وہ مسائل جن کو وھابی حضرات سننے کی تاب نھیں رکھتے اور برداشت نھیں کر پاتے یھاں تک کہ اس کوشرک ، کفر اور بت پرستی شمار کرتے ھیں ، ان مسائل میں سے ایک مولا علی علیہ السلام کی محبت اور ولایت کا مسئلہ ھے ،
یہ سیاہ دل اور چمگا دڑصفت لوگ نور امامت سے ایسے گریزکرتے ھیں جیسے چمگادڑروشنی سے بھا گتے ھیں ،اور جھالت کے اندھیروں میں سرگرداں ھوکر ھاتھ پیر مارتے ھیں، مولا علی علیہ السلام سے محبت کا عقیدہ جو اھل سنّت حضرات کے یھاں حدیثوں میں بھی موجود ھے شدت سے انکار کرتے ھیں اور شیعوں پر لعنت وملامت،سب وشتم کے لئے زبان کھول دیتے ھیں، ھم یھاں پر ضروری سمجھتے ھیں کہ اس سلسلہ میں مختصر طور پر وضاحت کریں اور بتائیں کہ حبّ علی (ع) سے متعلق شیعوں کا کیا عقیدہ ھے تاکہ معلوم ھو جائے کہ رسول(ص) کی حقیقی پیروی کرنے والا کون ھے ؟ وھابیوں کامتعصب اور خوارج صفت گروہ؟! یا پاک دل اور حقیقت کی تلاش کرنے والے شیعہ جو دلیل و برھان کے علاوہ کوئی بات ھی نھیں کرتے ؟
استاد شھید مطھری (رہ) عشق ، محبت اور عاطفہ کے متعلق بحث کرتے ھوئے مذکورہ مسئلہ اور عقیدہ کے بارے میں ایک عمیق اور دقیق فلسفی، تحلیل اور بررسی کرتے ھوئے فرماتے ھیں کہ ( اب ھمیں یہ دیکھنا چاھئے کہ کیا اسلام اور قرآن نے ھمارے لئے کوئی محبوب منتخب کیا ھے یا نھیں ؟ ﴾
اسکے بعد حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے بارے میں ایک مفید اور جذّاب بحث کرتے ھیں نیز اس کے اثرات کے متعلق بیان فرماتے ھیں کہ ھم اس بحث کی افادیت اور گھرائی اور مستند ھونے کے پیش نظر یھاں پر نقل کرتے ھیں تاکہ قارئین اور قدردانوں کے اذھان روشن ھوں اور محبان علی (ع) اور اولاد علی (ع) کو خوشنود کرتے ھوئے وھابیوں اور وھابی مسلک افراد کے لئے دندان شکن جواب بھی ثابت ھوسکے۔
حضرت علی علیہ السلام کی محبت قرآن اور سنّت کی روشنی میں
قرآن مجید گذشتہ انبیاء (ع)کے اقوال کو بیان کرتے ھوئے فرماتا ھے کہ سارے انبیاء (ع)نے یہ کھا ھے کہ” ھم لوگوں سے کوئی اجرت اور بدلہ نھیں چاھتے ھمارا اجرتو فقط خدا پر ھے ) لیکن خداوندعالم پیغمبر اسلام(ص) کوخطاب کرتے ھوئے فرماتا :
” قُل لَااٴَسئَلُکُم عَلَیہِ اَجراً اِلاَّالمُوَدَّةَ فِی القُربَیٰ “﴿١﴾
”اے ھمارے رسول کھدو کہ: ھم تم سے اپنے اقرباء کی محبت کے سواء کوئی بدلہ یا کوئی اجرت نھیں چاھتے “
یھاں پر یہ سؤال پیدا ھوتا ھے کہ جب کسی نبی نے کسی طرح کی اجرت کامطالبہ نھیں کیا تو پھر نبی اکرم(ص) نے اپنی رسالت پر اجرت کا مطالبہ کیوں فرمایا اور لوگوں کو اجررسالت کے عنوان سے اپنے قریبی عزیزوں کی محبت کامطالبہ کیوں کیا ؟
قرآن کریم خود ھی اس سؤال کا جواب دیتاھے:
” قُل مَا سَئَلتُکُم مِن اَجرٍ فَھوَ لَکُم اِن اَجرِیَ اِلّٰاعَلَی اللهِ “﴿۲﴾
اے ھمارے رسول کھدو کہ: میں نے جس اجرت کا تم سے مطالبہ کیا ھے اسکا فائدہ خود تم کو ھی پھونچنے والاھے اسلئے کہ میرا اجر تو فقط خدا پرھے ۔
یعنی وہ چیز جس کا مطالبہ میں نے اجر رسالت کے عنوان سے کیاھے اسکا فائدہ تم ھی کو پھونچنے والاھے نہ کہ مجھکو، یہ محبت اور دوستی خود تمھاری اصلاح اور کمال حقیقی تک پھونچنے کے لئے وسیلہ کے مانند ھے ، اسکا فقط نام اجرت ھے ورنہ حقیقت میں ایک خیر اور نیکی تمھیں دی جارھی ھے۔
چو نکہ اھلبیت (ع) اور رسول(ص) کے اقرباء وہ افراد ھیں جن کا دامن ھرطرح کی رجس اور آلودگی سے پاک اور پاکیزہ ھے ( حُجُورٌ طَابَت وَطُھرَتْ) ۔ (
ان سے عشق و محبت اور شیدائی ھونے کا نتیجہ فضائل کی پیروی اور حق کی اطاعت کے علاوہ اور کیاھوسکتا ھے ، یہ انھیں کی دوستی اور محبت ھی ھے جو دلوں کوفولاد بنادیتی ھے ، اور ایمان کو کامل کرنے کا سبب بنتی ھے قربیٰ سے مراد کچھ بھی لیا جائے مگر یہ بات مسلم ھے کہ قربیٰ کا سب سے عظیم اور روشن مصداق مولاعلی (ع) کی ذات گرامی ھے۔
فخر رازی کا بیان ھے : زمخشری نے اپنی” تفسیر الکشاف “ میں روایت نقل کی ھے کہ جب یہ آیت نازل ھوئی تو لوگوں نے عرض کیا: یا رسول الله(ص) آپ کے کن عزیز اقرباء کی محبت ھم پر واجب کی گئی ھے وہ کون لوگ ھیں ؟ آنحضرت(ص) نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا علی (ع)و فاطمہ(ع) اور ان کے فرزند۔
اس روایت سے یہ بات ثابت ھو جاتی ھے کہ یہ چار افراد پیغمبر(ص)کے اقرباء ھیں اور ان سے دوستی رکھنا اور ان کا احترام کرناتمام مسلمانوں پر واجب ھے اس بات پر بھت سے طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ھے :
١۔ اس آیہٴ کریمہ کے ذریعہ” اِلاَّالمُوَدَّةَ فِی القُربیٰ“
۲۔ بغیر کسی شک و تردید کے کہ ( رسول اسلام(ص) فاطمہ زھرا (ع)کو بھت زیادہ چاھتے اور نھایت عزیز رکھتے تھے ، آنحصرت(ص) فرماتے تھے کہ فاطمہ(ع) میرے جگر کا ٹکڑا ھے جس نے فاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی، اسی طرح رسول اسلام(ص) حضرت علی (ع) اور حسنین (ع) سے بے حد محبت کرتے تھے اس سلسلہ میں بھت سی متواتر روایات وارد ھوئی ھیں لہٰذا ان کی دوستی اور محبت تمام امّت پر واجب اور لازم ھے چونکہ یہ سنّت پیغمبر(ص) ھے اور رسول اسلام (ص) کی اطاعت اور پیروی ھر مسلمان پر واجب ھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے :
” وَاتَّبَعُوہُ لَعَلَّکُمْ تُھتَدُونَ “
”پیغمبر کی پیروی کرو شاید ھدایت پا جاوٴ“
اور دوسری جگہ پر ارشاد ھوتا ھے:
” لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ “﴿۳﴾
یعنی خدا کا رسول تمھارے لئے سرمشق اور نمونہ عمل ھے ،مذکورہ آیتیں آل محمد ( علی (ع) فاطمہ حسن (ع) وحسین (ع) ) کی دوستی پر دلالت کرتی ھیں اور یہ بتاتی ھیں کہ ان کی دوستی تمام مسلمانوں پر واجب ھے اور اسی طرح رسول(ص) کی علی (ع) سے محبت اور دوستی کے متعلق بھت سی حدیثیں اور روایات وارد ھوئی ھیں،جیسے:
ا۔ ابن اثیر سے منقول ھے کہ رسول اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کرتے ھوئے ارشاد فرمایا: یا علی (ع)! خداوند عالم نے ( آپ) کو ایسی چیزوں سے مزین کیا اور زینتوں سے نواز ا کہ بندوں کے پاس اور کوئی زینت اس سے زیادہ محبوب نھیں : دنیا سے کنارہ کشی اور زھد کے ایسے مقام پر قرار دیا کہ نہ دنیا تمھیں فریب دے سکتی ھے نہ تم سے بھرہ مند ھو سکتی ھے ، تمھیں الله نے مسکینوں سے دوستی اور محبت عطا کی ھے وہ تمھاری امامت پر خوش ھیں اورتم ان کی فرمانبرداری پر ،اورخوش نصیب ھے وہ شخص جو تم سے محبت کرے اورتمھاری دوستی پر باقی رھے اوربد نصیب ھیں وہ لوگ جو تم سے دشمنی کریں، اور تمھارے خلاف جھوٹ بولیں اور کذب و افتراء سے کام لیں ۔
۲۔ سیوطی نے روایت کی ھے کہ رسول(ص) نے فرمایا :
”حضرت علی علیہ السلام کی دوستی اور محبت ایمان ھے اور ان سے دشمنی کرنا نفاق ھے“
۳۔ ابو نعیم سے روایت ھے کہ حضرت رسول(ص) نے انصار کومخاطب کرتے ھوئے فرمایا کیا تمھیں ایسی چیز کی طرف ھدایت کروں کہ اگر اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور اس راہ پر گامزن رھو ھرگز گمراہ نھیں ھوسکتے ؟ سب لوگوں نے عرض کیا :ھاں یارسول الله(ص) ھم یھی چاھتے ھیں تب آنحضرت نے ارشاد فرمایا : یہ علی (ع) ھیں ان سے محبت کروجس طرح سے مجھ سے محبت کرتے ھو ان کا احترام کرو، جیسے میرا احترام کرتے ھو اسلئے کہ خدا وند عالم نے جبرئیل (ع)کے ذریعہ مجھے یہ حکم بھیجا ھے کہ میں یہ پیغام تم لوگوں تک پھونچا دوں ۔
اسکے علاوہ اھل سنّت نے اور بھت سی روایتیں رسول اکرم(ص) سے نقل کی ھیں ان روایات میں علی (ع) کے چھرے کی طرف دیکھنا عبادت ھے یھاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام کے متعلق گفتگو کو بھی عبادت میں شمار کیاگیا ھے:
ا۔ طبری نے حضرت عائشہ سے روایت کی ھے کہ وہ کھتی ھیں کہ میں نے اپنے باپ کوحضرت علی علیہ السلام کے چھرے کی طرف بھت زیادہ نظر کرتے ھوئے دیکھا، تو میں نے عرض کی : بابامیں دیکھ رھی ھوں کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کے چھرے کی طرف بھت زیادہ دیکھا کرتے ھیں ؟ تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ بیٹی میں نے پیغمبر اسلام(ص)سے سنا ھے کہ ”علی (ع) کے چھرے کی طرف دیکھناعبادت ھے“
۲۔ ابن حجر نے حضرت عائشہ سے روایت کی ھے کہ آنحضرت(ص)نے ارشاد فرمایا ، میرے بھایئوں میں سب سے بھترین بھائی علی(ع) اور چچاؤں میں سب سے بھتر چچا حمزہ ھیں علی (ع)کی یاد اور ان کا تذکرہ عبادت ھے خداوند عالم اور رسول خدا(ص)کے نزدیک سب سے محبوب شخص حضرت علی (ع) ھیں لہذاکائنات کی سب سے محبوب شخصیت حضرت علی علیہ السلام کی ذات ھے ۔
۳۔ انس بن مالک کا بیان ھے ( کہ پیغمبر اسلام(ص) کایہ روزمرّہ کا معمول تھا ) کہ ھر روز انصار میں سے کوئی ایک شخص آنحضرت(ص)کے روزمرّہ کے کاموں کو انجام دیتا تھا ایک دن میری باری تھی ، ام ایمن پیغمبر(ص) کی خدمت میں ایک بُھنا ھوا پرندہ لے کر حاضر ھوئیں اور عرض کیا:
میں نے اس پرندہ کا خودشکار کیا ھے اور آپ ھی کے لئے پکاکر لائی ھوں ، آنحضرت(ص) نے خدا کی بارگاہ میں دعا کی : پروردگار! اپنے سب سے محبوب بندے کو بھیج تا کہ اس طعام میں میرا شریک ھوسکے ، ابھی دعا ختم بھی نہ ھونے پائی تھی کہ دقّ الباب ھوا تو آنحضرت(ص)نے فرمایا:
دروازہ کھولو ،جب میں دروازہ کھولنے گیاتومیں نے خدا سے دعا کی یا الله یہ آنے والا شخص انصار سے تعلق رکھتا ھو لیکن جب میں نے علی کو دروازہ پر دیکھا تویہ کہہ دیا کہ رسول (ص) کسی کام میں مشغول ھیں اور یہ کہہ کر اپنی جگہ پر کھڑا ھوگیا ، کچھ دیر کے بعد دوبارہ دقّ الباب ھوا حضرت نے پھر فرمایا دروازہ کھولو ، اس وقت بھی میں نے یھی دعا کی کہ خدا یا کوئی شخص انصار سے آیا ھو، دروازہ کھولا تو دیکھا پھرحضرت علی (ع) تشریف لائے ھیں۔
میں نے دوبارہ وھی کھا کہ رسول(ص) کسی کام میں مشغول ھیں یہ کہہ کر دوبارہ اپنی جگہ پر آگیا ، پھر جب تیسری مرتبہ دقّ الباب ھوا، تو آنحضرت(ص)نے ارشاد فرمایا انس! جاوٴ، اور دروازہ کھولو اور ان کو اندر آنے دو ،تم پھلے شخص نھیں ھوجو اپنی قوم کا خیال رکھتے ھو ، جاؤ وہ انصار میں سے نھیں ھیں ، میں دروازہ پر گیا اورحضرت علی (ع) کو بیت الشرف میں لے آیا ،آنحضرت(ص)نے علی (ع) کے ساتھ یہ بھنا ھوا پرندہ نوش فرمایا۔﴿۴﴾
مجھے نھیں معلوم کہ ان تمام احادیث اور روایتوں کے باوجود بھی کیوں وھابیوں کے لئے انکار اور شک وشبہ کی گنجایش باقی رہ جاتی ھے ؟
گمراھی اورضلالت میں غرق لوگ کیونکہ عقل کے فیصلے اورتقاضوں کے مطابق اپنے منحرف ، باطل اور فاسد افکار کو چھوڑ کر سیدالعارفین ،مولاالموحدین امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی امامت اور نور محبت سے اپنے تاریک دلوں کو روشن اور منور کرسکتے ھیں؟
حوالہ:
١۔ سورہ شعراء آیت ۲۳۔
۲۔ سورہ سباٴآیت۴۷۔
۳۔ سورہ ممتحنہ آیت نمبر ۶۔
۴۔ اس حصہ کی تحریر میں ھم استاد شھید مطھری (رہ) کی کتاب ”دافعہ علی (ع) “ سے استفادہ کیا ھے، قارئین کرام مزید آگاھی کے لئے درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں: ۱۔علی در کتب اھل سنت ۔ ۲۔فروغ ولایت۔ ۳۔آئینہ ھدایت در اثبات ولایت۔ ۴۔مناقب ابن شھر آشوب۔