا ، جب ابوبکر ، عمر کو اپنے بعد خلیفہ ھونے کے لئے وصیت کررھے تھے اور وصیت کرنے کے دوران بیھوش بھی ھوگئے لیکن اس موقع پر عمر نے کچھ بھی نہ کھا ، یعنی خاموش رھے اور خلیفہ اوّل ( ابوبکر ) کی طرف ھذیان کی نسبت نہ دی ،جبکہ دے سکتے تھے چونکہ وصیت کرنے کے دوران ھی ابوبکر بیھوش ھو گئے تھے ،جبکہ رسول خدا(ص) تو معصوم تھے اور آپ کا ارشاد گرامی بجا اور بموقع تھا ( در واقع رسول(ص) ، حکم الٰھی کی تکمیل فرما رھے تھے،روضة الصفاء ج۲ ص۲۶۰۔﴾
ان حالات میں حضرت علی علیہ السلام اور آپ سے عقیدت رکھنے والے جیسے عباس ، زبیر ، سلمان ، ابوذر ، مقداد اور عمار کفن ودفن رسول(ص) سے فراغت کے بعد باخبر ھوئے تو ان حضرات نے اعتراض کیا اور اس سلسلہ میں اعتراض آمیز جلسہ اور جلسات بھی کئے، تو اُدھرسے یہ جواب دیا گیا کہ مسلمانوں کی مصلحت اسی میں تھی ۔﴿١۲﴾
یھی وہ انتقاد اور اعتراض تھا کہ جس نے اقلیت کو اکثریت سے جدا کردیا اورحضرت علی علیہ السلام کی پیروی واطاعت کرنے والوں کو ” علی (ع)کے شیعہ “ کے نام سے پھچانا گیا ، خود ساختہ خلافت بھی وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ھوئے بھت ھوشیارانہ طور سے قدم اٹھارھی تھی کہ کھیں ایسا نہ ھو کہ اقلّیت”حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ کے نام “ سے مشھور ھوجائیں اور نتیجہ میں دوطرح کا سماج اقلیت و اکثریت کی شکل میں وجود میں آجائے بلکہ خود ساختہ خلافت تو اس بات کی کوشش میں تھی کہ اس غصبی خلافت کوبھی ایک اجتماعی حل سمجھ کر قبول کرلیں اس لئے اعتراض کرنے والوں کو بیعت کا مخالف اور مسلمانوں کی صف سے علیحدہ ھونے والا یا دوسر ے نازیبا اور برے القاب سے یاد کرتے تھے۔﴿١۳﴾
البتہ شیعہ حضرات پیغمبر اکرم(ص) کی وفات کے بعد ھی غاصب حکومت وقت کی سیاست کا شکار ھوگئے اور زبانی اعتراض کے علاوہ مزید کچھ نہ کرسکے اورحضرت علی علیہ السلام نے بھی اسلام اور مسلمین کی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے اور مخلصین افراد اور دوستوں کی قلّت کے پیش نظر تلوار نہ اٹھائی لیکن اعتراض کرنے والوں نے اپنے سچّے عقیدے کی بناپر اکثریت کے سامنے سرنہ جھکا یا اور پیغمبر(ص) کا حقیقی جانشین حضرت علی علیہ السلام ھی کو مانا اور اپنے علمی مسائل میں صرف حضرت علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرنے کو ھی صحیح سمجھا﴿١۴﴾اور اپنے علمی اور معنوی مسائل میں فقط حضرت علی علیہ السلام کی طرف رجوع کرتے رھے ، اور لوگوں کواس راہ پر چلنے کی دعوت دیتے رھے۔﴿١۵﴾
قارئین محترم یہ شیعہ مذھب کی پیدائش اورحضرت علی علیہ السلام کی پیروی کرنے والوں سے تاریخ کی مختصر لیکن جامع ورق گردانی تھی ( جو پیش کی گئی ) اور اب ھم وھابیوں کی ان تھمتوں اور بے بنیاد باتوں کا جائزہ لیں گے کہ جسکی یہ حضرات علی کے شیعوں کی طرف نسبت دیتے ھیں غورو فکر ” میں تمھارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑے جارھا ھوں اگر تم ان سے متمسّک رھوگے تو ھرگز گمراہ نہ ھوگے ( اور وہ ) قرآن اور میرے اھل بیت ھیں کہ جو قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ھوں گے“ یہ حدیث سو سے زیادہ سندوں کے ساتھ ۳۵ صحابیوں نے رسول اسلام(ص) سے نقل کی ھے اور بھتر ھے کہ وھابی حضرات کہ جو صحابہ کی پیروی کا دم بھرتے ھیں اور شدّت کے ساتھ ان صحابہ کی حمایت کرتے ھیں اسطرح کی حدیثوں کو غور سے پڑھیں کہ جس کو پیغمبر(ص) کے بڑے اور با فضیلت اصحاب نے نقل کیا ھے تاکہ مزید اپنی بے عزتی کا ثبوت فراھم نہ کریں اور محققین اور مؤمنین کو اس سے زیادہ زحمت میں نہ ڈالیں( ورنہ مزید رسوائی ھوگی )حدیث ثقلین کے راویوں کے سلسلہ سند کے ارزش مند کتاب بنام” غایة المرام کے ص اا۲ “کی طرف رجوع فرمائیں۔
البتہ اس کتاب میں واقعہ کی تفصیل پیش کرنا ھمارا مقصد نھیں ھے ورنہ مناسب تو یہ تھا کہ اس اھم مسئلہ سے متعلق کچھ مزید تفصیل پیش کی جاتی تاکہ حضرت علی(ع) اور آپ کی اولادکی مظلومیت بیان کرتے جو آج بھی پوری تاریخ میں مظلوم ھیں ، اور اب تک وھابیوں کی تھمتوں اور غلط بیانی کاشکار ھیں ۔
ھم صرف اتنا ھی کھنے پر اکتفاء کرتے ھیں کہ عبد الله بن سبا کا مسئلہ کہ جس کو وھابی اور ان کے ھم فکر حضرات ،شیعہ مذھب کا موسس اور بانی کھتے ھیں ، اسکی حقیقت ایک افسانہ سے زیادہ کچھ نھیں۔
اگر ھم عبدالله بن سبا نامی افسانہ کو حقیقت فرض کریں تب بھی شیعہ مذھب پر کوئی آنچ نھیں آسکتی اسلئے کہ یہ پاک و پاکیزہ مذھب خود رسول مقبول(ص) کے زمانہ سے ھے اور اسلام و قرآن کی نسبت حضرت علی علیہ السلام کے افکار کے سایہ میں رھنا ھی اس پاک و پاکیزہ شیعہ مذھب کا نصب العین ھے جسکی خود پیغمبر ، نے بارھا تائید اور تصدیق فرمائی ھے۔﴿١٦﴾
محققین اور مطالعہ کا ذوق رکھنے والے حضرات اس سلسلہ میں مزید تفصیل کے لئے گرانقدر اور ارزشمند کتاب بنام” عبدالله بن سبا و افسانہ ھای دیگر“ مؤلف محقق بزرگوار علامہ سید مرتضیٰ عسکری دام عزہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
حوالہ جات:
١۔ وہ افراد جو رسول اسلام(ص) کے زمانہ میں” علی (ع) کے شیعہ“ کے نام سے جانے جاتے تھے اور اس نام سے مشھور ھوئے جناب سلمان ، ابوذر ، مقداد اور عمار یاسر تھے۔ ( حاضر العالم اسلامی جلد ا ص ۸۸ا﴾۔
۲۔ اس حدیث کے ذیل میں ھے : حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ میں نے رسول خدا(ص)کی خدمت میں عرض کیا جبکہ میں سب سے چھوٹا ھوں لیکن آپ کی دعوت پر لبیک کھتا ھوں تو پیغمبر(ص) نے میری گردن پر اپنے دست مبارک کو رکھ کر فرمایا کہ یہ میرا بھائی، میرا وصی، میرا جانشین اورمیرا خلیفہ ھے، اسکی اطاعت کرو۔لوگ ھنسے، اور ابوطالب سے کھا کہ تمھیں حکم دیا گیا ھے کہ اپنے بیٹے کی اطاعت کرو۔ (تاریخ طبری جلد ۶۳ تاریخ الفداء جلد اص۱۱۶، البدایة و النھایةجلد ۳ ص ۳۹ ،غایة المرام ص ۳۲۰۔
۳۔ جناب ام سلمیٰ کھتی ھیں کہ رسول خدا(ص) فرماتے تھے علی (ع) ھمیشہ حق اور قرآن کے ساتھ ھیں اور حق و قرآن علی (ع) کے ساتھ ھیں اور قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ھوں گے یہ حدیث ۵ا /سندوں کے ساتھ اھل سنت کی کتابوں اور ااسندوں کے ساتھ شیعہ علماء کی کتابوں میں موجود ھے ، اور اس روایت کو نقل کرنے والے ابن عباس ، ابو بکر ، ابو ایوب انصاری ، حضرت علی علیہ السلام ، عائشہ ، ام سلمیٰ ، ابو سعید خدری ، ابو لیلیٰ ھیں ، جناب عائشہ مزیدکھتی ھیں کہ رسول(ص) نے فرمایا : خداوندا ! علی (ع) پر رحمت نازل کر، کہ حق ھمیشہ علی (ع) کے ساتھ ھے ، البدایة و النھایة جلد ۷ ص۳۶ ، عایة المرام بحرانی ص ۵۳۹سے لیکر ص ۵۴۰تک ۔
۴۔ حضرت رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ حکمت کے دس جزء ھیں ان میں سے نو جزء علی (ع) کے پاس ھیں اور ایک میں تمام لوگ شریک ھیں ۔
۵۔ جب کفار مکہ نے قصد کیا کہ رسول(ص) کو قتل کرڈالیں اور آپ کے گھر کے چاروں طرف جمع ھوگئے تو رسول خدا(ص) نے ( حکم خداسے) مدینہ منورہ کی طرف ھجرت کا ارادہ فرمایا ، اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ کیا آج کی شب تم میرے بسترپر سوسکتے ھو ؟ تاکہ ( کفار مکہ ) گمان کریں کہ میں سورھا ھوں اور اس طرح سے میں ان کے شرّ سے محفوظ رھوں، حضرت علی علیہ السلام نے رسول خدا(ص) کی اس تجویز پر اس خطرناک اورخوف زدہ ماحول میں دل و جان سے لبیک کھی ۔
٦۔ قارئین محترم حوالہ کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ھیں کہ جن کے نام ذیل میں ذکر کئے جارھے ھیں، اگر چہ ان کے علاوہ دسیوں کتابوں میں یہ حقیقتیں مرقوم ھیں جو حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں لکھی گئی ھیں:
ا۔ علی (ع) اھل سنّت کی کتابوں میں۔ ۲، آئینہ ھدایت در اثبات ولایت۔ ۳۔ فروغ ولایت ۴۔الصراط المستقیم۔ ۵۔ عقائد الانسان ۶۔ عمدة عیون صحاح الاخبار فی مناقب امام الابرار ۔ ۷۔مناقب ابن شھر آشوب وغیرہ ۔
غدیر خم سے متعلق روایت جسکو شیعہ وسنّی سبھی متّفقہ طور سے قبول کرتے ھیں اگر چہ ابن تیمیہ او راسکے بیٹے !محمدبن عبدالوھاب نے اپنی کتاب بنام ” ردّ بررافضہ “ ( شیعیت کی ردّ) میں اس حدیث کو معتبر نھیں جانا ھے اور علی (ع) کے حق مسلم سے چشم پوشی کی گئی ھے ، لیکن ۱۰۰سے زیادہ اصحاب رسول نے مختلف سندوں اور عبارتوں سے اس حدیث رسول اکرم(ص) کو نقل کیا ھے ، قارئین محترم مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔
غایة المرام ص ۷۹ ، عبقات الانوار حدیث غدیر سے متعلقہ جلد اور ” الغدیر “ جیسی گرانقدر کتابیں ۔
۷۔ تاریخ یعقوبی مطبوعہ نجف اشرف عراق جلد ۲ ص ۳۷اسے ۴۰اتک ۔ تاریخ ابو الفداء جلد اول ص۵۶ا، صحیح بخاری جلد ۴ ص ۰۷ا ، مروج الذھب مؤلفہ مسعودی جلد ۲ ص ۴۳۷ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلدا ص ا۶ا۔
۸۔ صحیح مسلم جلد ۵ ص ۷۶ا، صحیح بخاری جلد ۴ ص ۲۰۷، مروج الذھب مسعودی جلد ۲ ص۲۳ و ص ۴۳۷ ،تاریخ ابی الفداء جلد ا ص ۲۷ ا ، ا۸ا۔
۹۔ جابربن عبدالله انصاری فرماتے ھیں کہ ھم رسول(ص) کے پاس بیٹھے تھے دور سے حضرت علی علیہ السلام کی جھلک دکھائی دی تو رسول(ص) نے فرمایا کہ : جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے ، اسکی قسم کھاکر کھتا ھوں کہ یہ شخص (حضرت علی (ع)) اور اس کے شیعہ قیامت میں نجات پائیں گے ۔
١۰۔ حضرت رسول(ص) نے آخری عمر میں اپنی بیماری کے دوران ایک لشکر کو اسامہ بن زید کی سرداری میں مترتب کیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ سبھی مدینہ سے باھر جاکر اس جنگ میں شرکت کریں ، لیکن کچھ لوگوں نے پیغمبر(ص) کے اس حکم اور تاکید کی پیروی نہ کی ،ان میں سے ابوبکر اور عمر بھی تھے اس مسئلہ نے پیغمبر (ص) کو ( اس بیماری کی حالت میں ) بھت رنجیدہ کر دیااس مسئلہ کی تفصیل اور پیغمبر، کا مذکورہ مسئلہ سے متعلق ردّ عمل تاریخی کتابوں میں ملاحظہ کرسکتے ھیں مثلاً شرح ابن ابی الحدید مطبوعہ مصر جلد ا ص۵۳ ، ایک ایسا نوشتہ لکھ دو ںتا کہ قیامت تک تم اس بات کی عکاسی کر رھے تھے ، لیکن سبھی کی امیدوں کے بر خلاف جب رسول(ص) نے رحلت فرمائی اورابھی آپ کا جنازہ دفن بھی نہ ھونے پایا تھا ، اھلبیت (ع) اور کچھ اصحاب غمزدہ حالت میں تجھیزوتکفین میں مشغول تھے ، با خبر ھوئے کہ کچھ لوگوں نے اگرچہ بعد میں اکثریت انھیں کے ساتھ ھوگئی، اھلبیت (ع) اور آپ کے چاھنے والوں سے مشورت یا کسی قسم کی کوئی اطلاع دے بغیر مسلمانوں کی خیر خواھی کے نام پر بھت تیزی سے خلافت کا انتخاب کرلیا ھے ۔
١١۔ شرح نھج البلاغہ مؤلفہ ابن ابی الحدید جلد ا ص ۵۸ اور ص ۲۳ا سے ص ۳۵ا تک ، تاریخ یعقوبی جلد ۲ ص ۰۲ا، تاریخ طبرسی جلد ۲ ص ۴۴۵ سے ص ۴۴۶تک ، قارئین محترم اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کتاب بنام ” زندگانی علی (ع) “ مؤلفہ جناب رسولی محلّاتی کی طرف رجوع فرما سکتے ھیں ۔
١۲۔ تاریخ یعقوبی جلد ۲ ص ۰۳ا سے ص ۰۶ا تک ، تاریخ ابی الفداء جلد ا ص ۵۶ا اور ص۶۶ا ، مروج الذھب مسعودی جلد ۲ ص ۳۰۷ اور ص ۳۵۲، شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد اول ص ۷ا ، ۳۴ا۔
١۳۔ عمر بن حریث نے سعید بن زید سے سؤال کیا کہ کیا کسی نے ابوبکر کی بیعت کی مخالفت کی ؟ تو اس نے ( سعید بن زید نے ) جواب دیا : کسی نے بھی مخالفت نھیں کی سوائے ان افرادکے کہ جو مرتد ھو گئے تھے یامرتد ھونے کی منزل میں تھے ! تاریخ طبری جلد ۲ ص ۴۴۷۔
١۴۔ رسول اسلام(ص) سے مروی ھے کہ آنحضرت نے فرمایا : میں شھر علم ھوں اورحضرت علی علیہ السلام اس کے دروازہ ھیں، بس جو بھی علم کا طالب ھے اسے چاہئیے کہ دروازہ سے داخل ھو ، البدایة و النھایة جلد ۷ ص ۳۵۹ ۔
١۵۔ رسول اسلام(ص)، مشھور و معروف حدیث ” ثقلین “ میں فرماتے ھیں :
١٦۔ اس بحث کو قلمبند کرنے میں علامہ طباطبائی (رہ) کی گرانقدر کتاب بنام” شیعہ در اسلام“ سے کچھ توضیحات اور دخل و تصرف کے ساتھ استفادہ کیا گیا ھے۔
وھابیوں کا جھوٹا حربہ شیعہ مذھب کو یھودیوں سے منسوب کرنا
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: شبهات اوجوابات
- بازدید: 55746
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
9
Online