عصر حاضر میں دور قدیم کے مقابلے میں بالکل مختلف معاشی نظام نے جنم لیا ہے۔ دور قدیم میں پوری معیشت زراعت کے گرد گردش کیا کرتی تھی۔ تجارت کا انحصار بھی زراعت ہی پر ہوا کرتا تھا۔ صنعت نہایت ہی ابتدائی درجے کی ہوا کرتی تھی۔
صنعتی اور مشینی انقلاب کے بعد بڑی بڑی جائنٹ اسٹاک کمپنیاں بنانے اور کاروبار کو عالمی سطح پر پھیلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1990ء میں کمیونزم کے زوال کے بعد معاشی میدان میں عالمگیریت کا رجحان بہت تیز ہو چکا ہے۔ دور حاضر کی اہم معاشی تبدیلیاں یہ ہیں:
معلوماتی انقلاب (Information Revolution)
کمپیوٹر اگرچہ بیسویں صدی کے وسط میں ایجاد ہو چکا تھا لیکن اسے عوامی سطح پر عام کرنے کا عمل 1980ء کے عشرے میں شروع ہوا۔ اس وقت محض کمپیوٹر آپریٹر ہونا بہت بڑی بات ہوا کرتی تھی مگر اکیسویں صدی کے آغاز تک یہ ہر گھر بلکہ ہر شخص کی ضرورت بن گیا۔ اس ایجاد کی بدولت دنیا میں معلوماتی انقلاب کا آغاز ہوا۔
اس معلوماتی انقلاب نے زندگی کے تمام شعبوں میں بڑی تبدیلی برپا کی ہے۔ کاروبار، بینکنگ، ابلاغ عامہ، کھیل اور تفریح، دوستی اور گپ شپ، رشتے داریاں، پراجیکٹ مینجمنٹ، قانون، طب، انجینئرنگ غرض ہر کام میں کمپیوٹر کا استعمال اس درجے تک پہنچ چکا ہے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کا اثر ہماری روزمرہ کی زندگی پر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔
اس تبدیلی کا منفی پہلو بے حیائی اور تشدد کے رجحانات کا فروغ ہے۔ دور قدیم میں جس طرح شرک ایک عالمگیر برائی کی حیثیت رکھتا تھا وہی حیثیت اب بے حیائی کو حاصل ہو چکی ہے۔ جدید ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ کو اس برائی کو پھیلانے کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
معلوماتی انقلاب کا مثبت پہلو یہ ہے کہ نیکی کو پھیلانے کے لئے پہلے جو کام تقریباً ناممکن تھے، وہ اب بہت آسان ہو چکے ہیں۔ کسی مذہبی مبلغ یا مصلح کو پہلے پوری قوم تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے بہت سے ساتھیوں کی مدد سے بے پناہ جدوجہد کرنا پڑا کرتی تھی لیکن اب انٹرنیٹ کی مدد سے وہ یہ کام تن تنہا سر انجام دے سکتا ہے۔ اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو یہ تبدیلی مثبت نوعیت کی ہے۔
سود پر مبنی نظام
قدیم معاشروں میں بھی انفرادی سطح پر سود موجود رہا ہے لیکن جدید دور میں سود کی بنیاد پر عالمی معاشی نظام کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پہلے کاروبار میں ملکیت (Ownership) اور کاروبار کا انتظام (Management) بالعموم ایک ہی شخص یا گروہ کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا۔ کاروبار چھوٹے چھوٹے اداروں کی صورت میں ہوا کرتا تھا جس کے لئے سرمایہ ان اداروں کے مالکان ہی فراہم کر دیا کرتے تھے۔ جائنٹ اسٹاک کمپنیوں کی ایجاد کے بعد کاروبار میں ملکیت اور انتظام کو الگ الگ کر دیا گیا۔ بڑی بڑی کمپنیوں کو سرمائے کی فراہمی کے لئے بینکاری کا نظام وجود پذیر ہوا جس کی پوری بنیاد سود ہے۔
بینک پورے معاشرے میں پھیلے ہوئے تھوڑے تھوڑے سرمایے کو سود کی ادائیگی کے ذریعے اکٹھا کرنے کا کام سر انجام دیتے ہیں اور پھر اسی سرمائے کو کچھ زیادہ شرح سود پر کاروباری افراد کو دے دیتے ہیں۔ یہ کاروباری افراد اس سرمائے کو استعمال کر کے اس سے کئی گنا زیادہ نفع کماتے ہیں۔
سودی نظام کی بنیاد ہی استحصال پر ہے۔ قدیم مہاجنی نظام میں سرمایہ دار غریب افراد کو بھاری شرح سود پر قرضے دے کر ان کا جو استحصال کیا کرتا تھا، وہی استحصال آج کا جدید سرمایہ دار غریب افراد کی تھوڑی تھوڑی بچتوں کو کم شرح سود پر لے کر اس سے زیادہ سے زیادہ نفع کما کر کرتا ہے۔ استحصال کا یہ نظام اب پوری دنیا میں اس طرح سرایت حاصل کر چکا ہے کہ اسے وہی حیثیت حاصل ہو گئی ہے جو قدیم نظام معیشت میں غلامی کو ہوا کرتی تھی۔
اخلاقی اور دینی اعتبار سے یہ تبدیلی بدیہی طور پر منفی نوعیت کی ہے۔
بہتر معیار زندگی
جدید ترین سائنسی ایجادات کی بدولت عام لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ آج کے دور میں عام آدمی کو وہ سہولیات میسر ہیں جو دور قدیم میں بادشاہوں کو بھی حاصل نہ ہوا کرتی تھیں۔ قدیم بادشاہ اہم ترین عسکری معلومات کے لئے کئی دن تک انتظار کیا کرتے لیکن آج ایک عام شخص کہیں غیر اہم معلومات انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے چند سیکنڈ میں حاصل کر لیتا ہے۔
پرانے بادشاہ گھوڑوں وغیرہ پر سفر کر کے دنوں اور مہینوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا کرتے تھے لیکن آج ایک عام شخص ائر کنڈیشنڈ گاڑیوں، بسوں اور ہوائی جہاز پر سفر کر کے چند گھنٹوں میں وہی سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ایک متوسط طبقے کے شخص کا معیار زندگی پرانے بادشاہوں کی نسبت کافی بہتر ہے۔
بدیہی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تبدیلی مثبت نوعیت کی ہے البتہ اس تبدیلی کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ معیار زندگی کی اس دوڑ میں انسانوں کی اکثریت اپنے رب سے غافل ہوتی جا رہی ہے۔
امیر اورغریب میں بڑھتا ہوا فرق
حالیہ معاشی ترقی کا ایک درد ناک پہلو یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں امیر اور غریب کے مابین خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ ورلڈ فیکٹ بک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا کی کل آمدنی کا 80% حصہ صرف 20% امیر ترین افراد کے پاس چلا جاتا ہے اور باقی 20% حصہ دنیاکے 80% افراد کے لئے باقی رہ جاتا ہے۔
پچھلے چند برس میں دنیا کی معیشت میں تیز رفتار ترقی امر واقعہ ہے۔ چین اور بھارت کی ترقی تو ضرب المثل بن چکی ہے۔ اس ترقی کا سب سے زیادہ فائدہ امیر طبقے کو ہوا ہے اور بڑی حد تک متوسط طبقہ اس سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ جہاں تک غریب طبقے کا تعلق ہے، اس تک اس تیز رفتار ترقی کے اثرات تک نہیں پہنچ پا رہے۔ اگر صرف بھارت ہی کی مثال لی جائے تو اس کے مختلف حصوں میں بلاشبہ مڈل کلاس کی آمدنیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن غریب طبقے میں معاشی وجوہات کی بنیاد پر خود کشی کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ کم و بیش یہی صورتحال دوسرے ممالک کی بھی ہے۔
دور جدید کی یہ تبدیلی منفی نوعیت کی ہے۔
معیشت کی تنظیم نو (Restructuring)
قدیم دور کی معیشت کا انحصار زراعت پر تھا۔ اس کے علاوہ کسی حد تک کان کنی اور تجارت کے پیشے موجود تھے۔ اب سے دو سو سال پہلے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں صنعت کو معاشرے میں اہم ترین درجہ حاصل ہوا۔ 1990ء کے عشرے میں معلوماتی انقلاب (Information Revolution) کے بعد دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے ترقی ہوا شعبہ، سروس سیکٹر ہے۔ معیشت میں خدمات کی اہمیت، صنعت و زراعت کے مقابلے میں بڑھتی جا رہی ہے اور آہستہ آہستہ ان شعبوں کا انحصار بھی سروس سیکٹر پر ہوتا جا رہا ہے۔
دینی اور اخلاقی اعتبار سے یہ تبدیلی مثبت نوعیت کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سروس سیکٹر کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان اور اس کی خدمات کی قدر و قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ اب سے چند دہائی قبل کے سرمایہ دار مشینوں پر تو کروڑوں روپے خرچ کر دیا کرتے تھے لیکن انسان پر چند ہزار روپے خرچ کرتے ہوئے بھی دس مرتبہ سوچا کرتے۔ سروس سیکٹر کی ترقی کے نتیجے میں انسان کی قدر بڑھی ہے اور وہ پہلے کی نسبت بہتر معاوضہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔
توانائی کا زیادہ اور بہتر استعمال
دور جدید کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ توانائی کے ذرائع کے استعمال میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ بڑی بڑی مشینوں سے لے کر گھر کے چولہے تک ہر چیز توانائی کی محتاج ہے۔ ہم صرف اپنے گھر ہی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ برقی یا گیس کے چولہے، اوون، فریج، بلب، واشنگ مشین، کمپیوٹر، ٹیلی وژن، ائر کنڈیشنر، ٹیلی فون اور گاڑی سب کے سب اپنا کام کرنے کے لئے توانائی کے محتاج ہیں۔ صنعتی انقلاب سے پہلے توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ جانور ہوا کرتے تھے جنہیں نا صرف نقل و حمل میں استعمال کیا جاتا تھا بلکہ مختلف طرز کی مشینیں جیسے رہٹ وغیرہ چلانے کے لئے بھی انہی سے کام لیا جاتا تھا۔
موجودہ دنیا کی توانائی کا انحصار بڑی حد تک تیل اور گیس پر ہے۔ یہ کہنا بجا ہے کہ ہم لوگ ہائیڈرو کاربن کے دور (Hydrocarbon Age) میں جی رہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب دنیا میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ اس وقت سے پہلے دنیا بھر کے سائنسدان توانائی کے متبادل ذرائع پر تحقیق کر رہے ہیں جن میں ہائیڈروجن، شمسی توانائی، ایٹمی توانائی اور سمندر اور ہوا کی توانائی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
ہمارے موجودہ معاشی ترقی اور معیار زندگی کا انحصار توانائی کی مسلسل فراہمی پر ہے۔ اس لئے پوری دنیا اس معاملے میں خاصی حساس ہو چکی ہے اور عین ممکن ہے کہ اس مسئلے پر دنیا میں مستقبل قریب میں جنگیں بھی وقوع پذیر ہو جائیں۔
اس تبدیلی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کی نسبت انسان کا معیار زندگی بلند ہوا ہے لیکن منفی پہلو یہ ہے کہ اس کی بدولت انسانوں میں نئے جھگڑے پیدا ہوئے ہیں اور عین ممکن ہے کہ مستقبل میں انہی جھگڑوں کی بدولت نسل انسانیت کو کئی جنگوں کا سامنا کرنا پڑے جن کا نتیجہ انسانوں کے لئے تباہی کے سوا اور کچھ نہ نکل سکے گا۔
جینیاتی انجینئرنگ(Genetic Engineering)
جینیات کے موضوع پر تحقیق جاری ہے اور مصنوعی جاندار حتی کہ مصنوعی انسان تخلیق کرنے کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اکیسویں صدی کی تیسری یا چوتھی دہائی میں ایسا ممکن بھی ہو سکے۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ موجودہ معاشروں کی تشکیل نو (Transformation) میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اس تبدیلی کے مثبت یا منفی پہلوؤں کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ حالیہ معلومات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کلوننگ کے نتیجے میں مصنوعی طور پر پیدا کیے جانے والے انسانوں سے بہت سے اخلاقی مسائل درپیش ہوں گے۔ ظاہر ہے اگر ایک شخص کا ہم شکل اس کے گھر میں گھس کر اس کی جان، مال اور آبرو کا صفایا کر جائے تو یہ انسانیت کے لئے کسی المیے سے کم نہ ہوگا۔ اس تبدیلی کے بعض مثبت پہلوؤں میں بہت سی بیماریوں جیسے شوگر، ایڈز وغیرہ کے علاج کی دریافت شامل ہے۔ اس کے علاوہ انسانوں کو درپیش خوراک اور توانائی کی کمی کے مسائل کو اس کی مدد سے حل کیا جا سکتا ہے اور انسانیت کو کئی جنگوں سے بچایا جا سکتا ہے۔
اگر اس میدان میں موجودہ ترقی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الوقت یہ تبدیلی مثبت نوعیت کی ہے۔ مستقبل میں اس کے مثبت یا منفی ہونے کا انحصار جینیاتی انجینئرنگ کی ترقی اور اسے استعمال کرنے والے انسانوں کے رویے پر ہے۔
خلاصہ بحث
معاشی اور تکنیکی میدان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں بھی مثبت اور منفی دونوں رجحانات پائے جاتے ہیں۔ تکنیکی اعتبار سے پیدا ہونے والی تبدیلیاں زیادہ تر مثبت نوعیت کی ہیں تاہم ان میں منفی استعمال کا امکان بھی موجود ہے۔ معاشی اعتبار سے پیدا ہونے والی تبدیلیاں زیادہ تر منفی نوعیت کی ہیں۔