تاریخ اسلام میں ظھور اسلام سے لیکر ساتویں صدی تک ،حتی ظھوراسلام سے پھلے بھی اس طرح کا کوئی سوال نہ تھا.مزارات کو مسمار کرنے کا حکم نہ ھی حضور(ص)نے دیا اور نہ ہی خلفاء راشدین نے دیا۔ لیکن گیارھویں صدی کی آغوش میں پرورش پانے والے نجدی جب بارھویں صدی میں قدم رکھتے ہے تو ابن تیمیہ کے اصولوں کے مطابق ایک ایسے مذھب کو جنم دیتے ہیں کہ جس میں مزارات کی تعمیراور قبور پر جانا شرک قرارپاتا ہے۔یعنی ان سے پھلے والے علماءا ور خلفاۓ راشدین اسلام کوان سے بھترنھیں جانتے تھے ۔جو کہ بلکل غلط سوچ ہے۔
علماء اھل سنت کے مطابق جب قبر پر خیمہ کسی فائدہ کی بنا پر لگایا جائے مثلا قاری خیمہ کے نیچے بیٹھ کر قرآن مجید پڑھے تو پھر اس کی حدیث میں ممانعت نھیں ہے مشھور علماء اور مشایخ نے سلف صالحین کی قبروں پر عمارت بنانے کو جائز قرار دیا ہے تاکہ لوگ ان کی زیارت کریں اور آرام سے بیٹھیں ۔
جبکہ اس سے یہ مقصود ھو کہ عوام کی نگاھوں میں ان کی تعظیم پیدا کی جائے تاکہ وہ صاحب قبر کو معمولی نہ سمجھیں ۔علماء اور صلحاء کی قبروں پر گنبد بنانا اور ان کی قبروں پر چادریں اورعمامے چڑھانا جائز کام ہے اسی طرح ان کی قبروں کے پاس قندیلیں اور شمع کو روشن کرنا بھی باب تعظیم میں سے ہے کیونکہ اس میں نیک مقصد ہے اور تیل اورشمعوں کی نذر اللہ کے لئے ھوتی ہے جو ان کی قبروں پر ان کی تعظیم اور ان سے محبت کے اظھار کے لئے جلائی جاتی ہیں یہ بھی ایک جائز کام ہے اس سے منع نھیں کرنا چاھئے ۔ ھاں بلکہ حد سے گزر کر قبروں کو سجدے کرنا اور قبر والے کو وسیلہ نھیں بلکہ خود دینے والا ماننا غلط ہے۔
قبروں کی تعمیر اور اس کو آباد کرنا تو قرآن و حدیث کی روشنی میں چند پھلوؤں سے ثابت ہے ۔
قرآن سے ثبوت:
١ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا( سورہ کھف،آیت ۲۱ ) میں اصحاب کھف کے واقعہ کو بیان کرتے ھوئے فرماتا ہے کہ جب اصحاب کھف دوبارہ غار میں آئے اور جوار رحمت حق میں منتقل ھو گئے تو دوگروہ وھاں پر پھونچے ، ایک گروہ مخالف تھا ، جو چاھتا تھا کہ اس واقعہ کو پوشیدہ رکھاجائے چناچہ انھوں نے کھا : ابنوا علیھم بنیایاّ ، اس قبر کے اوپر عمارت بناو تاکہ لوگ اس واقعہ کو بھول جائیں ، دوسرا گروہ جو اس امر میں کامیاب ھوا تھا اس واقعہ کو زندہ رکھنا چاھتا تھا لھذٰا کھا :لنتخذ نّ علیھم مسجداّ، ھم اس جگہ کو مسجد قرار دینگے ، قرآن نے ان دونوں نظریہ کو نقل کیا ہے لیکن کسی کی مذمت نھیں کی اگر ان دونوں گروھوں میں سے کسی کا بھی نظریہ باطل ھوتاتو قرآن ان پر تنقید ضرور کرتا، لھذٰا قرآن کا ان دونوں نظریوں پر تنقید نہ کرنا اور اعتراض آمیز پھلو اختیار نہ کرنا اس بات کی مکمل دلیل ہے کہ اولیاء خدا و صالحین کی قبروں کی تعمیر اور ان کو آباد کرنا شرک نھیں بلکہ جائز ہے ۔
۲۔ )سورہ حج آیت ۳۲) میں خدا وند فرماتا ہے کہ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ، جو شخص بھی شعائراللہ (یعنی اللہ کے دین کی نشانیوں ) کی تعظیم کرتا ہے یہ قلوب کے تقوی کی علامت ہے معلوم ھوا کہ اس کے دین کی جتنی بھی نشانیاں ہیں اس کی تعظیم و تکریم کرناخوشنودی پروردگار کا سبب ہے ،پس اگر تم صفا و مروا کو شعائر اللہ کھتے ھو ، مزدلفہ کو شعائر اللہ کھتے ھو ،منی ٰ میں قربان ھونے والے جانور کو شعائر اللہ کھتے ھو تو پھر انبیاء و اولیاء خدا تو بدرجہ اولی ٰ شعائر اللہ ہیں کیونکہ یہ دین الھٰی کی روشن ترین دلیلیں ہیں اور بزرگ ترین نشانیاں ہیں انھیں کے قوت بازو سے پرچم اسلام بلند ھوا انھیں کی سیرت دیکھ کر عدل و انصاف کا نظام قائم ھوا جب یہ شعائر اللہ ہیں تو انکی تعظیم ضروری ہے ، اور تعظیم کا ایک طریقہ یہ ھیکہ انکے آثار و قبور کی حفاظت کی جائے نہ یہ کہ ان کو منھدم کر دیا جائے ۔
۳۔ )شوری ٰ کی آیت ٢٣) قُل لَّا أَسْئلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ ٰ ، صریحا اھلبیت کی شان میں نازل ھوئی کہ جس میں لوگوں کو اھلبیت کی محبت اور مودت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، اگر عالم اسلام سے سوال کیا جائے کہ اھلبیت سے محبت و مودت کی کیا روش ہے تو حتمی طور سے عالم اسلام جواب دیگا کہ تمام روشوں میں سے ایک روش یہ بھی ہے کہ انکی قبروں کو تعمیر اور ان کو آباد کیا جائے یہ طریقہ تمام ملتوں میں رائج ہے کہ وہ تعمیر قبر کو صاحب قبرسے اظھار محبت و عقیدت کی علامت سمجھتے ہیں اب جن لوگوں نے جنت البقیع کو منھدم کیا وہ صرف شعار اللہ کی ھی اھانت نھیں کر رھے ہیں بلکہ قرآن کے خلاف آواز بلند کرر ھے ہیں جبکہ قرآن قبروں کی تعمیر کو اور ان کو آ باد کرنے کو جائز بتا رھا ہے ۔
٤۔قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ (سورۃ الممتحنة ،آیت ۱۳)
ترجمہ: وہ تو آخرت سے ایسے نا امید ھو گئے کہ جیسے کافر اھلِ قبور سے نا امید ھو گئے-
اس ایت سے یہ بھی معلوم ھوتا ہے کہ قبر والے فیض دے سکتے ہیں ان سے مایوس ھونا کفر ہے۔ معلوم ھوا کہ قبروں کی زیارت اور ان کو آباد کرنا سیرہ پیغمبر اکرم (ص) ہے لیکن اگر کسی کی قبر پر جانے سے روکا گیا ہے تو وہ منافقین ہیں جیسا کہ سورہ توبہ آیت ٨٤ میں خدا وند فرماتا ہے کہ : ولا تقم علی ٰ قبرہ للد فن او لزیارة ، ان منافقین کی قبرپر نہ انکے دفن کی خاطر کھڑے رھو اور نہ ھی ان کی زیارت کے لئے ۔
۵۔ حدیث سے ثبوت: آباد کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہےکہ لوگ اس کی زیارت کو جائیں ، اسکے متعلق پیغمبر اسلام (ص) کی متعدد حدیثیں کتابوں میں مرقوم ہیں ''صحیح ابن ماجہ جلد ١ ص ١١٣ پر پیغمبر اسلام (ص) سے نقل ہے کہ : قال رسول اللہ (ص) زوروا القبور فانھا تذ کرکم الآ خرة ، قبروں کی زیارت کے لئے جایا کرو اس سے آخرت کی یاد تازہ ھو جاتی ہے
۶۔ نیز پیغمبر اسلام (ص) خود قبروں کی زیارت کے لئے جنت البقیع جایا کرتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم جلد ٣ ص ٦٣پر عائشہ سے نقل ہے کہ پیغمبر اسلام شب کے آخری حصہ میں جنت البقیع میں جاکر فرماتے تھے :السلام علیکم دار قوم مومنین و اتاکم ما تو عدون غدا موجلون و انا ان شا ء اللہ بکم لاحقون اللھم اغفر لاھل البقیع الغر قد ،
نتیجہ : سب ثبوتوں سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انبیا ء و اولیاء خدا و صالحین و مومنین کی قبروں کی تعمیر اور انکو آباد کرنا شرک نھیں ہے بلکہ منافقین کی قبروں کو آباد کرنا شرک ہے. نیز عورتوں کا قبروں پر جانا منع نھیں ہے۔ مگر ان کی ضعیف العتقدی کی وجہ سے منع فرماتے ہیں یا کم جانے کو ھی بھتر سمجھتے ہیں۔
وھابیوں کے نزدیک علت انھدام قبور بس یہ ہے کہ'' پیغمبر واولیاء خدا کی قبروں کی تعمیر یا اس پر عمارت (یعنی روضہ )بناناحرام ہے اور اگر قبریں یا ان پر عمارت ھوں تو انھدام واجب ہے '' اس مسئلہ کی بنیاد ابن تیمیہ کے شاگرد ابن القیم نے ساتویں صدی میں رکھی تھی ،وہ اپنی کتاب ''زاد المعاد''(ص ٦٦١) پر لکھتا ہے کہ : ''یجب ھدم المشاھد التی بنیت علی القبور ولایجوزابقاء ھا بعد القدرة علی ھدمھا وابطالھا یوما واحدا ''(قبروں پر تعمیر شدہ عمارتوں کو ڈھانا واجب ہے اور امکان انھدام وویرانی کی صورت میں ایک روز بھی تاخیر جائز نھیں ہے )۔
وھابی اس مسئلہ کی اتباع میں ابن القیم کو اپنا رھبر بناتے ہیں اور کہ علماء اسلام کا اسکی حرمت پر اجماع ہے ابی الھیاّج کی امیرالمومنین سے نقل شدہ حدیث ۔
پھلی دلیل کہ علماء اسلام کا اس کی حرمت پر اجماع ہے صریحاّ غلط ہے ، اور یہ مشاھدات میں سے ہے ، اور دوسری دلیل حضرت علی سے نقل شدہ حدیث ہے کہ جس کو صحیح مسلم کتاب الجنائز جلد ٣ ص ٦١، اور سنن ترمذی جلد ٢ص ٢٥٦ پر نقل کیا ہے ، اسکا متن یہ ھیکہ ، صحیح مسلم کے مولف تین افرد بنام یحی ٰ ، ابو بکر اور زبیر سے نقل کرتے ہیں کہ ،سفیان سے ، سفیان حبیب سے ، حبیب ابی وائل سے ، اور ابی وائل ابی الھیاّج سے نقل کرتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب نے ابی الھیاّج سے فرمایا کہ میں تمھارے ذمہ وہ کام لگا رھا ھوں کہ جو پیغمبر اسلام (ص) نے میرے سپرد کیا تھا ، وہ یہ ہےکہ :'' ا ن لا تدع تمثالا طمستہ ولا قبرامتر فاالاسویتہ'' جو تصویر نظر آئے اسے مٹا دو اور ھر بلند قبر کو برابر کر دو "
علم رجال کی روشنی میں جب اس حدیث کے راویوں پر غور کر ینگے تو معلوم ھوگا کہ یہ حدیث مورد اطمینان نھیں اور ضیعیف ہے ، کیونکہ پانچ راویوں میں سے اسکا کوئی بھی راوی تمام حدیث شناس علماء کی نظر میں قابل اعتماد نہیں ہے ۔
پہلا راوی ''وکیع''کہ جسکے بارے میں کتاب تھذیب التھذیب جلد ١١ ص ١٢٥ پر امام احمد بن حنبل سے نقل کرتے ھوئے کھتے ہیں کہ :انہ اخطا فی خمس ما ة حدیث ، اس نے پانچ سو حدیثوں میں خطا کی ہے ۔ اسی طرح دوسرے دو کا بھی یھی حال ہے ۔چوتھا راوی ''ابی وائل '' کہ جس کے بارے میں شرح حدیدی جلد ٩ ص ٩٩ پر ملتا ہے کہ اس کا تعلق ناصبیو ں اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے مخالفین میں سے تھا۔
قبروں پر گنبد بنانا اور چادریں چڑھانا
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیوں کے کارنامے
- بازدید: 2931
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
5
Online