دس دسمبر 1948 سے ھر سال پوری دنیا عالمی یوم حقوق انسانی کا اھتمام کرتی ہے۔ اس دن کی مناسبت سے حقوق انسانی کے بینر تلے مختلف قسم کے رنگا رنگی پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں ۔
ماھرین سماجیات سیمینار و کانفرنس میں شریک ھوکر حقوق انسانی کے مختلف پھلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں ، اخبارات کے ادارتی صفحات سے لیکر کالم تک میں ھر جگہ بس یھی ایک عنوان نظر آتا ہے۔ ھر سال ۱۰ دسمبر کو ایسا محسوس ھوتا ھیکہ گویا آج پوری دنیا حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے بیدار و حساس ہے ، لیکن افسوس کہ بس ایک دن کے لئے ھماری یہ حساسیت و بیداری اپنے افق پر ھوتی ہے اور اس کے بعد حقوق انسانی کے تئیں ھماری یہ حساسیت و بیداری نفاق کے گھنے بادلوں میں کھو کر کھیں گم ھو جاتی ہے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ مادہ پرستی کے اس دور میں انسانی جبلت میں یہ چیزشامل ھوتی جا رھی ہے کہ وہ زبان سے کھتا کچھ اور ہے کرتا کچھ اور ہے ، قول و عمل کے اسی تضاد کو نفاق کھا جاتاہے۔
بد قسمتی سے حقوق انسانی کا تصور بھی اسی نفاق کی زد میں آ گیا ہے ۔ چنانچہ حقوق انسانی کی سب سے زیادہ وکالت وھی لوگ کرتے نظر آ رھے ہیں جنھوں نے سب سے زیادہ حقوق انسانی کی پامالیاں کی ہیں، یورپ جس نے خود کو ھمیشہ سے ھی حقوق انسانی کے تحفظ کا سب سے بڑا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، اس کی سیاہ تاریخ یہ بتاتی ھیکہ کہ کس طرح اس نے حقوق انسانی کی دھجیاں اڑائی ہیں ۔
بات چاھے انسانی جانوں کے تحفظ کی ھو یا آزادی نسواں کی ، حقوق انسانی کے یوروپی نظریہ میں منافقت صاف نظر آتی ہے ۔ اس نظریہ کی رو سے جھاں ایک طرف مشرق وسطیٰ میں انسانی لاشوں کے ڈھیر لگا دئے جاتے ہیں تو وھیں دوسری طرف آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کو برھنہ کر کے بازار میں اتار دیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ھیکہ دنیا کو حقوق انسانی کا عالمی منشور دینے والی عالمی تنظیم اقوام متحدہ کو بھی یہ یوروپی نفاق نظر نھیں آتا۔ اسے معصوموں کی چیخیں سنائی نھیں دیتی ، مادہ پرستی کے اس دور میں اخلاقی زوال نظر نھیں آتا، تو پھر عام ذھن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ حقوق انسانی کا یہ کیسا عالمی منشور ہے جس پہ صحیح طریقے سے عمل درآمد نھیں کیا جا سکتا؟
جو محض خیالی ہے اور جس کی حقیقت کچھ بھی نھیں ہے، اگر اس پہ عمل درآمد ممکن نھیں ہے تو پھر اسے اتنی اھمیت کیوں دی جا رھی ہے ؟
تقریباً سات دھائیوں سے ھرسال ۱۰ دسمبر کو یوم حقوق انسانی کے طور پر اتنے اھتمام سے کیوں منایا جاتاہے؟ اور پھر یہ سوال حقوق انسانی کا عالمی منشور بنانے والی تنظیم اقوام متحدہ کو سرخ دائرہ میں لاتا ھیکہ آخر کیا وجہ ہے کہ منشور کے وجود میں آنے کے بعد سے لیکر اب تک ان لوگوں کو سزا نھیں دی گئی جنھوں نے کھلے عام ان حقوق کی پاما لیاں کی ہیں؟
حقوق انسانی کے عالمی منشور پرمزید تبصرہ کرنے سے پھلے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پس منظر کو ذھن میں رکھا جائے جو اقوام متحدہ کے وجود کاسبب بنا اور جس سے آپ لوگ بخوبی واقف ہیں کہ دوسری عالمی جنگ میں انسانی جانوں کی ھلاکت اور انتھا درجے کی سفاکیت و قتل و غارت گری سے جب پوری دنیا کراہ اٹھی تو ۱۹۴۵ میں اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا، اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے درمیان کافی بحث و مباحثہ کے بعد ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ کو ۳۰ دفعات پرمشتمل بین الاقوامی امن چارٹر منظور کیا گیا ۔ جس میں شخصی، شھری، سیاسی اور معاشی آزادی نیز اقوام متحدہ کے رکن ممالک کیلئے معاشی، سماجی و تھذیبی حقوق تسلیم کئے گئے،
آج اس منشور کے وجود میں آنے کے سات دھائیوں بعد بھی حقوق انسانی کی بازیابی نھیں ھو سکی، اور نہ اس کے تحفظ کے سمت کوئی مثبت اقدامات ااٹھائے گئے، ۲۱ویں صدی کی اس ترقی یافتہ دنیا میں آج بھی نسان بھوکوں مر رھے ہیں ، غلامانہ زندگی جینے پر مجبور ہیں، اخلاقی زوال اپنے عروج پر ہے، جھالت عام ہے، عورتیں طرح طرح کے استحصال کا شکار ہیں، کمزور ممالک طاقتور ممالک کے ظلم و جبر کا نشانہ بنے ھوئے ہیں، آج بھی انسانیت کراہ رھی ہے، چیخ رھی ہے لیکن اس چیخ و پکار کو سننے والا کوئی نھیں ہے۔
اس میں شک نھں کہ اقوام متحدہ نے اگر پوری ایمانداری سے اس منشور کانفاذ کیا ھوتا تو آج عالم انسانیت امن کا گھوارہ بن جاتی ۔ بد قسمتی سے یہ عالمی تنطیم بھی اسی نفاق کا شکار ھو گئی جس کا میں نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے اور جس کے مطابق جھاں وہ ایک طرف مغربی ممالک کو حقوق انسانی کی پامالیوں کی کھلی چھوٹ دیتی ہے تو وھیں دوسری طرف پوری دنیا میں امن کا پیغام بھی دیتی ہے اور حقوق انسانی کے تحفظ کے لئے مختلف قسم کے پروگرام بھی لانچ کرتی ہے۔
اب جبکہ ساری دنیا کے سامنے اقوام متحدہ کے عالمی منشور کا سچ واضح ھو چکا ہے اور اس کے نفاق سے پردہ اٹھ چکا ہے تو اب عصر حاضر کے تناطر میں یہ چند اھم سوالات قابل غور نظر آتے ہیں کہ آخر آج کی اس مظلوم انسانیت کو انصاف کھاں سے ملے گا؟ حقوق انسانی کے تحفظ کی ذمہ داری کس ادارے کو سونپی جائیگی؟ حقوق انسانی کے تحفظ و بقاء کیلئے از سر نو اصول و ضوابط کون ترتیب دیگا؟ اور ان اصول وضوابط کی بنیاد یا اس کا ماخذ کیا ھوگا؟
ظاھر ہے کہ ان سارے مسائل کا حل صرف ایک ہی عالمی منشور میں موجود ہے جسے ۱۴ سال قبل محسن انسانیت نے عرفات کے میدان میں اپنے آخری خطبے کے دوران پیش کیا تھا، محسن انسانیت نے ایسے وقت میں حقوق انسانی کی بات کی تھی جب یورپ تو مکمل اندھیرے میں تھا ھی اس وقت کے ایران و روم جیسی روشن خیال ریاستیں بھی حقوق انسانی کی اصطلاحات سے نا آشنا تھیں۔ اور پھر یہ کہ اسلام نے دنیا کے سامنے جو عالمی منشور پیش کیا وہ کسی فکری کشمکش ، انقلابات زمانہ اور تحریکوں کے نتیجے میں ظھور پذیر نھیں ھوا بلکہ حقوق انسانی کے تمام اصول و احکام وحیء الٰھی سے ماخوذ ہیں اور جس کی نظیر دنیا کی کوئی قوم پیش کرنے میں اب تک ناکام ہے وحی الٰھی سے ماخوذ اس عالمی منشور میں جو خصووصیات شامل ہیں اس سے اقوام متحدہ کا امن چارٹر اور دیگر حقوق انسانی کے اداروں کے قوانین محروم ہیں ۔
اسلام نے حقوق انسانی کے تحفظ وبقاء کیلئے لوگوں کی ذھن سازی اس طرح کی ہے کہ وہ خود کو ھر حال میں معبود حقیقی کے سامنے جوابدہ سمجھے ، انسانی حقوق کی پامالی کا خیال آتے ھی اس کے ذھن میں یہ سوال اٹھے کہ وہ خدا کو کیا جواب دیگا؟
محسن انسانیت نے حقوق انسانی کی بنیاد احسان پر رکھی ہے اور جس کی وضاحت کرتے ھوئے نبی(ص) نے فرمایا کہ احسان یہ ھیکہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رھے ھو اور اگر تم اللہ کو نھیں دیکھ سکتے تو کم از کم یہ تصور ضرور کرو کہ اللہ تمھیں دیکھ رھا ہے۔
ظاھر ہے کہ اس مقام پر کھڑے ھو کر انسان حقوق کی پامالی کا تصور بھی نھیں کر سکتا۔ چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ احسان کے اس فلسفہ نے نہ صرف یہ کہ حقوق انسانی کی پامالیوں پر قد غن لگایا بلکہ حقوق انسانی کی پامالی کے مرتکبین کو بھی یہ حساسیت فراھم کی کہ وہ خود اپنے جرم کا اقرار کریں اور خود ھی اپنے لئے سزا کی مانگ کریں۔
اسلام نے حقوق انسانی کے تحفظ کا جو عالمی منشور بنایا اس کے نفاذ میں اس حد تک حکمت عملی سے کام لیا کہ چند سال کے عرصے میں ھی عرب ممالک کے ھر خطے میں امن و اماں کی فضا قائم ھو گئی۔
قرآنی آیات کے ذریعہ انسانی جانوں کے تحفظ کی اھمیت پر زور دیا گیا اور یہ پیغام عام کرنے کی کوشش کی گئی کہ جس نے ایک انسان کا خون بھایا گویا اس نے ساری انسانیت کا خون بھایا اور جس کسی نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی۔
صحابۂ کرام نے حقوق انسانی کے اسلامی منشور کے مطابق آزادی اظھار رائے کی کی ایسی مثال پیش کی کہ جھاں ایک عام آدمی خلیفۂ وقت سے بھرے مجمع میں سوال کرتا ہے اور امیرالمو منین کی پیشانی شکن آلود نھیں ھوتی ہے۔ اتنا ھی نھیں حقوق انسانی کا اسلامی منشور جس کا ماخذ قرآن وسنت ہے آزادی نسواں و حقوق نسواں پر اس قدر زور دیتا کہ جس کی مثال نہ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں ملتی ہے اور نہ قیصرو کسریٰ کے تاریخی شواھد میں۔ اسلام نے عورتوں کو یہ مرتبہ دیا کہ اگر وہ ماں ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت بتایا، اگر وہ بیٹی ہے تو اس کی صحیح پرورش و پرداخت پر جنت کی بشارت دی ، اگر وہ بیوی ہے تو اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی ھدایت د ی ۔
اسلام سے پھلے اور نہ اسلام کے بعد دنیا میں کوئی ایسا منشور بنا جس نے ماں کو اتنی عظمت دی ھو، بیٹیوں کو اتنی اھمیت دی ھو اور بیویوں کو اتنی عزت دی ھو۔ عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نظر کو سمجھ لینے کے بعد آزادی نسواں کا یوروپی تصور کس قدر گھٹیا و بے بنیاد نظر آتاہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ حقوق انسانی کے اسلامی منشور میں آخر ایسی کیا بات ہے جو اسے دنیا کے دوسرے منشور کے مقابلے زیادہ موثر و ممتاز بناتی ہے تو اس کا جواب محض ایک جملے میں یہ ھیکہ حقوق انسانی کے اسلامی منشورکے نفاذ میں کبھی نفاق سے کام نھیں لیا گیا ۔ یہ ایک ایسا منشور ہے جس میں خلیفہ وقت سے لیکر عام آدمی تک ہھر کسی کے لئے یکساں قانون ہے ، یہ ایک ایسا منشور ہے جس کا مرتب خود اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اگر محمد(ص) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس کے ھاتھ کاٹے جائیں گے۔ تو بھلا یہ منشور موثر و ممتاز کیوں کر نہ ھو؟ اس کے نفاذ سے سماج میں انصاف وامن و اماں کیوں کر قائم نہ ھو؟
آج عالم انسانیت کو اسی منشور کی ضرورت ہے تب ھی اس دنیا میں امن قائم ھو سکتا ہے اور ایک ایسے معاشرہ کی تعمیرھو سکتی ہے جھاں ھر کوئی خود کو محفوظ محسوس کر ے اور نہ اسے کسی جابر کے جبر کا خوف ھو اور نہ کسی ظالم کے ظلم کا ۔ ایسا نھیں ھیکہ اس طرح کا معاشرہ محض خیالی ہے بلکہ تاریخ میں ایسے معاشرے کی حقیقی مثال خلفائے راشدین کے زمانے میں موجود ہے۔بس ضرورت اس بات کی ھیکہ بغیر کسی مذھبی تعصب کے اس حقیقی و مثالی معاشرہ کا مطالعہ کیا جائے ۔
حقوق انسانی کا عالمی منشور اور سسکتی و کراھتی انسانیت
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: اسلام اور حقوق انسان
- بازدید: 5999
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
4
Online