جنت البقیع وہ قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرم (ص) کے اجداد ،اھل بیت علیھم السلام ، اُمّھات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اوردوسرے اھم افراد کی قبور ہیں کہ جنھیں آل سعود نے منھدم کر دیا کہ اُن میں سے تو اکثر قبور کی پھچان اور اُن کے صحیح مقام کی شناخت ممکن نھیں!
یہ عالم اسلام خصوصاً شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء، دانشوروں اوراھل قلم کی ذمہ داری ہے کہ اِن قبور کی تعمیرنو کیلئے ایک بین الاقوامی تحریک کی داغ بیل ڈالیں تا کہ یہ روحانی اور معنوی سرمایہ اور آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے اِس عظیم نوعیت کے قبرستان کی کہ جس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں، حفاظت اورتعمیر نوکے ساتھ یھاں مدفون ھستیوں کی خدمات کا ادنیٰ سا حق ادا کرسکیں۔
تاریخ قبرستان جنت البقیع
٨ شوال تایخ جھان اسلام کا وہ غم انگیز دن ہے کہ جب چھیاس ١٣٤٤ ھجری کو وھابی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کومنھدم و مسمارکر دیا تھا۔یہ دن تاریخ اسلام میں ''یوم الھدم ''کے نام سے معروف ہے ،یعنی وہ دن کہ جب بقیع نامی تاریخی اور اسلامی شخصیات کے مدفن اور مزاروں کو ڈھا کر اُسے خاک میں ملا دیا۔
جدّہ کے معروف عرب کالم نویس ''منال حمیدان''لکھتے ہیں:
''بقیع وہ زمین ہے کہ جس میں رسول اکرم (ص) کے بعد اُن کے بھترین صحابہ کرام دفن ھوئے اورجیسا کہ نقل کیا گیا ہے کہ یھاں دس ھزار سے زیاد اصحاب رسول مدفون ہیں کہ جن میں اُن کے اھل بیت ،اُمّھات المومنین ...،فرزند ابراھیم،چچا عباس بن المطلب پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطّلب ،اُن کے نواسے حسن،اکابرین اُمت اور تابعین شامل ہیں۔ یوں تاریخ کے ساتھ ساتھ بقیع کا شمارشھر مدینہ کے اُن مزاروں میں ھونے لگا کہ جھاں حجا ج بیت اللہ الحرام اوررسول اللہ (ص) کے روضہ مبارکہ کی زیارت اور وھاں نماز ادا کرنے والے زائرین اپنی زیارت کے فوراً بعد حاضری دینے کی تڑپ رکھتے تھے۔ نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت (ص) نے وھاں کی زیارت کی اور وھان مدفو ن افرادپر سلام کیااوراستغفار کی دعا کی۔''(الشر ق الاوسط؛١٥/ ذی الحجہ ١٤٢٦ ہجری، شمارہ ٩٩٠٩)
تین ناموں کی شھرت رکھنے والے اِس قبرستان ''بقیع،بقیع الغرقد یا جنت البقیع'' کی تاریخ، قبل از اسلام زمانے سے مربوط ہے لیکن تاریخی کتابیں اِس قبرستان کی تاریخ پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں لیکن اِس سب کے باوجود جو چیز مسلّم حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ بقیع،ھجرت کے بعدشھر مدینہ کے مسلمانوں کیلئے دفن ھونے کا واحد قبرستان تھا۔شھر مدینہ کے لوگ وھاں مسلمانوں کی آمد سے قبل اپنے مردوں کو دو قبرستانوں''بنی حرام''اور''بنی سالم''میں دفن کیا کرتے تھے ۔(حجۃ الاسلام محمدصادق نجمی؛تاریخ حرم ائمہ بقیع ،صفحہ ٦١)
بقیع میں مدفون شخصیات
اِس قبرستان میں اسلام کی اھم شخصیات میں ائمہ اربعہ تشیع(حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع) ،حضرت امام زین العابدین (ع) ، حضرت امام محمدباقر (ع) اورحضرت امام جعفر صادق (ع) )کے علاوہ اور بھی شخصیا ت مدفون ہیں۔
علامہ سید محمد امین اِس بارے میں لکھتے ہیں:
''بقیع میں رسول اللہ (ص) کے چچا حضرت عباس بن المطّلب (ع) بھی مدفون تھے ،اِسی طرح حضرت ختمی مرتبت (ص) کے والد امجد حضرت عبداللہ (ع)، اُمّھاتُ المومنین، عثمان بن عفان، اسماعیل بن جعفر الصادق (ع) اورمذھب مالکی کے پیشوا، امام ابو عبداللہ مالک بن انس الاصبحی (متوفی ١٧٩ ھجری ) کی قبور کو بھی ویران کیا گیا ہے۔'' (کشف الارتیاب؛صفحہ ٥٥)
خلیفہ سوم عثمان بن عفان کے قتل کے بعد جب اُنھیں بقیع میں دفن ھونے سے روکا گیا تو اُنھیں بقیع سے باھر مشرقی حصے میں ''حش کوکب '' نامی حصے میں دفن کردیا گیا لیکن معاویہ ابن ابی سفیان کے زمانے میں جب مروان بن حکم مدینے کا والی بناتو اُس نے حش کوکب اور بقیع کی درمیانی دیوار کو ھٹا کر اُن کی قبر کو اِسی قبرستان میں داخل کر دیا اورپتھر کا وہ ٹکڑا کہ جسے خود رسو ل اکرم (ص) نے اپنے ھاتھوں سے حضرت عثما ن بن مظعون (رض) کی قبر پر رکھا تھا، اُٹھا کر حضرت عثمان کی قبر پر رکھتے ھوئے کھا: ''واللّٰہ لا یکون علی قبر عثمان بن مظعون حجرٌ یعرف بہ''(خد اکی قسم !عثمان بن مظعون (رض) کی قبر پر کوئی نام ونشان نہ ھو کہ وہ اُس کے ذریعے سے پھچانی جائے)۔(اُسد الغابۃ؛جلد ٣،صفحہ ٣٨٧۔تاریخ المدینہ ابن زبالہ نقل از وفاء الوفاء ؛جلد٣،صفحہ ٩١٤۔٨٩٤)
اُمّھات المومنین میں حضرت زینب بنت خزیمہ، حضرت ریحانہ بنت زبیر، حضرت ماریہ قبطیہ، حضرت زینب بنت جحش، اُم ّ حبیبہ بنت ابی سفیان، حضرت سودہ اورعائشہ بنت ابی ابی بکر مدفون ہیں۔ اِس کے علاوہ حضرت ختمی مرتبت (ص) کے فرزندابراھیم (ع) ، حضرت علی (ع) کی والدہ ماجدہ حضر ت فاطمہ بنت اسد(س)، زوجہ حضرت اُمّ البنین (س)،حلیمہ سعدیہ (س) ، حضرت عاتکہ، عبداللہ بن جعفر، محمد بن حنفیہ اورعقیل بن ابی طالب (ع)، نافع مولائے عبد اللہ بن عمر شیخ القراء السبعہ (متوفی ١٦٩ ھجری) کی قبور بھی وھاں موجود ہیں۔
(البقیع؛یوسف الھاجری،صفحہ ٣٧۔مرآۃ الحرمین؛ابراھیم رفعت پاشا،صفحہ ٤٢٧۔آثار اسلامی مکہ ومدینہ؛صفحہ ٩٩۔تاریخ المعالم المدنیۃ المنوّرۃ ؛ سید احمد آل یاسین،صفحہ ٢٤٥۔طبقات القرای ؛جلد ٢،صفحہ ٣٣٠۔تھذیب التھذیب؛جلد ١٠ ،صفحہ ٤٠٧)
اِس کے علا وہ یھاں مقداد بن الاسود، مالک بن حارث، مالک اشتر نخعی، خالد بن سعید، خزیمہ ذو الشھادتین، زید بن حارثہ، سعد بن عبادہ، جابر بن عبداللہ انصاری، حسّا ن بن ثابت، قیس بن سعد بن عبادہ، اسعد بن زارہ، عبد اللہ بن مسعود اورمعاذ بن جبل سمیت دوسر ے جلیل القدر صحابہ کرام بھی یھیں مدفون ہیں۔ (مستدرک حاکم؛جلد ٢،صفحہ ٣١٨۔سیرہ ابن ہشام ؛جلد ٣،صفحہ ٢٩٥۔)
مؤرّخین اور معروف سیاحوں کے نزدیک قبرستان بقیع کی تاریخ
جنت البقیع ٤٩٥ ھجری یعنی پانچویں صدی ھجری کے اواخر سے صاحب ِگنبد و بارگاہ تھا۔ معروف اھل سنّت اندلسی مؤرّخ، سیاح، مصنف اور شاعر ابوالحسین محمدبن احمدبن جبیر (٥٤٠۔١٤ ٦ ھجری) جو ساتویں صدی ھجری میں حجاز کے اپنے سفرنامہ (تدوین شدہ ٨٧٥ ھجری)میں لکھتے ہیں:
''وہ سربفلک گنبد موجود بقیع کے ساتھ ھی واقع ہے۔''(رحلہ ابن جبیر؛مطبوع دار الکتاب اللُّبْنَانیہ،صفحہ ١٥٣)
ابن جبیر کے سفر کے ڈیڑھ سو سال بعد آٹھویں صدی ھجری میں ابن بطولہ نے شھر مدینہ کاسفر کیا اوراپنے مشاھدات کو یوں رقم کیا:''حرم ائمہ بقیع (ائمہ اربعہ علیھم السلام) میں موجود قبور پر دراصل ایک ایسا گنبد ہے جو سر بفلک ہے اور جو اپنے استحکام کی نظر سے فن تعمیر کا بھترین اورحیرت انگیز شاھکار ہے۔'' (رحلہ ابن بطولہ؛صفحہ ٨٩)
قرن معاصر کے معروف سفر نامہ'' مرآۃ الحرمین ''کے مصنف ''ابراھیم رفعت پاشا ''جو ١٣١٨ھجری، ١٣٢٠ھجری، ١٣٢١ھجری اور ١٣٢٥ھجری میں مصری حجاج کے قافلے کے امیر محافظ محمل کی حیثیت سے اپنے پھلے سفر حج اور اُس کے بعد امیر الحجاج کی حیثیت سے اپنے بعد کے سفر حج کے چار سفروں کو''مرآۃ الحرمین '' نامی سفر نامہ میں مفصل طور پر جنت البقیع کے منھدم کئے جانے سے اُنیس سال قبل لکھتے ہیں:
''عباس بن عبد المطّلب (ع)، حسن بن علی اور تین ائمہ امام علی بن الحسین، امام محمد بن علی اور امام جعفر بن محمد علیھم السلام ایک ھی گنبد کے نیچے مدفون ہیں، جن کا گنبد دوسروں سے بھت زیادہ اونچاہے۔''
(مرآۃ الحرمین؛جلد ١،صفحہ ٤٢٦،طبع مصر ١٣٤٤ھجر ی مطابق ١٩٢٥ عیسوی)
جابری انصاری ،کتاب ِ''تاریخ اصفھان''میں ١٣٤٤ ھجری کے واقعات کے ضمن میں وھابیوں کے ملک حجاز پر حملہ کرنے اوروھاں موجود اھم اسلامی شخصیات کی قبور اورمزارات کو منھدم کرنے کے بار ے میں لکھتے ہیں:
''حاجی امیر السلطنت کی جانب سے حکم دئیے جانے کے نتیجے میں ١٣١٢ ھجری میں د و سال کی مدت میں بنائی جانے والی ضریح کو وھاں (موجود ائمہ بقیع کی قبور)سے اُکھیڑ لیا گیا اورجب وھابیوں نے چاھا کہ وہ (قبرستان بقیع کو منھدم ومسمار کر نے کے بعد) حضرت ختمی مرتبت (ص) کے حرم میں داخل ھوں تو اُن میں سے ایک نے ''یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیّ....''(اَے ایمان والو!نبی کے گھر میں داخل نہ ھو...)کی آیت کی تلاوت کی تو وہ اِس جسارت کو انجام دینے سے رُک گئے.....۔''(تاریخ اصفھان؛ صفحہ٩٢ ٣ )
میرزا محمدحسین فراھانی نے ١٣٠٢ ھجری میں اپنے سفر حج میں بقیع اوراُس میں موجود ائمہ اربعہ کی زیارت کا احوال کچھ یوں درج کیا ہے:
''قبرستان بقیع ایک بھت بڑا قبرستان ہے جو شھر مدینہ کے مشرق میں دروازہ ئسور سے متصل ہے.....یہ قبرستان حج کے موسم میں حاجیوں کیلئے ھر دن مغرب کے وقت تک کھلا رھتا ہے اورجو بھی اِس کی زیارت کرنا چاھے وہ اِس میں جا سکتاہے لیکن حج کے علاوہ یہ جمعرات کے زوال سے جمعہ کے غروب تک کھلا رھتا ہے۔
ائمہ اثنیٰ عشر کے چار امام (ع) ایک بڑے سے بقعہ(بارگاہ) میں جو ھشت ضلعی شکل میں بنایا گیا ہے، مدفون ہیں.... اِس بقعہ کی تعمیر کی صحیح تاریخ کا علم نھیں لیکن محمد علی پاشا مصری نے ١٢٣٤ ھجری میں سلطان محمود خان عثمانی کے حکم کے مطابق اِسے تعمیر کرا یا ہے اوراِس کے بعد سے تمام عثمانی سلاطین کی جانب سے یہ بقعہ اوراِس قبرستان میں واقع دیگر تمام بقعہ جات ھر سال مرمت و تعمیر کئے جاتے رھے ہیں۔
یھاں کچھ ''مقامات''مشھور ہیں جو حضرت فاطمہ صدیقہ طاھرہ(س) کی قبر کے نام سے معروف ہیں،اُن میں سے ایک بقیع میں موجود حجرہ ہے جسے ''بیت الاحزان''کھا جاتا ہے اور اِسی وجہ سے یھاں آنے والے حجاج اور زائرین حضرت فاطمہ زھرا(س)کی زیارت پڑھتے ہیں۔یھاں موجود قبر کے سامنے سونے اورچاندی کے تاروں سے مزین ایک پردے کو گنبد کے چاروں طرف ڈالاھوا ہے اوراُس پر یہ عبارت درج ہے:سلطان احمد بن سلطان محمد بن سلطان ابراھیم(سنۃ اِحدي و ثلاثین و مأۃ بعد الف ١١٣١ھجری)۔'' (سفر نامہ فراھانی ؛صفحہ ٢٨١،طبع ١٣٦٢ شمسی ایرانی ،تدوین:مسعود گلزاری،چاپ چھارم)۔
حاجی فرھاد میرزا ١٢٩٢ ھجری میں اپنے سفر حج کے مشاھدات کو اپنے سفر نامہ ''ھدْیَۃُ السَّبِیْل''میں لکھتے ہیں:
''میں باب ِ جبرئیل (ع) سے باھر آکر ائمہ بقیع کی زیارت سے مشرف ھوا....متولّی نے ضریح کا دروازہ کھولااور میں اندر گیااورضریح کے گردچکر لگایا،وھاں پیر کی طرف کی جگہ بھت چھوٹی ہے کہ جھاں صندوق (قبر) اور ضریح کا درمیانی فاصلہ نصف ذراع سے بھی کم ہے۔ ''(ھدْیَۃُ السَّبِیْل؛صفحہ ١٢٧)
نائب الصدر شیرازی ١٣٠٥ ھجری میں اپنے سفر حج کے مشاھدات کو اپنے سفر نامہ''تُحْفَۃُ الْحَرِمَیْنِ'' میں لکھتے ہیں:
''وادی بقیع داھنے ھاتھ پر واقع ہے جو ایک سر پوشیدہ مسجد ہے کہ جس (کے صدر دروازے )پریہ عبارت درج ہے:''ھٰذَامَسْجِدُ اُبَی بْنِ کَعْب وَصَلّیٰ فِیْہِ النَّبِیُّ غَیْرَ مَرَّۃ'ٍ'،(یہ مسجد اُبی بن کعب ہے کہ جس میں رسول اللہ (ص) نے کئی مرتبہ نماز پڑھی ہے)۔یھاں امام حسن (ع) ،امام زین العابدین (ع) ،امام باقر (ع) اور اما م صادق (ع) کی قبور مطھرہ ایک ضریح میں دن دفن ہیں،اُس کے سامنے ایک پردے دار ضریح ہے کہ جس کے بارے میں کھا جاتا ہے کہ یھاں حضرت فاطمہ زھر ا(س)مدفون ہیں۔'' (تُحْفَۃُ الْحَرِمَیْنِ؛صفحہ ٢٢٧)
معروف مدینہ شناس،مؤرّخ،محدث،رجال شناس اورادیب شافعی ابو عبد اللہ محب الدین محمد ''ابن نجار'' (٥٧٨۔٤٣ ٦ ھجری)کھتا ہے:
''وَعَلَیْھَا بَابَانِ یَفْتَحُ اَحَدُھُمَا فِی کُلِّ یَوْم لِلزِّیَارَۃِ ''،قبرستان بقیع کے دو دروازے تھے کہ جن میں سے ایک دروازہ ھر دن زائرین کیلئے کھولا جاتا تھا۔(اخبار مدینۃ الرسول؛مکتبۃ دار الثقافۃ ،مکۃ مکرمۃ،صفحہ ١٥٣)
قبرستان بقیع کی تعمیر،ضریح اورحرم کی منظر کشی
قبرستان بقیع اپنی تاریخ میں تین مرتبہ تعمیر کیا گیا ہے۔معروف سیاح اور مؤرّخ ابن جبیر اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں:
'' بقیع پھلی مرتبہ ٥١٩ ھجری میں ''اَلْمُسْتَنْصَر بِاللّٰہِ ''اورتیسری مرتبہ تیرھویں صدی کے اواخر میں ''سلطان محمود غزنوی'' کے ذریعے سے تعمیر کیا گیا ہے۔یھاں موجود کُتبوں پر درج عبارتیں کہ جن کوسیاحوں نے اپنے اپنے سفر ناموں میں بیان کیا ہے،اِسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہیں۔'' (رحلہ ابن جبیر؛مطبوع دار الکتاب اللُّبْنَانیہ، صفحہ ١٧٣)
ایک حقیقت!
ایک نکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے اور وہ یہ کہ ائمہ بقیع پر حرم وبارگا ہ کی تعمیر ٥١٩ ھجری سے قبل ھوئی تھی اوراُس کی اصلاح اور مرمت کا کام بعد میں انجام دیا گیا تھا۔
مشھور مؤرّخ'' سمھودی'' ابن جبیر کی بات کے بر خلاف کھتا ہے:
''٥١٩ ھجری میں تعمیر شدہ بارگاہ و گنبد کے وجود میں آنے کے پچاس سال بعد اِس حرم کی پھلی تعمیر عباسی خلیفہ ''مسترشد باللہ''کے حکم سے ھوئی ۔حضرت عباس بن عبد المطّلب (ع) کی قبر کے پاس طاق میں موجود ایک چھوٹے سے کُتبے پر یہ عبارت درج ہے: اِنَّ الْأمْرَ بِعملہ المُسْتَرشِد باللّٰہ تسع و عشرۃ و خمسمأۃ'' ۔(وفاء الوفاء ؛جلد٣ ،صفحہ ٩١٦)
یھاں ایک اورنکتے کی جانب اشارہ ضروری ہے اور وہ یہ اِس حرم کی اصل عمارت اِس تاریخ سے قبل ہے کہ جسے سمھودی نے بیان کیا ہے اورحرم کی تعمیرکااُس کا حکم اُس کی مرمت اور اصلاح کیلئے تھا۔دوسری بات یہ کہ مسترشد باللہ اُنتیسواں(٢٩)عباسی خلیفہ ہے جو ٥١٢ ھجری میں اپنے باپ'' مستظھر باللہ ''کے بعد خلافت کوحاصل کرتا ہے اور ٥٢٩ ھجر ی میں قتل کر دیاگیا۔
حرم ائمہ بقیع کی دوسری تعمیر و مرمت عباسی خلیفہ ''مستنصر باللّٰہ''کے حکم سے ٦٢٣ ھجری اور ٦٤٠ ھجری کے درمیانی عرصے میں انجام پائی ۔ سمھودی اِس بارے میں لکھتا ہے:
''حرم بقیع میں موجود محراب کے اوپر لگے ھوئے چھوٹے سے کُتبے پر یہ عبارت درج ہے:اَمر بعملہ المنصور المستنصر باللّٰہ''(وفاء الوفاء ؛جلد٣ ،صفحہ ٩١٦)
مستنصر باللہ کا اصل نام منصور،کنیت ابو جعفرتھی ،وہ ''الظَّاھر باللّٰہ ''کا بیٹا تھا اور وہ تیتیسوا ں(٣٣) عباسی خلیفہ ہے اور علامہ سیوطی کے قول کے مطابق وہ ٦٢٣ھجری میں خلافت حاصل کرتا ہے اور ٦٤٠ ھجری میں دار ِ فانی کووداع کھتا ہے۔(تاریخ الخلفائ؛صفحہ ٤٢٤)
اِس حرم کی تیسری تعمیرتیرھوں صدی کے اوائل میں عثمانی خلیفہ سلطان محمود غزنوی کے حکم سے ھوئی ۔
''فرھاد میزرا'' ١٢٩٢ ھجری میں حج کی سعادت کے حاصل ھونے کے بعد بقیع کا حال کچھ یوں بیان کرتا ہے:
''بقیع میں بقعہ مبارکہ کی تعمیرنوسلطان محمود خان کے حکم سے ایک ھزار دوسو ھجری میں ھوئی،وہ سلطان محمد ثانی ہے جو تیسوواں عثمانی خلیفہ ہے۔سلطان محمود چوبیس سال کی عمر میں١٢٢٣ ھجری میں خلافت کو پھنچا اور ١٢٥٥ ھجری میں انتقال کر گیا۔''(نامہ فرھاد میرزا؛چاپ مطبوعات علمی ١٣٦٦ شمسی ایرانی،تھران،صفحہ ١٤١)
(رجوع کریں:قاموس الاعلام ترکی ؛جلد٦،صفحہ ٤٢٢٥؛فصلنامہ میقات ِ حج؛سال دوم ،شمارہ پنجم صفحہ ١١٨۔شمارہ ششم،زمستان ١٣٧٢ شمسی)۔
معروف سیاح اور مؤرّخ ابن جبیر اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں: ''قبرستان بقیع کے دو دروازے ہیں کہ جن میں سے ایک ھمیشہ بند رھہتا ہے اور دوسرا دروازہ صبح سے مغرب تک زائرین کیلئے کھلا رھتا ہے۔حرم بقیع '' ھشت ضلعی '' ہے اوراِس کی دوسری خصوصیت اِس میں محراب کا ھونا ہے نیز اِس حرم کے بھت سے خادم تھے۔ دوسرے تمام حرموں کی مانند حرم ائمہ بقیع (ع) میں بھی ضریح ، روپوش، بڑے فانوس، شمعدان اور قالین موجود تھے۔''(رحلہ ابن جبیر؛مطبوع دار الکتاب اللُّبْنَانیہ،صفحہ ١٧٣)
محمد لبیب مصری(بتنونی) ١٣٢٧ ھجری میں حجاز کے اپنے سفرنامہ ''رحلہ بتنونی'' کے بارے میں لکھتے ہیں:
''ومقصورۃ سیِّدنا الحسن فیھا فخیمۃ جدّاًو ھی من النّحاس المنقوش بالکتابۃ الفارسیّۃ وأظنّ أنَّھا من عمل الشّیعۃ الأعاجم''؛وھاں ''قُبَّہُ البین''نامی ایک معروف گنبد موجودہے کہ جس میں ایک حجرہ موجود ہے اور اُس میں ایک گڑھا ہے کہ جس کے بارے میں یہ بات شھرت رکھتی ہے کہ یھاں آنحضرت (ص) کا دندانِ مبارک گرا تھا، اِس کے علاوہ امام حسن ابن علی (ع) کی قبر ایک اورقبہ (بارگاہ) کے نیچے واقع ہے کہ جسے تانبے کی دھات سے بنایا گیا ہے اوراُس پر فارسی رسم الخط کی کوئی عبارت درج ہے کہ جس کے بارے میں میرا خیال ہے کہ یہ عجمی اھل تشیع کی جانب سے لکھی گئی ہے۔ ''(رحلہ بتنونی؛مطبوعہ ١٣٢٩ مصر،صفحہ ٢٣٧)
پھلی ضریح:
''بتنونی'' اِس بیان کی روشنی میں واضح ھو جاتاہے کہ یہ پھلی ضریح ہے کہ جسے ایرانیوں نے بنایا ہے۔ اگر یہ تقریبی گمان وخیال واقعیت رکھتے ھوں تواِس ضریح کی تقریبی ساخت کی تاریخ اور اِن کے بانیوں کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ائمہ بقیع کے بقعہ جات کی تعمیر کے ساتھ ساتھ یہ ضریح پانچویں صدی ھجری کے دوسرے نصف میں''مجد الملک براوستانی ' ' کے حکم سے بنائی گئی ہے۔
دوسری ضریح:
سید اسماعیل مرندی اپنی کتاب''توصیف ِ مدینہ ''کہ جسے اُنھوں نے ١٢٥٥ ھجر ی میں تالیف کیا ہے، میں لکھتے ہیں:
''یہ پانچوں مطھر تن ایک ضریح میں دفن ہیں جو لکڑی کی جالی دار ضریح ہے اور عباس بن المطّلب (ع) اِسی ضریح میں اِن کے سرھانے بالکل جدا دفن ہیں۔''
یہ صرف وہ جسارتیں ہیں کہ جن کو صرف بقیع کے مسمار کئے جانے کے ضمن میں بیان کیا گیاہے جبکہ آل سعود نے وھابی فرقے کی تعلیمات کے مطابق مکہ، مدینہ، طائف اور دیگر بلاد ِاسلامی کے تمام تاریخی آثار ومزارات اوربارگاھوں کو نابود کیا ہے کہ جن کا تعلق شیعہ وسنی مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی اھم شخصیات سے ہے! فرقہ وھابیت کی تعلیمات سے آگاھی اوراُن کے شبھات کا جواب دینے کیلئے ایک الگ کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ عالم اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ کا ایک مختصر سا ورق ہے کہ جو تاریخی اسناد و دستاویزات کی روشنی میں آل سعود اور فرقہ وھابیت کے سیاہ کارناموں کی ایک زندہ اور حقیقی مثال ہے اوردورِ حاضر کا مسمار قبرستان بقیع آج کے مسلمانوں سے اِس بات کاسوال رھا ہے کہ وہ اِس تاریخی بے حرمتی پر کیوں خاموش ہیں؟!