رسول اﷲ(ص)کی اُمّت میں بے شمار گمراہ فرقے وجود میں آچکے ہیں۔ ان میں سے اکثر کے عقائد و نظریات اور معاملات طرح طرح کی اھانتوں سے پر ہیں۔ منجملہ ان اھانتوں میں سے ایک اھانت ’’قبور انبیاء و شھداء و اولیاء کا منھدم و مسمار کرنا‘‘ ان فرقوں کا شعار ھوگیا ہے، حالانکہ یہ سب کلمہ گو ھونے کے دعوے دار ہیں۔
یہ لوگ ایسا فعل قبیح کررھے ہیں، جسے دنیا کے کسی دوسرے مذھب کے ماننے والوں نے بھی کبھی نھیں کیا بلکہ وہ لوگ اپنے معظمان مذھب کی قبروں کے ساتھ اس قسم کا اھانت و تحقیر والا کام کرنے کا تصور بھی نھیں کرسکتے۔
مگر افسوس! یہ نام نھاد مسلمانوں کے فرقے بھرحال ایسا کررھے ہیں، جب ان کا بس چلا تو حجاز مقدس میں جنت البقیع کے مزارات کو بھاری مشینری کے ذریعے زمین بوس کردیا۔ حضرات صحابہ کرام و تابعین رضی اﷲ عنھم اجمعین کی آرام گاھوں کی تمام نشانیاں مٹادیں۔
آج کل بعض افریقی ممالک، خصوصا ’’لیبیا‘‘ اور ’’صومالیہ‘‘ اور عرب ممالک مثلا شام وغیرہ میں یہ بدبخت لوگ شر پھیلا رھے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ دین اسلام کو اس کی وہ شکل دیں گے جو رسول اﷲ(ص) کے مبارک دور میں تھی۔ اس دین سے ’’کفر و شرک‘‘ کی نحوست کو ختم کریں گے، اور اس کفر و شرک میں ایک اھم کردار اﷲ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات ہیں، لھذا یہ لوگ اپنی پوری توانائیاں ان مزارات کو شھید کرنے میں استعمال کررھے ہیں۔
حال ھی میں رسول (ص) کے جلیل القدر صحابی حضرت حجر بن عدی رضی اﷲ عنہ کے مزار مقدس کو شھید کرکے جسد مبارک نامعلوم مقام پر منتقل کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت خالد بن ولید، حضرت زھیر بن قیس اور حضرت امام حسن عسکری رضی اﷲ تعالیٰ عنھم کے مزارات پر بم دھماکے کرچکے ہیں اور کئی دیگر اولیاء کاملین کی قبروں کو کھود چکے ہیں۔
مسلمان کو مشرک کون سمجھے گا؟
ان افراد کا اس طرح کے اقدامات کرنے کا ایک بڑا محرک یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے سوا تمام مسلمانوں کو مشرک سمجھتے ہیں یا جو مسلمان ان کی بات پر عمل نہ کرے، وہ مشرک ہے۔ ان لوگوں کی نشانیاں حدیث میں بیان کردی گئی ہیں۔ چنانچہ صحیح ابن حبان میں ہے:
اخبرنا احمد بن علی بن المثنی حدثنا محمد بن مرزوق حدثنا محمد بن بکر عن الصلت بن بھرام حدثنا الحسن حدثنا جندب البجلی فی ھذا المسجد ان حذیفۃ حدثہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ان ما اتخوف علیکم رجل قرأ القرآن حتی اذا رئیت بھجتہ علیہ، وکان ردئاً للاسلام، غیرہ الی ما شاء اﷲ، فانسلخ منہ و نبذہ وراء ظھرہ، وسعی علی جارہ بالسیف، ورماہ بالشرک، قال: قلت: یانبی اﷲ! ایھما اولیٰ بالشرک المرمی ام الرامی؟ قال: بل الرامی
ترجمہ: ’’حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ(ص) نے فرمایا: مجھے تم لوگوں پر زیادہ خوف اس شخص کا ہے جو قرآن پڑھے گا یھاں تک کہ اس پر قرآن کی تر وتازگی دکھائی دینے لگے گی اور وہ اسلام کا مددگار بن کر اسلام کو بدلنے لگے گا اور اس سے نکل کر اسے پس پشت ڈال دے گا۔ اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر نکلے گا اور اس پر شرک کا الزام لگائے گا، حضرت حذیفہ کھتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اے اﷲ کے نبی! ان دونوں میں سے کون شرک کا حقدار ھوگا،جس پر الزام لگایا گیا یا الزام لگانے والا؟ حضور(ص) نے فرمایا: بلکہ وہ جس نے الزام لگایا‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق ان کے بڑے بدبختوں نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے، جس کی رو سے یہ لوگ ھر اس مسجد کو منھدم کرنا لازم و ضروری سمجھتے ہیں، جس سے متصل کسی ﷲ تعالیٰ کے نیک بندے (صحابہ و ولی) کی قبر ھو، لھذا اس حکم کے تحت اب تک کئی مساجد و مزارات کو شھید کیا جاچکا ہے، مزید یہ شر انگیزی جاری بھی ہے۔ یاد رھے کہ اس ناپاک حکم کے مطابق معاذ اﷲ تمام مساجد کے ساتھ ساتھ مسجد نبوی علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام، بھی شامل ہے۔ مزید تفصیل کے لئے فتاوٰی بن باز اور ناصر الدین البانی کی تحذیر الساجد پڑھیں تاکہ ان لوگوںکی گمراھیاں واضح ھوں۔
ان مذکورہ ممالک میں الحمدﷲ غیرت مند مسلمان زندہ ہیں، جو ’’سنی ملیشیا فورس‘‘ کے دستوں کی صورت میں اپنی حیثیت کے مطابق ان بدنصیبوں سے برسر پیکار ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی ان کے اس قبیح فعل پر شدید تشویش کا اظھار کیا اور مطالبہ کیا کہ فورا مزارات و مساجد کو شھید کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق بعض نام نھاد ’’اسلامی ممالک‘‘ ان دھشت گردوں کی ھر طرح سے حمایت کررھے ہیں، انھیں مال و اسلحہ فراھم کررھے ہیں۔ اگر ان لوگوں کے مقدر میں ھدایت ہے تو دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو ھدایت عطا کرے، ورنہ اپنی غیبی مدد سے ان سب لوگوں کو عبرت کا نشان بنادے۔
ان سطور میں ھم اس فعل قبیح کی سزا پر کچھ تحریر کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ناپاک فعل کے ناجائز و حرام ھونے کے دلائل قارئین کے سامنے پیش کریں گے۔
آج کل ان لوگوں کی پھچان دنیا بھر میں ’’نجدی، وھابی یا سلفی‘‘ (۱) کے نام سے ھوتی ہے۔ مذکورہ ممالک میں یھی ’’سلفی‘‘ وغیرہ اس قسم کی گستاخانہ حرکتوں میں ملوث ہیں۔ علامہ احمد بن علی بصری رحمتہ اﷲ علیہ اپنی کتاب ’’فصل الخطاب فی رد ضلالات ابن عبدالوھاب‘‘ میں اس گمراہ و بددین فرقے کے نظریات کا ذکر کرتے ہھوئے لکھتے ہیں:
’’منھا انہ صح انہ یقول (ابن عبدالوھاب) : لو قدر علی حجرۃ الرسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم لھد متھا‘‘
یعنی: من جملہ گستاخیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کھتا ہے: ’’اگر میں قدرت پاؤں تو روضۂ رسول(ص) کو توڑ دوں۔
ناصر الدین البانی نے ’’تحذیر الساجد‘‘ میں نجدی حکومت سے روضہ رسول(ص) کو مسجد نبوی سے خارج کرنے کا کھا ہے تاکہ مزار اقدس بالکل جدا ھوجائے اور آنا جانا مسجد سے بند ھوجائے۔ اس کے رد کے لئے ’’تبیین ضلالات الالبانی المتمحدث‘‘ کا مطالعہ لازمی ہے۔
مزید علامہ بصری رحمتہ اﷲ علیہ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’اقول: تھدیم قبور شھداء الصحابۃ المذکورین لأجل البناء علیٰ قبورھم ضلالۃ، ای: ضلالتہ‘‘ انتھی
یعنی: ’’نجدی کا شھداء صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم کی قبور کو قبوں کی وجہ سے توڑ ڈالنا اس ابن عبدالوھاب نجدی کی گمراھی ہے‘‘
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
قال بعضھم: ولو کان المبنی علیہ مشھورابالعلم والصلاح او کان صحابیا وکان المبنی علیہ قبۃ وکان البناء علیٰ قدر قبرہ فقط ینبغی ان لایھدم لحرمۃ نبشہ وان اندرس، اذا علمت ھذا فھذ البناء علیٰ قبور ھؤلاء الشھداء من الصحابۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم لایخلواما ان یکون واجبااو جائزاً بغیر کراھۃ وعلیٰ کل فلا یقدم علی الھدم الا رجل مبتدی ضال لاستلزامہ انتھاک حرمۃ اصحاب رسول اﷲ صلی تعالیٰ علیہ وسلم الواجب علی کل مسلم محبتھم ومن محبتھم وجوب توقیرھم وای توقیرھم عند من ھدم قبورھم حتی بدت ابدانھم واکفانھم کما ذکر بعض علماء نجد فی سوال ارسلہ، انتھی‘‘
یعنی: بعض علماء نے فرمایا کہ صاحب قبہ اگر کوئی مشھور عالم، متقی یا صحابی ہے اور قبہ صرف قبر کے برابر ھو تو اسے منھدم نھیں کرنا چاھئے کیونکہ خواہ اس کا نشان بھی کیوں نہ مٹ جائے مگر اس کا کھولنا جائز نھیں۔ اب آپ کو معلوم ھونا چاھئے کہ ان شھید صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم کی قبور پر عمارات بنانا تو واجب ھوگا یا بلا کراھت جائز۔ اور بھر دو صورت منھدم کرنا جائز نھیں، اور یہ صرف وھی شخص کرسکتا ہے جو بدعتی اور گمراہ ھو کیونکہ اس سے اصحاب رسول(ص) کی بے حرمتی ھوتی ہے، حالانکہ ان کی تعظیم اور توقیر ھر مسلمان پر واجب ہے۔ اب وہ لوگ تعظیم کرنے والے کیسے قرار پاسکتے ہیں جنھوں نے شھداء کی قبور کھود ڈالیں جبکہ بعض کے جسم اور کفن بھی صحیح سلامت ظاھر ھوگئے۔ جیسا کہ بعض علماء نجد نے ایک سوال کے جواب میں ذکر کیا ہے(۲)
افسوس…! جب سید المرسلین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت ان ملعونوں کا ایسا ناپاک خیال ہے اور ان کے روضۂ اطھر اور شھداء و صحابہ کرام علیھم الرضوان کی قبور کو منھدم کرنے کا بیھودہ خیال ہے تو باقی اموات عامہ مومنین صالحین کی نسبت اندازہ لگانا زیادہ مشکل نھیں، کیونکہ قبور مومنین صالحین کا توڑنا اور منھدم کرنا، شعار نجدیہ وھابیہ ہے اور شریعت مطھرہ میں یہ فعل قطعاً ناجائز و حرام ہے۔
اس کی حرمت پر دلائل
حاکم و طبرانی حضرت عمارہ بن حزم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس(ص) نے مجھے ایک قبر پر بیٹھے دیکھا، فرمایا:
یاصاحب القبر! انزل من علی القبر لا تؤذی صاحب القبر ولا یؤذیک
یعنی: او قبر والے! قبر سے اتر آ، نہ تو قبر والے کو ایذا دے نہ وہ تجھے (۳)
امام احمد علیہ الرحمہ بسند حسن انھیں حضرت عمر بن حزم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ سید عالم(ص) نے مجھے ایک قبر سے تکیہ لگائے دیکھا، فرمایا ’’لاتؤدی صاحب ہھذا القبر‘‘( اس قبر والے کو ایذا نہ دے) فرمایا : لاتوذہ (اسے تکلیف نہ پھنچا) (۴)
اسی واسطے فقھائے احناف علیھم الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’قبر پر رھنے کو مکان بنانا، یا قبر پر بیٹھنا، یا سونا، یا اس پر یا اس کے نزدیک بول و براز کرنا، یہ سب امور اشد مکروہ قریب بحرام ہیں۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
ویکرہ ان یبنی علی القبر او یقعد اوینام علیہ اویطأ علیہ او یقضی حاجۃ الانسان من بول او غائط… الخ
قبرپر عمارت بنانا، بیٹھنا، سونا، روندنا، یا بول و براز کرنا مکروہ ہے۔ (۵)
علامہ شامی رحمتہ اﷲ علیہ اس کی دلیل میں حاشیہ در مختار میں فرماتے ہیں:
لان المیت یتاذی بما یتاذی بہ الحی
یعنی: اس لئے کہ جس سے زندوں کو اذیت ھوتی ہے اس سے مردے بھی ایذا پاتے ہیں (۶)
بلکہ دیلمی نے ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا سے اس کلیے کی تصریح میں روایت کی کہ سرور عالم(ص) نے فرمایا:
المیت یؤذیہ فی قبرہ ما یؤذیہ فی بیتہ
میت کو جس بات سے گھر میں ایذا ھوتی ہے قبر میں بھی اس سے ایذا ھوتی ہے۔ (۷)
ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں سیدنا عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں: اذی المومن فی موتہ کاذاہ فی حیاتہ: مسلمان کو بعد موت تکلیف دینی ایسی ہے جیسے زندگی میں اسے تکلیف پھنچائی (۸)
علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ مسلمان کی عزت میں مردہ اور زندہ برابر ہیں۔ محقق علی الاطلاق رحمتہ اﷲ علیہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں:
الاتفاق علیٰ ان حرمۃ المسلم میتا کحرمتہ حیا
اس بات پر اتفاق ہے کہ مردہ مسلمان کی عزت و حرمت زندہ مسلمان کی طرح ہے (۹)
نبی کریم(ص) فرماتے ہیں:
کسر عظم المیت واذاہ ککسرہ حیائ، رواہ الامام احمد و ابو دائود وابن ماجۃ باسناد حسن عن ام المومنین عائشہ الصدیقۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
مردے کی ھڈی کو توڑنا اور اسے ایذا پھنچانا ایسا ھی ہے جیسے زندہ کی ھڈی کو توڑنا (۱۰)
قبر کھودنے والوں کا حکم
جب قبر پر بیٹھنا، اس پر ٹیک لگانا، پائوں رکھنا، یا کسی مردے کی ھڈی وغیرہ توڑنا حرام و ناجائز ہے تو اندازہ لائیں کہ کفن چرانا یا مردے کے جسم کو ھی اڑالے جانا اور قبریں کھود ڈالنا کس قدر برا جرم ھوگا۔
چنانچہ فتح القدیر، کتاب السرقۃ، ج 5،ص 137، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ میں ہے:
قال عبدالرزاق: اخبرنا ابراھیم بن ابی یحیی الاسلمی قال: اخبرنی عبداﷲ بن عامر من عبداﷲ بن عامر بن ربیعۃ انہ وجد قوما یختفون القبور بالیمن علی عھد عمر بن الخطاب، فکتب فیھم الی عمر، فکتب عمر رضی اﷲ عنہ ان اقطع ایدیھم
یعنی: مصنف عبدالرزاق میں ہے: عبداﷲ بن عامر بن ربیعہ کھتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں یمن کے کچھ لوگ قبر کھود کر کفن چرانے لگے تو آپ رضی اﷲ عنہ نے وھاں کے گورنر کو لکھا کہ ان کے ھاتھ کاٹ دیئے جائیں۔
فاحسن منہ بلاشک مارواہ ابن ابی شیبۃ: حدثنا عیسی بن یونس عن معمر عن الزھری قال: اتی مروان بقوم یختفون: ای ینبشون القبور فضربھم ونفاھم والصحابۃ متوافرون اخرجہ عبدالرزاق فی مصنفہ اخبرنا معمر بہ وزاد وطوف بھم
یعنی: اس سے عمدہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں زھری سے مروی ہے کہ مروان بن حکم کے پاس کفن چرانے والوں کو پکڑ کر لایا گیا تو اس نے حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کی موجودگی میں ان لوگوں کو تعزیراً کوڑے لگوائے اور ملک بدر کردیا۔ مصنف عبدالرزاق میں یہ اضافہ ہے کہ ’’مروان نے انھیں شھر بھر میں پھرایا‘‘
وکذا احسن منہ بلاشک ماروی ابن ابی شیبۃ ئی حدثنا حفص عن اشعث عن الزھری قال: اخذنباش فی زمن معاویۃ وکان مروان علی المدینۃ فسال من بحضرتہ من الصحابۃ والفقھاء فاجمع رأیھم علی ان یضرب ویطفا بہ
یعنی: نیز اس سے عمدہ روایت بلاشبہ یہ بھی ہے جسے مصنف ابن ابی شیبہ میں زھری سے روایت کیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ زمانے میں مدینے کا گورنر مروان تھا۔ اس وقت مروان کے پاس ایک کفن چور کو پکڑ کر لایاگیا۔ اس نے وھاں موجود صحابہ و فقھاء سے اس کی سزا کے بارے میں پوچھا۔ تو سب کی رائے اس پر متفق ھوئی کہ اسے تعزیراً کوڑے ما رکر شھر بھر میں پھرایا جائے۔
ان سرکشوں کی سزا کیا ھونی چاھئے؟
اولا راقم الحروف کھتا ہے کہ جب کفن چور کی سزا یہ مقرر ھوئی کہ کوڑے مار کر، شھر بھر میں پھرایا جائے اورپھر ملک بدر کردیاجائے تو اندازہ لگائیں کہ معاذ اﷲ صحابہ کرام واولیائے عظام رضی اﷲ عنھم اجمعین کے مزارات کی بے حرمتی کرنا، ان کے اجسام کو ایذا پھنچانا کس قدر سخت حرام ھوگا۔ اس کی سزا فی زمانہ تعزیراً قتل سے کم نھیں ھونی چاھئے، کیونکہ یہ لوگ بزور اسلحہ طاقت کا استعمال کررھے ہیں، جو یقینا قرآن کریم کی سورۂ مائدہ کی آیت 33 کے مطابق اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول(ص) سے جنگ اور زمین میں فساد برپا کرنے کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سزا بحکم قرآنی ایسے لوگوں کو چن چن کر قتل کرنا، یا سرعام پھانسی دینا، یا دایاں ھاتھ اور بایاں پائوں کاٹنا بنتی ہے۔
ولکن اقول: جھاں تک تعلق رھا ملک بدر کرنے کا تو یہ آج کل اتنا مفید نھیں، کیونکہ اگر یہ سرکش لوگ بچ کر کھیں دوسرے ملک نکل گئے تو دشمن عناصر ان کی وھاں پشت پناھی کریں گے اور خدانخواستہ یہ لوگ اسی ملک میں یہ فساد برپا کرنا شروع کردیںگے۔
ثانیاً: تمام مسالک کے علماء یہ فیصلہ کریں کہ جن کتب میں اس طرح کا گمراہ کن مواد موجود ہے، ان سے فوراً لاتعلقی کا اظھار کریں۔ مثلا فتاویٰ بن باز، فتاویٰ البانی اور تحذیر الساجد وغیرہ۔
ثالثاً: جس مسالک میں ایسے لوگ ہیں، ان مسالک کے علماء فورا ایسوں سے بے زاری کا اعلان کریں
رابعاً: مسلمان ممالک سفارتی سطح پر کوششیں کریں اور جن ممالک میں اس طرح کے افسوس ناک واقعات ھورھے ہیں، ان سے مجرموں کو کیفر کردار تک پھنچانے کا مطالبہ کریں۔
خامساً: اگر یہ کام کسی ملک کی سربراھی میں ھورھا ہے تو اس ملک سے ھر قسم کے تعلقات کا بائیکاٹ کیا جائے۔
اولاً: مقام مصطفی(ص)، عظمت صحابہ و اولیاء کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف کانفرنسوں، علمی مذاکروں اور نشستوں کا اھتمام کیا جائے۔
ثانیاً: تعلیمی نصاب میں باقاعدہ معظمان دینی کی حیات کے مختلف خوشبودار گوشوں کو شامل کیا جائے۔
ثالثاً: جامعات اور کالجز کی سطح پر تحقیقی مقالاجات لکھے جائیں۔
رابعاً: ان گمراہ افراد کے رد میں لکھی کئی کتب وتحریرات کو خود بھی پڑھیں اور اپنی اولاد کو بھی پڑھائیں تاکہ حقیقت حال واضح ھوجائے۔ مثلا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی کتاب ’’اھلاک الوھابیین فی اھانۃ قبور المسلمین۔
آخر میں غیرت مند مسلمانوں سے التجا ہے کہ اس گمراہ گروہ کے افعال قبیحہ پر نہ صرف احتجاج کریں اور اپنی آواز بلند کریں، بلکہ اپنی نسلوں کو ان لوگوں کے سائے سے بھی محفوظ رکھیں۔ خصوصا ان سرکشوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ عام مسلمانوں کو ان کے مکروہ عزائم سے خبردار کریں کہ یہ ھماری دینی ذمہ داری ہے، کیونکہ بحکم حدیث ایسے لوگوں کے کرتوتوں کا دیگر لوگوں کو بتانا ضروری ہے تاکہ وہ لوگ ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ ارباب اختیار عالمی سطح پر عملی اقدامات کریں۔ اﷲ تعالیٰ ھمارا حامی و ناصر ھو، آمین
حوالہ جات
۱… ’’سفلی‘‘ پڑھنا زیادہ بھتر ہے، ۱۲ منہ۔
۲… فتاویٰ رضویہ ج ۹، ص ۴۲۸۔۴۳۱، ملخصاً۔
۳… شرح الصدور بحوالہ الطبرانی والحاکم باب تاذیہ بسائرہ وجوہ الاذی، خلافت اکیڈمی سوات، ص ۱۲۶۔
۴… مشکواۃ المصابیح بحوالہ حم عن عمرو بن حزم باب دفن المیت، مطبع مجتبائی، دھلی، ص ۱۴۹۔
۵… فتاویٰ ہندیہ، الفصل السادس فی القبر والدفن، نورانی کتب خانہ پشاور، ج ۱، ص ۱۶۶۔
۶… ردالمحتار، فصل الاستنجائ، ادارۃ الطباعۃ المصریۃ، مصر، ج۱، ص ۲۲۹۔
۷… الفردوس بما ثور الخطاب، حدیث دارالکتب العلمیہ بیروت، ج ۱، ص ۱۹۹۔
۸… شرح الصدور بحوالہ ابن ابی شیبہ باب تاذیہ بسائرہ وجوہ الاذی خلافت اکیڈمی سوات، ص ۱۲۶۔
۹… فتح القدیر، فصل فی الدفن، مکتبہ نوریہ رضویہ، سکھر، ج ۲، ص ۱۰۲۔
۱۰… سنن ابی دائود، کتاب الجنائز، آفتاب عالم پریس لاھور، ج ۲،ص ۱۰۲۔
توھین قبور کرنے والوں کی سزا
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیوں کے کارنامے
- بازدید: 2879
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
17
Online