ابن تیمیہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی قبر کی زیارت کے بارے میں کھتا ھے کہ آنحضرت (ص)کی قبر کی زیارت کے مستحب ھونے کے بارے میں کوئی حدیث وارد نھیں ھوئی ھے، اور زیارت کے بارے میں جو احادیث وارد ھوئی ھیں وہ سب غیر صحیح اور جعلی ھیں، اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ آنحضرت (ص) کا وجود ان کی زندگی کی طرح آپ کی وفات کے بعد بھی ھے تو گویا اس نے بھت بڑی غلطی کی ھے۔
چنانچہ وھابی حضرات بھی اسی طرح کا عقیدہ رکھتے ھیں بلکہ ابن تیمیہ سے بھی ایک قدم آگے ھیں۔
خلاصہ یہ ھے کہ وھابیوں کے یھاں زیارت نام کا کوئی عمل نھیں ھے، چنانچہ اسی نظریہ کے تحت تمام قبریں مسمار کردی گئی اور روضہ رسول کو بھی اس کی حالت پر چھوڑ دیا گیا، اور اس وقت اس طرح ھے کہ کوئی بھی آپ کی قبر مطھر کے نزدیک نھیں ھوسکتا ھے اور کوئی آپ کی قبر مطھر کو ھاتھ نھیں لگاسکتا ۔
روضہ منورہ کے چاروں طرف دیوار ہے اور ھر طرف ایک حصے میں جالی لگی ھوئی ہے اور ان جالیوں کے پاس شرطے (محافظ) کھڑے رھتے ھیں اور اگر کوئی آنحضرت (ص) کے روضہ کی جالی کے نزدیک ھونا یا ھاتھ لگانا چاھتا ھے تو وہ روک دیتے ھیں، اور اگر کوئی شرطوں کی غفلت کی وجہ سے جالیوں کے اندر سے جھانک کر دیکھتا بھی ھے تو پھلے تو وھاں تاریکی نظر آتی ھے اور جب اس کی آنکھ کام کرنا شروع کرتی ھیں تواندر دکھائی دیتا ھے کہ ایک ضخیم پردہ ھے جو قبر کے چاروں طرف زمین سے چھت تک موجود ھے یعنی قبر مطھر کو بالکل بھی دیکھا نھیں جاسکتا۔
ابن تیمیہ اور اس کے پیرو کاروں کا عقیدہ ھے کہ آنحضرت (ص) کی قبر کی زیارت کرنا حرام ہے ۔
پیغمبر اکرم (ص) کی عظمت
آلوسی ، اگرچہ وھابیوں کے بھت زیادہ حمایت کرنے والے اور طرفدار ھیں، لیکن اس نے حضرت رسول اکرم (ص) کی عظمت کے سلسلہ میں تفصیل سے گفتگو کی ھے، چنانچہ موصوف فرماتے ھیں کہ آنحضرت (ص) کی عظمت دوسرے تمام لوگوں سے مطلق طور پر بلند و بالاھے اور یہ کہ آنحضرت (ص) اپنی قبر میں بھی زندہ ھیں، اور جو شخص بھی حضرت کو سلام کرتا ھے آنحضرت اس کے سلام کو سنتے ھیں، اور آپ کی وفات کے بعد کی زندگی شھداء کی زندگی سے روشن ترھے کیونکہ خداوندعالم قرآن مجید میں ان کی بھترین زندگی کے بار ے میں ارشاد فرماتا ھے:
"وَلاٰ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھمْ یُرْزَقُوْنَ"(۱)
” اور خبر دار راہ خدا میں قتل ھونے والوں کو مردہ خیال نہ کرو، وہ زندہ ھیں اور اپنے پرور دگار کے یھاں سے رزق پارتے ھیں۔“
اگرچہ ابن تیمیہ اپنے فتووں کے ضمن میں کھتا ھے کہ قبر میں مردے بھی گفتگو کرتے ھیں اور دوسروں کی باتوں کو سنتے ھیں اور قبر میں ا ن سے سوال وجواب بھی ھوتے ھیں۔ (۲)
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیسا کہ ھم نے اس کی کتاب "الرد علی الاخنائی"سے یہ بات نقل کی تھی کہ وہ زیارت سے متعلق تمام حدیثوں کو جعلی اور ضعیف بتاتے ھیں، یھی نھیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کھا کہ اگر کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ آنحضرت (ص) کی وفات کے بعد ان کا وجود ان کی زندگی کے مثل ھے تو اس نے بھت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ھے.
اور اس کے مثل بلکہ اس سے زیادہ سخت بات محمد بن عبد الوھاب اور اس کے پیروکاروں نے کھی، لھٰذا یھاں پر یہ بات کھی جاسکتی ھے کہ آلوسی صاحب کا نظریہ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کے نظریہ سے مخالف ھے۔
حافظ وھبہ وھابیوں کے عقائد کے بارے میں ان کی طرف سے دفاع کرتے ھوئے آنحضرت (ص) کی عظمت کے بارے میں کھتے ھیں، کہ شیخ محمد بن عبد الوھاب اور اس کے تابع افراد کی طرف نسبت دی گئی کہ وہ آنحضرت (ص)کی طرف کراھت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ کی اور دیگر انبیاء کی عظمت گھٹاتے رھتے تھے، جس طرح کہ یہ نسبت ابن تیمیہ اور اس کے تابع افراد کی طرف بھی دی گئی ھے، اس نسبت کی وجہ یہ ھے کہ اھل نجد (وھابی لوگ) اس حدیث رسول پر اعتقاد رکھتے ھیں کہ آپ نے فرمایا:
”لاٰ تَشُدُّوْا الرِّحَالَ اِلاّٰ اِلٰی ثَلاَثةَ مَسَاجِدَ ، اَلْمَسْجِدُ الْحَرَامُ وَمَسْجِدِیْ ھذَا، وَالْمَسْجِدُ الاَ قْصیٰ“
یعنی تین مسجدوں کے علاوہ سفر کرنا جائز نھیں : مسجد الحرام خانہ کعبہ، مسجد النبی ، اور مسجد الاقصی بیت المقدس۔
اور اسی حدیث کی بناپر انبیاء (ع)اور صالحین کی قبور کی زیارت کو بدعت کھتے ھیں اور چونکہ کسی بھی صحابی اور تابعین نے یہ کام انجام نھیں دیا ، اور پیغمبر اکرم (ص) نے بھی اس کام کا حکم نھیں دیا۔
اسی طرح اھل نجد (وھابی حضرات) قبر پیغمبر اکرم (ص) اور دوسروں کی قبروں کے سامنے دعا پڑھنے، یا آنحضرت (ص) کی یا دوسروں کی قبر پر سجدہ کرنے ، ان کی قبروں پر ھاتھ پھیرنے ، اور اپنے اوپر قبر کے اطراف کی مٹی ملنا، خلاصہ یہ کہ ھر وہ کام جس میں استغاثہ کی بو آتی ھو، ممنوع قرار دیدیا۔
تیسری بات یہ ھے کہ قبروں کے اوپر بنی گنبدوں کے مسمار کرنے کا فتویٰ دیتے ھیں اور ان کے نزدیک قبر کے لئے کوئی چیز وقف کرنا بھی باطل ھے۔
چوتھے یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) کی شان میں بُوصِیری کا ”غلام نامی قصیدہ" پر اعتراض کرتے ھیں اور ان کا انکار کرتے ھیں، مثلاً یہ شعر:
”یَا اَکْرَمَ الْخَلْقِ مَالِی مَنْ الْوَذِبُہ سِوَاکَ عِنْدَ حُلُوْلِ الْحَادِثِ الْعَمَمِ“
(اے مخلوق خدا میں سب سے کریم، میں مشکلات کے وقت آپ کی پناہ گاہ کے علاوہ کوئی پناگاہ نھیں رکھتا)
اور اسی طرح یہ مصرع :
” وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمُ اللَّوْحِ وَالْقَلِمِ“
(اے پیغمبر خدا (ص) آپ کے علوم میں سے ، علم لوح وقلم بھی ھے )
اور اسی طرح یہ شعر:
”اِنْ لَمْ تَکُنْ فِیْ مَعَادِیْ آخِذاً بِیَدِیْ
فَضْلاً وَاِلاّٰ فَقُلْ یَا زَلَّةَ الْقَدَمِ “(387)
(اگر آپ نے روز قیامت اپنے فضل وکرم سے میری مدد نہ کی تو میرے پاوٴں لڑکھڑائیں گے۔)
کیونکہ یہ باتیں غلو اور بے ہودہ ھیں جو قرآن اور احادیث صحیح کے خلاف ھیں، حافظ وھبہ اس کے بعد اس طرح کہتے ھیں کہ وھابیوں کا یہ بھی اعتقاد ھے کہ ان باتوں پر اعتقاد رکھنے والا شخص مشرک اور کافر ھے۔
قارئین کرام ! یہ تھیں وہ چند چیزیں جن کی وجہ سے وھابیوں کے دشمنوں نے ا ن پر یہ تہمت لگائی کہ یہ لوگ پیغمبر اکرم (ص) کو کراھت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں ، اسی طرح دوسری نسبتیں بھی دیں مثلاً یہ کہتے ھیں کہ ہمارا عصا پیغمبر سے بہتر ھے۔
حافظ وھبہ مذکورہ بحث کو آگے بڑھاتے ھوئے کہتے ھیں کہ حقیقت یہ ھے کہ اھل نجد (وھابی حضرات) سب سے زیادہ پیغمبر اکرم (ص) سے محبت کرتے ھیں لیکن غلو کو برا سمجھتے ھیں اور ھر طرح کی بدعت سے مقابلہ کرتے ھیں، اور کہتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص) سے محبت یہ ھے کہ انسان آپ کی بتائی ھوئی ھدایتوں اور راھنمائیوں پر عمل کرے، لیکن بدعتوں کا انجام دینا اور دینی امور کوترک کرنا یا ہوا وہوس کا پیچھا کرنا پیغمبر اکرم (ص)اور دین اسلام کی توہین ھے نہ یہ کہ اس کو پیغمبراکرم (ص) سے محبت کا نام دیا جائے۔ (388)
گویا مشہور ومعروف شخصیت مثل حافظ وھبہ اس کوشش میں ھیں کہ بعض افراطی اور متعصب وھابیوں کے غیر منطقی اور ناپسند عقائد کا دفاع کریں اور ان کے عقاءدکو اس طرح بیان کرتے ھیں تاکہ سامنے والا ان کو اچھا سمجھے، اور لوگوں کو یہ بتائے کہ وھابیوں کی طرف یہ نسبتیں ان کے دشمنوں کی طرف سے دی گئی ھیں۔
حوالہ جات:
(385)تاریخ نجد وحجاز ص ۵۰، سورہ آل عمران آیت ۱۶۹.
(387) ابو عبد اللہ شرف الدین محمد ابن سعید بو صیری، جو ساتویں صدی کے مشھور ومعروف شعراء کرام میں سے تھے اور آنحضرت ﷺکی شان مبارک میں ”غلام نامی “ایک بہت عظیم الشان قصیدہ کہا جو عربی زبان کے مشھور قصیدوں میں سے ھے جس کا پھلا شعر اس طرح ھے:
”اَمِنْ تَذَکِّرِ جِیْرَانٍ بِذِیْ سَلَمٍ مَزَجْتُ دَمْعاً جَریٰ مِنْ مُقْلَةٍ بِدَمٍ“
اور ان اشعار کی بہت سی شرحیں بھی لکھی گئیں، وھابی علماء میں ان اشعار کا سب سے پہلے انکار کرنے والے شیخ عبد الرحمن آل شیخ صاحب فتح المجیدہیں ، چنانچہ موصوف فتح المجید ص ۱۸۵،میں کہتے ھیں: کس طریقہ سے پیغمبر اکرم ﷺ سے ان کی وفات کے بعد استغاثہ کیا جائے اور ان سے ایسی چیزوں کی درخواست کی جائے جن کو خدا کے علاوہ کوئی دوسرا کرنے پر قادر نہیں ھے، جیسا کہ بوصیری اور برعی وغیرہ نے اپنے اشعار میں کسی ایسے شخص سے استغاثہ کرتے ھیں جو خود اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک ھیں نہیں اور اپنی موت وحیات اور حشر ونشر ان کے اختیار سے خارج ھیں، (جبکہ یہ سب باتیں پیغمبر اکرم ﷺ کی شان میں ہورہی ھیں) اور خدا وندعالم سے استغاثہ کرنے سے پرہیز کرتے ہیں وہ خدا جو ہر چیز پر قادر ھے.
(388)جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۴۳، ۳۴۴، عصا کا موضوع اور وھابیوں کی اس سے بھی لمبی لمبی باتیں سننے کے لئے کشف الارتیاب تالیف علامہ امین ،ص ۱۳۹ ،اور اسی طرح کتاب خلاصة الکلام زینی دحلان پر رجوع فرمائیں.