ابو محمد حسن بن علی بن خَلَفِ بربھاری جو بغدادی حنبلیوں کا رئیس تھا؛اور کچھ خاص نظریات رکھتا تھا، اور اگر کوئی شخص اس کے عقائد اور نظریات کی مخالفت کرتا تھا اس کی شدت سے مخالفت کرتا تھا، اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیتا تھا، اس کے ساتھی لوگوں کے گھروں کو ویران کردیتے تھے اور لوگوں کو خرید و فروخت سے بھی روکتے تھے، اور اگر کوئی اس کی باتوں کو نھیں مانتا تھا تو اس کو بھت زیادہ ڈارتے تھے۔
بربَھاری کے کاموں میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ حضرت امام حسین(ع)پر نوحہ وگریہ وزاری ، اور کربلا میں زیارت کرنے کو منع کرتا تھااور نوحہ ومرثیہ پڑھنے والوں کے قتل کا حکم دیتا تھا۔
چنانچہ ”خِلب“نام کے ایک شخص اچھی آواز والے نوحہ خواں جو نوحہ اور مرثیہ پڑھنے میں بھت ماھر تھا، جس کا ایک قصیدہ تھا جس کا پھلا شعر یہ ہے:
اَیُّھا الْعَیْنَانِ فَبِضٰا وَاسْتَھلاٰ لاٰ تَغِیْضٰا
جو امام حسین(ع)کی شان میں پڑھا کرتا تھا ، ھم نے اس کو کسی ایک بڑے گھرانے میں سناہے۔ اس زمانے میں حنبلیوں کے ڈر سے حضرت امام حسین(ع)پر نوحہ ومرثیہ پڑھنے کی جراٴت نھیں ھوتی تھی، اور مخفی طور پر یا بادشاہ وقت کے پناہ میں امام حسین(ع)کی عزاداری بپا ھوتی تھی۔ اگرچہ ان نوحوں اور مرثیوں میں حضرت امام حسین کی مصیبت کے علاوہ کچھ نھیں ھوتا تھا اور اس میں سلف کی مخالفت بھی نھیں ھوتی تھی،لیکن اس کے باوجود بھی اگر بربھاری کو اطلاع ھوجاتی تھی تو نوحہ خوان کو تلاش کراتا تھا اور اس کے قتل کا حکم دیدیتا تھا۔
اس زمانے میں حنبلیوں کا بغداد میں اچھا خاصا رسوخ تھا جس کی بناپر ھمیشہ فتنہ وفساد کرتے رھتے تھے۔(۱) جس کا ایک نمونہ محمد ابن جَرِیر طبری صاحب تاریخ پر حملہ تھا:
طبری ، اپنے دوسرے سفر میں طبرستان سے بغداد پھونچے اور جمعہ کے روز حنبلیوں کی جامع مسجد میں پھونچے وھاں پر ان سے احمد حنبل اور اس حدیث کے بارے میں جس میں خدا کے عرش پر بیٹھنے کا تذکرہ ہے ، نظریہ معلوم کیا، تو اس نے جواب دیاجو احمد حنبل کی مخالفت بھی نھیں تھی، لیکن حنبلیوں نے کھا: علماء نے اس کے اختلافات کو اھم شمار کیا ہے، اس پر طبری نے جواب دیا: میں نے نہ اس سے کوئی روایت دیکھی ہے ، اور نہ اس کے کسی مودر اعتماد صحابی سے ملاقات کی ہے جو اس بارے میں مجھ سے نقل کرتا،اور خدا وندعالم کا عرش پر مستقر ھونے والی حدیث کا مسئلہ بھی ایک محال چیز ہے۔
جس وقت حنبلیوں اور اھل حدیث نے اس کی یہ بات سنی تواس پر حملہ شروع کردیا، اور اپنی دواتوں کو اس کی طرف پھینکنا شروع کردیا، وہ یہ سب دیکھ کر وھاں سے نکل بھاگے، لیکن حنبلیوں کی تعداد چونکہ تقریباً ایک ھزار تھی اس کے گھر پرپتھروں سے حملہ کردیا یھاں تک کہ اس کے گھر کے سامنے پتھروں کا ایک ڈھیر لگ گیا۔
بغداد کا صاحب شرطہ حاکم ”نازوک“ ھزار سپاھیوں کا لشکر لے کر وھاں پھونچا اور طبری صاحب کو ان کے شر سے نجات دلائی، اور پورے ایک دن وھاں رھا، اور حکم صادر کیا کہ اس کے گھر کے سامنے سے پتھروں کے ڈھیر کو ھٹایا جائے۔(۲)
حنبلی مذھب کے علماء مثلاً ابن کثیر اور ابن عماد وغیرہ نے بربھاری کے بارے میں بھت باتیں بیان کی ہیں جن میں سے بعض مبالغہ ہیں، ابن کثیر اس کو ایک زاھد ، فقیہ اور واعظ کھتے ھوئے لکھتا ہے: چونکہ بربھاری کو اپنے باپ کی میراث کے سلسلے میں ایک شبہ پیدا ھوا جس کی بناپر اس نے میراث لینے سے انکار کردیا جبکہ اس کے باپ کی میراث ستّر ھزار (اور ابن عماد کے قول کے مطابق نوّے ھزار) درھم تھی۔
اسی طرح ابن کثیر فرماتے ہیں کہ : خاص عام کے نزدیک بربھاری کا بھت زیادہ احترام ا ور عزت تھی، ایک روز وعظ کے دوران اس کو چھینک آگئی تو تمام حاضرین نے اس کے لئے دعائے رحمت کرتے ھوئے جملۂ ”یرحمک اللہ"کھا جو چھینک آنے والے کے لئے کھنا مستحب ہے، اور یہ آواز گلی کوچوں تک پھونچی، اور جو بھی اس آواز کو سنتاتھا یرحمک اللہ کھتا تھا، اور اس جملہ کو تمام اھل بغداد نے کھنا شروع کردیا، یھاں تک کہ یہ آواز خلیفہ کے محل تک پھونچی، خلیفہ کو یہ شور شرابہ گراں گذار اور کچھ لوگوں نے اس کے بارے میں مزید بدگوئی کی جس کے نتیجہ میں خلیفہ نے اس کو گرفتار کرنے کی ٹھان لی لیکن وہ مخفی ھوگیا اور ایک ماہ بعد اس کا انتقال ھوگیا۔(۳) لیکن خلیفہ وقت کے ناراض ھونے اور اس کو گرفتار کرنے کے ارادہ کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ عام عقیدوں کی مخالفت کرتا تھا اسی وجہ سے خلیفہ نے اس کے خلاف اپنا مشھور ومعروف حکم صادر کیا جس کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔
ابو علی مُسکُویہ ۳۲۳ھجری کے حالات میں کھتا ہے کہ اسی سال بَدرخَرشنی(صاحب شُرطہ) نے بغداد میں یہ اعلان کروایا کہ ابو محمد بربھاری (۴) کے مریدوں میں کوئی بھی دوآدمی ایک جگہ جمع نہ ھوں ،بدر خرشنی نے اس کے مریدوں کو جیل میں ڈالوادیا لیکن بربھاری وھاں سے بھاگ نکلے یا مخفی ھوگئے، اس مذکورہ کام کی وجہ یہ تھی کہ بربھاری اور اس کے پیروکار ھمیشہ فتنہ وفساد کرتے رھتے تھے. اس گروہ کے سلسلے میں خلیفہ الراضی کا ایک فرمان صادر ھوا جس میں بربھاری کے مریدوں کے عقائد مثلاً شیعوں کی طرف کفر وضلالت کی نسبت دینا اور ائمہ کی قبور کی زیارت وغیرہ کو ناجائز ماننا جیسے امور کا تذکرہ تھا اور ان کو اس بات سے ڈارا گیا تھا کہ یا تو وہ اس کام سے باز آجائیں ، ورنہ ان کی گردن قلم کردی جائے گی،اور ان کے گھر اور محلوں کو آگ لگادی جائے گی (۵)
ابن اثیر حنبلیوں کے بغداد میں فتنہ وفساد کے بارے میں اس طرح رقمطراز ہے کہ ۳۲۳ ء میں حنبلیوں نے بغداد میں کافی اثر ورسوخ پیدا کرلیا اور قدرت حاصل کرلی، بدرخرشنی صاحب شرطہ نے دسویں جمادی الآخر کو فرمان صادر کیا کہ بغداد میں یہ اعلان کردیا جائے کہ بربھاری کے مریدوں میں سے دو آدمی ایک ساتھ جمع نھیں ھوسکتے ، اور اپنے مذھب کے بارے میں کسی سے مناظرہ کرنے کا بھی حق نھیں رکھتے، اور ان کا امام جماعت نماز صبح ومغرب وعشاء میں بسم اللہ کو بلند اور آشکار کھے۔ لیکن بدرخرشنی کا یہ کام مفید ثابت نھیں ھوا بلکہ بربھاری کے مریدوں میں مزید فتنہ وفساد پھیل گیا۔
ان کاایک کام یہ تھا کہ وہ نابینا حضرات جو مسجدوں میں اپنی پناہ گاہ بنائے ھوئے تھے انھیں اس کام کے لئے آمادہ کرتے تھے کہ جو بھی شافعی مذھب مسجد میں داخل ھو، اس کو اتنا مارو کہ وہ موت کے قریب پھونچ جائے۔
ابن اثیر خلیفہ راضی کی حنبلیوں کے بارے میں فرمان کے متعلق گفتگو کرتے ھوئے یوں تحریر کرتاہے کہ خلیفہ راضی نے بربھاری کے مریدوں پر سختی کی اور ان کو ڈرایا ، کیونکہ وہ خدا وندعالم کی مثل اور تشبیہ کے قائل تھے اور خداوند عالم کی ھاتھ کی ھتھیلی اور دوپیر اور سونے کے جوتے اور گیسوٴں والا مانتے تھے اور کھتے تھے کہ خداوند عالم آسمانوں میں اوپر جاتا ہے اور دنیا میں نازل ھوتا ہے ، اور منتخب ائمہ پر طعنہ زنی کرتے تھے اور شیعوں کو کفر وگمراھی کی نسبت دیتے تھے، اور دیگر مسلمانوں کو کھلی بدعتوں کی طرف دعوت دیتے تھے جن کا قرآن مجید میں کھیں تذکرہ تک نھیں، اور ائمہ (ع)کی زیارتوں کو منع کرتے تھے اور زائرین کے عمل کو ایک برے عمل سے یاد کرتے تھے۔(۶)
بربھاری ۳۲۹ھجری میں ۹۶/سال کی عمر میں مرگیا، درحالیکہ کسی ایک عورت کے گھر میں چھپا ھوا تھا ، اور اس کو اسی گھر میں بغیر کسی دوسرے کی اطلاع کے غسل وکفن کے بعد دفن کردیا گیا۔(۷) لیکن ابن اثیر اس سلسلہ میں کھتا ہے کہ : بر بھاری حنبلیوں کا رئیس جو مخفی طور پر زندگی گذار رھا تھا ۳۲۹ء ہ میں ۷۶ سال کی عمر میں فوت ھوا ، اور اس کو ” نصر قشوری “قبرستان میں دفن کیا گیا۔(۸)
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ بربھاری کے بارے میں خلیفہ الراضی کا فرمان ان عقائد کی طرف اشارہ کررھا ہے جو بعد میں ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوھاب کے ذریعہ ظاھر ھوئے، (اور فرقہ وھابیت تشکیل پایا)۔
بربھاری کے عقائد اور نظریات کا خلاصہ
مسئلہ زیارت اور چند دوسرے مذکورہ مسائل کے علاوہ بربھاری کے کچھ اور بھی عقائد تھے ھم یھاں صرف ابن عماد حنبلی کے قول کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں:
بربھاری نے شرح کتاب السنة میں کھا: اس زمانہ میں جو کچھ بھی لوگوں سے سنوں ، اس کو قبول کرنے میں جلدی نہ کرو، اور اس کے مطابق عمل نہ کرو، یھاں تک کہ کسی دوسرے سے یہ معلوم کرلوکہ اس سلسلہ میں اصحاب پیغمبر یا علماء اسلام نے نظریہ بیان کیا ہے یا نھیں؟ اور اگر معلوم ھوگیا کہ ان باتوں پر اصحاب پیغمبر یا علماء کرام میں سے کسی نے فرمایا ہے تو اس پر عمل کیا جائے لیکن اس کے علاوہ دوسری باتوں پر عمل نہ کرو، ورنہ مستحق جھنم ھوجاؤ گے۔
جیسا کہ خداوندعالم کے بارے میں کچھ نئی نئی باتیں پیدا ھوگئی ہیں جو بدعتیں اور گمراھی کےعلاوہ کچھ بھی نھیں ہے،(لھٰذا ان کو قبول نھیں کرنا چاھئے) خداوندعالم کے بارے میں صرف وہی باتیں کھیں جاسکتی ہیں جن کو خود خداوندعالم نے قرآن مجید میں اپنے بارے میں بیان فرمائی ہیں یا پیغمبر اکرم (ص)نے اصحاب کے مجمع میں ان کو بیان فرمایا ھو۔ ھم لوگوں کو چاھئے کہ خدا وندعالم کا روز قیامت انھیں سر کی آنکھوں سے دیدار ھونے پر عقیدہ رکھیں، اور روز قیامت خود خداوندعالم بغیر کسی پردہ اور حجاب کے لوگوں کے حساب وکتاب کے لئے سب کے سامنے آئے گا۔
اسی طرح یہ ایمان بھی رکھنا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے لئے روز قیامت ایک حوض ھوگی، اور تمام دیگرپیغمبروں کے لئے بھی ایک حوض ھوگی، سوائے صالح پیغمبر کے ،کہ ان کی حوض ان کے ناقہ (اونٹنی)کی پستان ھوگی۔
اسی طرح یہ عقیدہ بھی رکھنا ضروری ہے کہ حضرت رسول اکرم (ص)روز قیامت پل صراط کے موقع پر تمام گناھگاروں اور خطا کاروں کی شفاعت کریں گے، اور ان کو نجات دلائیں گے،نیز تمام پیغمبروں، صدّقین اور شھداء وصالحین کو روز قیامت حق شفاعت ھوگا۔
اسی طرح اس بات پر بھی ایمان رکھنا ضروری ہے کہ خداوندعالم نے جنت وجھنم کو خلق کررکھا ہے اور جنت ساتویں آسمان پر ہے اور اس کی چھت عرش ہے، اور دوزخ زمین کے ساتویں طبقہ میں ہے۔
نیز اسی طرح یہ عقیدہ بھی ضروری ہے کہ حضرت عیسیٰ(ع)آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے، اور دجّال کو قتل کریں گے اور شادی کریں گے، اور قائم آل محمد (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے پیچھے نماز پڑھیں گے، اس کے بعد اس دنیا سے چلے جائیں گے۔
جو شخص کسی بدعت گزار کی تشییع جنازہ میں شرکت کرے تو وہ وھاں سے واپس لوٹ آنے تک خدا کا دشمن ہے ، وغیرہ وغیرہ ۔(۹)
حوالہ جات:
۱۔ نشوار المحاضرہ ج۲ ص ۱۳۴وہی مدرک:بربھاری کے مریدوں نے بغداد میں ایک مسجد بنائی جو فتنہ وفساد کا مرکز تھا اسی وجہ سے دوسرے لوگ اس کو مسجد ضَرار کھتے تھے، (اور اس مسجد کو پیغمبر اکرم کے ذریعہ گرائی جانے والی مسجد ضرار کی طرح جانتے تھے) چنانچہ اس وقت کے وزیر علی ابن عیسیٰ سے شکایت کی جس کی بناپر اس نے اس مسجد کے گرانے کا حکم صادر کردیا.
۲۔ ارشاد یاقوت ج۶ ص ۴۳۶.
۳۔ البدایہ والنھایہ ج۱۱ص ۲۰۱.
۴۔ بربَھاری ، بھار کی طرف نسبت ہے، جوحشیش کی طرح ایک قسم کی دوائی ہے ،اور وہ ھندوستان میں پائی جاتی ہے.(سمعانی مادہ بربھاری)
۵۔ تجارب الامم ج۵ ص ۳۲۲، خلیفہ کا فرمان اس کتاب میں موجود ہے ، خلیفہ کے فرمان سے ظاھر یہ ھوتا ہے کہ بربھاری کے مرید زائرین قبور ائمہ کو بدعت گذار گردانتے تھے، لیکن ایک عام آدمی کی قبر کی زیارت کا حکم دیتے تھے، جس کو رسول اللہ سے کوئی نسبت بھی نھیں تھی.
۶۔ الکامل ج۶ ص ۲۴۸. خلیفہ الراضی کے فرمان میں خداوندعالم کے بارے میں بربھاری کے مریدوں کے نظریات کو اجمالی اورمختصر طور پر ذکر کیا گیاہے ، لیکن ابن اثیر نے جیسا کہ آپ حضرات نے مذکورہ عبارت میں دیکھا ان کی باتوں کے بارے میں وضاحت کی ہے، ابو الفداء نے بھی اپنی تاریخ (ج۲ص۱۰۳) میں خلیفہ کے فرمان کے بارے میں اس طرح نقل کیا ہے کہ تم یہ گمان کرتے ھو کہ تمھارا بدنما چھرہ خداوندعالم کی چھرہ کی طرح ہے، اور تمھاری شکل وصورت خداوندعالم کی طرح ھے، اور خداوند عالم کے لئے گُندھے ھوئے بالوں کا ذکر کرتے ھو اور کھتے ھو کہ خداوندعالم آسمانوں میں اڑتا ہے اوپر جاتا ہے اور کبھی نیچے آتا ہے.
۷۔ المنتظم ابن الجوزی ج۶ ص ۳۲.
۸۔ الکامل ج۶ ص ۲۸۲.
۹۔ خلاصہ از شذرات الذھب ابن عماد ج ۲ ص ۳۲۱.
بربَھاری کا واقعہ
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیت کی تاریخ
- بازدید: 3646
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
1
Online