تاریخ وھابیت ایک ایسی پینٹنگ کی مانند ہے جس میں تشدد اور انتھا پسندی کے رنگ بھرے ہیں۔ محمد بن سعود کے ساتھ ابن وھاب کا اتحاد امت اسلام کے لئے بڑا منحوس ثابت ھوا۔
اسی اتحاد کا نتیجہ تھا کہ نجدی بدووں نے اطراف و اکناف کے علاقوں کے بے گناہ مردوں، خواتین اور بچے بوڑھوں کا نھایت ھی بھیمانہ طریقے سے قتل عام کیا اور ان کی مال و دولت کو لوٹتے رھے۔
عبدالوھاب کے بعد اس کےبیٹوں نے بھی اس کی راہ کو جاری رکھا اسی طرح محمد بن سعود کے بیٹوں نےبھی اپنے آبائي اتحاد کو جاری رکھتے ھوئے اپنے نئے فرقے کی ترویج میں کوئي کسر نھیں چھوڑی۔
عبدالعزیز بن محمد بن سعود نے وھابیت کو پھیلانے میں بڑا اھم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے نھایت ھی بے رحمی سے مسلمانوں کا قتل عام کرکے سارے جزیرۃ العرب میں رعب و وحشت پھیلادیا تھا۔ اسی وھابی حکمران نے اپنے بیٹے سعود کے ھمراہ عالم اسلام کے مقدس ترین شھروں منجملہ مکہ و مدینے میں موجود مقدس مقامات کو منھدم کرکے ان شھروں پر قبضہ کرلیا تھا۔
علماء اسلام کا خیال ہے کہ اگر عبدالعزیز بن سعود اور اسکے بیٹوں کا تشدد نہ ھوتا تو نہ فرقہ وھابیت پھیل سکتا تھا اور نہ ھی حجاز میں سعودی حکومت قائم ھوسکتی تھی۔
وھابیوں اور آل سعود کا یہ شیوہ بن چکا تھا کہ ھر غیر وھابی خواہ سنی ھو یا شیعہ واجب القتل ہے اور اس کا مال و ناموس مباح ہیں۔ جب تک تیل کا انکشاف نھیں ھوا تھا وھابی مسلمانوں کے قتل و غارت سے اپنا خرچ پورا کرتے تھے۔
عبدالعزیز اور سعود کے مکہ، مدینے اور طائف پر قابض ھونے سے سارے جزیرۃ العرب میں ان کا رعب پھیل گيا۔ آل سعود اور وھابی سپاہ نے مکے مدینے اور طائف پرحملوں کے دوران مشاھد مقدسہ کو مسمار کردیا جن میں اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افراد کی بھی مطھر قبریں تھیں۔
وھابیوں نے حرمین شریفین میں آل رسول کے مقبروں کوویران کرکے اپنے خشک اور جاھلانہ افکار ونظریات کو رواج دینے کی بھر پور کوشش کی۔
وھابیوں نے کربلا و نجف پر حملے کرنے کےبعد اٹھارہ سو دو میں حجاز کے دیگر شھر یعنی طائف پر حملہ کیا۔ یہ حملہ عبدالعزیز کے زمانے میں اور اسکے بیٹے سعود کی کمان میں کیا۔''
عراق کے نامدار شاھر جمیل صدیقی زھاوی طائف پر وھابیوں کےقبض کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وھابیوں کے گھناونے ترین جرائم میں اھل طائف کا قتل عام ہے، وھابیوں نے چھوٹے بڑےکسی پر رحم نھیں کیا، انھوں نے شیر خوار بچوں کو تک نھیں بخشا اور ماؤں کی گودوں میں بچوں کو ذبح کردیا، قران کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا ء کا قتل عام کیا اور جب گھروں میں کوئي باقی نہ بچا تو دوکانوں اور بازاروں کا رخ کرکے لوٹ مارمچائي اور مسجدوں کو بھی نھیں چھوڑا جو بھی ان مقامات میں پایا گيا اسے تہ تیغ کردیا یھاں تک کہ رکوع و سجود میں بھی لوگوں کو قتل کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ وھابی جارحین نے قرآن کریم اور صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر حدیث کی کتابوں کو راستوں میں پھینک دیا اور انھیں روندتے ھوئے گذر گئے۔
وھابیوں نے طائف کے عوام کا قتل عام کرنے کے بعد علماء مکہ کے نام ایک خط بھیجا اور انھیں وھابیت قبول کرنے کی دعوت دی۔ شاہ فضل رسول قادری عرف ھندی نے اپنی کتاب سیف الجبار میں لکھا ہےکہ علماء مکہ نے خانہ کعبہ کے پاس جمع ھوکر وھابیوں کےخط کا جواب لکھنا شروع کیا۔ جب یہ خط لکھا جارھا تھا تو طائف کے لٹے ھوئے لوگوں کا ایک قافلہ مکہ پھنچا اور انھوں نے اپنی روداد سنائي ۔ مکہ میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئي کہ وھابی مکے پر حملہ کرنےوالے ہیں ۔ لوگوں میں اس خبر سے وحشت پھیل گئي۔
دوسری طرف سے مذاھب اربعہ کے مفتیوں اور علماء نے جو دیگر اسلامی شھروں سے حج اور عمرہ کرنے مکہ آئےھوئے تھے وھابیوں کوکافر قراردیتے ھوئے کھا کہ وھابی مسلمان نھیں ہیں اور ان کے خلاف جھاد کرنا واجب ہے۔ علماء نے امیر مکہ سے اصرار کیا کہ وھابیوں کےخلاف صف آرائي کرے اور جنگ کے لئے تیار ھوجائے۔
وھابیوں کے خلاف جھاد پر علماء اسلام کے اتفاق کے باوجود مکہ کے باشندے وھابیوں کے خلاف جنگ پر آمادہ نہ ھوئے۔ سعودبن عبدالعزیز نے مکہ کے نام ایک اور خط لکھ کر دھمکی دی کہ تین دنوں کے اندر اندر خانہ خدا کے زائرین کے ھمراہ مکہ خالی کردیا جائے۔ اس دھمکی کے بعد مکے کے امیر نے بعض فضلا اور علماء کے ھمراہ سعود بن عبدالعزیز سے ملاقات کی اور مکے کے لئے امان کی درخواست کی۔ سعود نے ان کے لئے امان نامہ لکھا اور بارہ سو اٹھارہ میں محرم کے مھینے میں مکے میں بغیر جنگ کے داخل ھوا۔
اس نے اھل مکہ کو جمع کرکے انھیں وھابیت کی طرف دعوت دی اور ان سے بیعت لی۔ اس نے خدا رسول اور اسلام کے بارے میں اپنے نظریات کے مطابق گفتگو کی اور مکے لوگوں کو مجبور کیا کہ اس کی سپاہ کے ھمراہ مکے بھر میں موجود مقدس مقامات کو مسمار کردیں۔
وھابیوں نے مکہ معظمہ پر تسلط حاصل کرنے کےبعد بزرگان دین کے مقبروں کو مسمار کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے پیدائش کی گنبد مسمار کردی اسی طرح حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام، حضرت خدیجہ علیھماالسلام اور ابو بکر جائے پیدائش کی گنبدوں کو مسمار کردیا۔
وھابیوں نے خانہ خدا کے اطراف اور زمزم کنویں پر بنائي گئي عمارتیں منھدم کردیں۔ وھابی جب مقدس مقامات کو منھدم کرتے تو ناچ گانے میں مشغول ھوجاتے تھے۔ وہ مقدس مقامات کو گراتے ھوئے ڈھول بجاتے تھے اور ناچتے تھے۔
کویت کے اھل سنت دانشور ڈاکٹر رفاعی اپنی کتاب " وھابی بھائيوں کے لئے نصیحت " کے زیر عنوان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریک حیات ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبری کی رھائيش گاہ منھدم کرنے پر راضی ھوگئے اور کسی طرح کی رد عمل ظاھر نہ کیا جبکہ وہ گھر محل نزول وحی قرآن تھا، آپ لوگ خدا سے نھیں ڈرتے اور پیغمبر سے شرم نھیں کرتے۔
وہ لکھتے ہیں کہ تم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے پیدائش کو ویران کرکے وھاں مال مویشی کا بازار بنادیا لیکن خدا نے صالح افراد کے ذریعے اس مقدس مقام کو تمھارے چنگل سے نکال کر کتب خانے میں تبدیل کردیا۔
وھابیوں کا ایک ظالمانہ ترین اقدام مکہ میں موجود عظیم کتب خانے میں آگ لگاکر اسے خاکستر میں تبدیل کرنا تھا۔ اس عظیم کتب خانے کا نام المکتب العربیہ تھا اور اس میں ساٹھ ھزار کتابیں تھیں، جن میں چالیس ھزار قلمی نسخے تھے۔ ان قلمی نسخوں میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے دستھائے مبارک کا لکھا ھوا قران کریم بھی تھا، اسکے علاوہ صحابہ کرام کے لکھے ھوئے مصاحف نیز کتابیں بھی تھیں۔
اس کتب خانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ھتھیار بھی حفاظت سے رکھے گئے تھے۔ اس میں زمانہ جاھلیت کے بت جیسے لات و عزی اور مناۃ بھی رکھے گئے تھے۔
مورخین کا کھنا ہے کہ وھابیوں نے شرک و کفر کے آثار کا بھانہ بنا کر اس کتب خانے کو آگ لگائي تھی اور ایک تاریخی خزانہ کو لمحوں میں خاک میں ملادیا تھا۔
ماضی کی تاریخ اور بزرگوں کے تاریخی آثار کی حفاظت تھذیب و تمدن کا اھم جز شمار ھوتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تاریخ و تھذیب کی عکاسی کرنے میں تاریخی آثار اھم کردار ادا کرتے ہیں اسی وجہ سے حکومتیں اور قومیں اپنی ماضی کے آثار کی حفاظت کرتی ہیں، اسکے علاوہ انھیں دیکھ کرعبرت حاصل کی جاسکتی ہے ، اسی بناپر آج کی قومیں اپنے ماضی کے آثار کی حفاظت کرنے میں بڑی محنت کرتی ہیں۔
اسلام جو تمام تھذیبوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور انسانی اصولوں پر مشتمل اس نے بھی بزرگوں کے آثار کی حفاظت پر تاکید کی ہے بنابریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اھل بیت و اصحاب کی یادگار اشیاء کی حفاظت کرنا، انھیں خراج عقیدت پیش کرنا اور ان کی زحمتوں کی قدردانی کرنے کے معنی میں ہے اور اس کے برعکس ان کے آثار کو مٹانا فکری جمود، ھٹ دھرمی اور جھالت کی علامت ہے۔
تاریخ کی کتابیں اور سفرنامے گواھی دے رھےہیں کہ حجاز اور دیگر اسلامی سرزمینوں جاھلانہ تعصب کے مارے وھابیوں نے سیکڑوں مقبرے اور مقدس مقامات شرک کو کفر کے بھانے منھدم کئے ہیں۔
وھابیت تاریخ کے آئینے میں
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیت کی تاریخ
- بازدید: 3421
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
3
Online