سعودی عرب کی وزارت انصاف کے مشیر اور تکفیری مفتی شیخ عبدالمحسن العبیکان نے متنازعہ اور عجیب و غریب فتوی دے کر اسلامی تعلیمات و احکام میں موجود محرم اور نا محرم کی قید کی دھجیاں اڑادی ہیں جس کی وجہ سے عالم اسلام کے مختلف ذرائع میں تنازعہ کھڑا ھوگیا ہے۔
نھرین نیٹ اور "دنیا الوطن" ویب سائٹوں نے رپورٹ دی ہے کہ شیخ العبیکان نے حالیہ جمعہ کی نماز کے خطبوں میں اپنے سے منسوب فتوے کی تصدیق کی ہے جس میں انھوں نے نامحرم مرد اور عورت کے درمیان اسلام کی متعینہ حدود کو پامال کرتے ھوئے حرام تعلق کو جائز قرار دیا تھا اور کھا گیا تھا کہ عورت بالغ اجنبی مرد کو دودھ پلاسکتی ہے۔
العبیکان نے کھا ہے کہ ان کے فتوی کی بنیاد سلفیت کے بانی "شیخ ابن تیمیہ" کا فتوی ہے اور شیخ ابن تیمیہ کا فتوی کسی خاص زمانے تک ھی محدود نھیں ہے اور تمام زمانوں اور مکانوں کے لئے ہے۔
یہ فتوی اور شیخ کی طرف سے اس کی تصدیق اور اس کے بعد ٹیلی ویژن پر اسی فتوے کی تصدیق کے حوالے سے شیخ العبیکان کے بیان کے بعد اسلامی دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ نے اس خبر کو وسیع کوریج دی ہے۔
"مصدر ألالکترونیۃ" نامی جریدے نے سب سے پھلے شیخ کے بیان کی ویڈیو بھی ناظرین و صارفین کے سامنے پیش کردی ہے اور متفقہ اور متضاد فتاوی کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ھوا۔
یادرھے کہ گذشتہ برسوں کے دوران بھی "بالغ اجنبی مرد کو دودھ پلانے اور العبیکان کے بقول نامحرموں کو اس طریقے سے محرم بنانے" کے متعدد فتاوی کی وجہ سے دینی مدارس کے طلباء اور علماء و اساتذہ میں تنازعہ کھڑا ھوگیا ہے اور یہ عمل دنیا کی مسلمانوں کے درمیان بھی جدل کا باعث بنا۔
العبیکان نے گذشتہ برسوں کے دوران متعدد بار اس فتوے پر تأکید کی ہے۔ شیخ العبیکان نے اس فتوے سے متفق علماء کی ایک عالمی تنظیم بنانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان حرام رابطے کے جواز کے سلسلے میں ابن تیمیہ کے اس قسم کے فتووں کے نتائج کا پھلا اھم نمونہ مئی 2007 میں اس وقت سامنے آیا جب جامعۃالازھر کے حدیث ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر عزت عطیہ نے اداروں اور دفاتر میں اجنبی مردوں اور عورتوں کے درمیان اس حرام تعلق کی اجازت دے دی اور الازھر کی مجلس اعلی نے شیخ عزت عطیہ کو معطل کرکے ان کے بارے میں تفتیش کے احکامات جاری کردیئے۔
مصر کے سرکاری خبررساں اداری "الشرق الاوسط المصریۃ" کے مطابق ڈاکٹر عزت عطیہ کی معطلی کا حکم، ان کے خلاف اقدامات کرنے کے سلسلے میں الازھر کے مشائخ کے فرمان کے بعد جاری کیا گیا اور مشائخ کے حکم کا سبب یہ تھا کہ شیخ عطیہ کے فتوے نے عظیم تنازعہ کھڑا کردیا تھا جو الازھر کے احاطے سے نکل کر مصری پارلیمان تک کو جدل و نزاع سے دچار کرچکا تھا جبکہ العبیکان کے فتوے کو سعودی سرکاری اداروں اور وزارت انصاف کی جانب سے کسی قسم کی رکاوٹ یا مخالفت کا سامنا نھیں کرنا پڑا ہے جس سے معلوم ھوتا ہے کہ سعودی حکمران ادارے اس فتوے سے راضی اور خوشنود ہیں!!!
یہ فتوی ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ تکفیری مفتی حیرت و سرگردانی کی حالت میں ایسے فتوے جاری کرتے ہیں جو حرام کو حلال کرتے ہیں اور حلال کو حرام کردیتے ہیں اور ان میں تجزیہ و تحلیل کی نہ تو کوئی گنجائش ہے اور نہ ھی یہ مفتی صاحبان تجزیئے اور تحلیل اور ان فتووں کے اثرات و نتائج کا اندازہ لگانے کے اھل ہیں۔
وہ ان فتووں کے ذریعے نہ صرف دین اسلام کے ابدی اور آفاقی احکام کی عظمت و حقانیت ثابت نھیں کررھے ہیں بلکہ انھیں شدید نقصان پھنچا کر اسلام کی عالمی جگ ھنسائی کا سامان فراھم کرتے ہیں۔ ان کے فتوے عام طور پر دیگر اسلامی مذاھب کی جانب سے رد کئے جاتے ہیں اور ان کی مخالفت کی جاتی ہیں۔
یھی مفتی صاحبان جو اتنی آسانی سے ابن تیمیہ کا حوالہ دے کر اللہ کے حرام کو حلال قرار دیتے ہیں اور نامحرم مردوں اور عورتوں کے درمیان اتنے قریبی رابطے کو جائز اور حلال قرار دیتے ہیں اس سے قبل عورتوں کی ڈرائیونگ کی مخالفت میں فتوے دے چکے ہیں اور ان کا ایک فتوی یہ بھی ہے کہ کسی بھی عورت کو محرم شخص کی موجودگی کے بغیر انٹرنیٹ استعمال کرنا جائز نھیں ہے؛ اور یھی لوگ انسانوں کے وسیع قتل عام کے بھی فتوے دیتے ہیں، یمن اور عراق اور سوریہ جیسے ممالک میں ھزاروں افراد کے خون میں حصہ لیتے ہیں اور اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیروکاروں کے کفر اور ان کے قتل کے جواز کے فتوے دیتے ہیں اور دیگر سنی مذاھب کا بآسانی مذاق اڑاتے ہیں اور ان کو خارج از اسلام قرار دیتے ہیں یھاں آکر اجنبی مرد کو اجنبی عورت کی آغوش تک میں سونے اور اس کا دودھ پینے تک کی اجازت دے دیتے ہیں اور چادر و چار دیواری اور اسلامی حجاب اور دیگر حدود الھی کی پامالی کو جائز قرار دیتے ہیں!!!؟
کیا یھاں عقل و منطق کے لئے بھی کوئی سبیل ہے؟وھابی نظریہ رضاعت:اگر کوئی بھی مرد (خواہ عمر کی کسی بھی مرحلے میں کیوں نہ ھو، کسی عورت کا دودھ پئے؛ خواہ اس دودھ سے اس کے بدن کی نشوونما پر کوئی اثر بھی نہ پڑا ھو، وہ عورت اور وہ مرد ماں اور بیٹا بن کر محرم ھوجاتے ہیں۔
العبیکان نے یھاں ابن تیمیہ کے حوالے سے بالغ آدمی کے لئے اجنبی عورت کا دودھ پینا جائز قرار دیا ہے اور ابن تیمیہ نے بھی بظاھر درج ذیل مأخذ سے یہ فتوی اخذ کیا ہے:مسند أحمد 6 / 270 271 - كتاب الرضاع 2 / 115 ـ كتاب الرضاع؛ كتاب الأم للمزني ص 445 - 446 ، الطبعۃ الثانيۃ ، دار المعرفۃ 1392 1973 ۔ صحيح مسلم باب رضاعۃ الكبير 4 / 168 170ـ سنن النسائي؛ باب رضاع الكبير ؛ کتاب النكاح 2 / 84 ـ طبقات ابن سعد 8 / 270 271 بترجمۃ سھلۃ ، وفي روايتہ : أبى أزواج النبي صلى اللہ عليہ وآلہ أن يأخذن بھذا ، وقلن : انما ھذہ رخصۃ من رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ لسھلۃ ، وفي ترجمۃ سالم 3 / 87 ، من الطبقات قريب منہ۔
اسلام کا نظریہ رضاعت:
دودہ پلانے کے ذريعے محرم بننے کی شرائط محرم بننے کے لئے دودہ پلانے کی آٹہ شرائط ہيں:
۱۔بچہ زندہ عورت کا دودھ پئے۔
۲۔عورت کا دودہ ولادت کی وجہ سے ھو اور حرام کا نہ ھو۔ لہٰذا اگر زنا کی وجہ سے عورت کی چھاتی ميں دودھ آجائے اور کسی بچے کو پلائے تو اس سے وہ بچہ کسی کا محرم نھيں بن سکتا؛ بچے کا باپ بھی رضامند ھونا ضروری ہے۔
۳۔ بچہ چھاتی سے ھی دودھ پئے، لہٰذا گر دودھ صرف اس کے گلے ميں انڈیل دیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہ ھوگا۔
۴۔عورت کا دودھ کسی اور چيز سے ملا ھوا نہ ھو۔
۵۔ دودھ ایک ھی شوھر سے تعلق رکھتا ھو۔ لہٰذا اگر دودھ پلانے والی عورت کو طلاق دے دی جائے، پھر وہ دوسری شادی کرلے اور نئے شوھر سے حاملہ ھوجائے اور زچگی سے پھلے تک سابق شوھر والا دودھ باقی ھو اور مثلاً آٹھ مرتبہ زچگی سے پھلے، سابق شوھر والا دودھ اور سات مرتبہ زچگی کے بعد دوسرے شوھر والا دودھ کسی بچے کو پلائے تو یہ بچہ متعلقہ عورت ا محرم نھيں بنے گا۔
۶۔ بچہ دودھ کی قے نہ کردے اور اگر قے کردے تو احتياط واجب کی بنا پر وہ افراد جو دودھ پلانے کی وجہ سے اس کے محرم بنيں گے اس سے شادی نہ کریں اور نہ ھی اس پرمحرمانہ نظر ڈاليں۔
٧۔پندرہ بار یا ایک شب و روز سير ھو کر دودھ پئے یا اتنا دودھ پئے کہ کھا جاسکے کہ اس دودھ سے اس کی ھڈیاں مضبوط ھوئی ہيں اور اس کے بدن پر گوشت چڑھا ہے اور اس کی نشو و نما میں مدد ملی ہے۔ اگر عورت بچے کو دس بار دودھ پلائے تو احتياط مستحب یہ ہے کہ دودھ پينے کی وجہ سے جو اس کے محرم بنتے ہيں، وہ اس سے شادی نہ کریں، اور محرمانہ نظر بھی اس پرنہ ڈاليں۔
۸۔ اجنبی عورت کا دودھ پینے والا بچہ دو سال کا نہ ھو چکا ھو۔ لہٰذا اگر دو سالہ ھو جانے کے بعد کسی عورت کا دودھ پئےتو اس وجہ سے وہ اس عورت کا محرم نھيں بنے گا، بلکہ اگر مثلاً دو سال مکمل ھونے سے پھلے آٹھ مرتبہ اوردوسال مکمل ھونے کے بعد سات مرتبہ کسی عورت کا دودھ پئے تو بھی کسی کا محرم نھيں بنے گا۔ ھاں، اگر دودھ پلانے والی عورت کے زچگی کے بعد سے دو سال گزر چکے ھوں اور ابھی اس کی چھاتی سے دودھ آتا ھو اور کسی بچے کو دودھ پلائے تو وہ بچہ مذکورہ افراد کامحرم بن جائے گا۔
مسئلہ: ضروری ہے کہ بچہ ایک روز و شب ميں کوئی غذا نہ کھائے یا کسی اور کا دودھ نہ پئے ۔ ھاں، اگر اتنی مختصر غذا کھائے کہ اسے "غذا کھانا" نہ کھا جا سکے تو کوئی حرج نھيں ہے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ پندرہ مرتبہ ایک ھی عورت کا دودھ پئے اور اس پندرہ مرتبہ دودھ پینے کے عرصے کے دوران کسی اور عورت کا دودھ نہ پئے۔ ھر مرتبہ بغير کسی فاصلے کے مکمل سير ھو کر دودھ پئے۔ ھاں، اگر درميان ميں سانس لينے کے لئے رکے یا کچھ صبر کرے، اتنا کہ پھلی مرتبہ چھاتی منہ ميں لينے سے لے کر سير ھونے تک کو عرفاً یہ کھا جائے کہ اس نے حقيقتاً ایک ھی بار دودھ پيا ہے، تو کوئی حرج نھيں۔
"رضاعۃ الکبیر"؛ سعودی مفتی کا متنازعہ فتوی
- توضیحات
- نوشته شده توسط admin
- دسته: وھابیت کے عجیب و غریب فتوے
- بازدید: 7221
شبهات اور جوابات
مقالات
وزیٹر کاؤنٹر
Who Is Online
2
Online